تھیٹر ڈرامہ ’پوری‘، کہانی کا پس منظر کیا ہے؟

80 کی دہائی سے لاہور میں سٹریٹ تھیٹر کا آغاز کرنے والی زینب ڈار نے معاشرے کے پسماندہ طبقے، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق جیسے موضوعات اپنے ڈراموں میں اٹھائے۔ رواں ماہ ’پوری‘ کے نام سے رابندر ناتھ ٹیگور کی ایک کہانی کو انہوں نے اپنے ڈرامے کا موضوع بنایا۔

زینب نے حال ہی میں ’تحیر‘ کے نام سے فنون لطیفہ کے ایک ایسے  پلیٹ فارم کا اسلام آباد سے آغاز کیا، جہاں وہ اپنی مدد آپ کے تحت ہر زبان کے ادب کو اردو میں پیش کرتی ہیں (تصویر: تحیر آرٹ پروڈکشن)

’سچ کڑوا ہوتا ہے، مجھے اور میرے ساتھیوں کو معاشرے کی سچائیوں پر بات کرنے کے لیے جب کوئی سٹیج نہیں ملا تو میں نے اپنا ایک سٹوڈیو ’تحیر‘ کھول لیا، جہاں دقتیں تو ہیں، لیکن ان کی وجہ سے سچ بولنا تو نہیں چھوڑا جا سکتا۔‘

یہ کہنا ہے زینب ڈار کا، جنہوں نے 80 کی دہائی سے لاہور میں ’سٹریٹ تھیٹر‘ سے آغاز کیا۔ ابتدا ہی سے انہوں نے معاشرے کے پسماندہ طبقے، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق جیسے موضوعات پر کام کیا، یہاں تک کہ پانچ سال قبل انہوں نے اسلام آباد میں بھگت سنگھ پر بھی ایک شو کیا جسے لوک ورثہ میں عوام سے بھی بہت پذیرائی ملی۔

 زینب ڈار نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا ’میں انقلابی تھیٹر کرتی ہوں۔ ایسا تھیٹر جو معاشرے کے ان مسائل کو اجاگر کرے جس پر عموماً لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں، یا جن کا وہ سامنا نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ‘

زینب نے حال ہی میں ’تحیر‘ کے نام سے فنون لطیفہ کے ایک ایسے  پلیٹ فارم کا اسلام آباد سے آغاز کیا، جہاں وہ اپنی مدد آپ کے تحت ہر زبان کے ادب کو اردو میں پیش کرتی ہیں۔

’ہم ترقیاتی ادب کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں بلاتخصیص سب کو کتھک رقص بھی سکھایا جاتا ہے کیونکہ میرا ماننا ہے کہ فنون لطیفہ امن لانے میں بہت بڑا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس سے لوگوں کو یکجا کرسکتے ہیں۔‘

زینب نے بتایا کہ اگرچہ زیادہ تر لوگ تھیٹر کے ذریعے حاضرین کو محظوظ کرانے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم وہ اپنے تھیٹر کے ذریعے ’عوام کو ایجوکیٹ‘ کرتی ہیں۔

’پانچ سال قبل میں نے بھگت سنگھ  پر ایک ڈرامہ کیا تھا۔ اس میں ہم نے یہ موضوع نمایاں کیا تھا کہ کیا ہمارا قومی ہیرو کوئی ہندو، سکھ   یا مسیحی نہیں ہوسکتا؟ اگر وہ اس مٹی کا جنا ہے تو ہم کیوں اس کو نہیں اپناتے؟  اس کو اپنی نصاب کی کتابوں سے کیوں نکال باہر کیا جاتا ہے؟‘

 زینب کے مطابق ’اب ہمارا کام مزید منظم ہوگیا ہے اور آپ یوں سمجھ لیجیے کہ ایک سماجی تحریک ہے جس پر میری کوشش ہے کہ آج کی نسل کو اپنی ادب ، زبان اور جڑوں سے متعارف کروا سکوں۔‘

’پوری‘ کہانی کا پس منظر کیا ہے؟

رواں ماہ کی چوبیس، پچیس اور چھبیس تاریخ کو اسلام آباد میں زینب ڈار نے ایک تھیٹر شو پیش کیا، جس کی ڈائریکشن، کوریوگرافی اور سکرپٹ کے علاوہ اس میں لیڈ کردار بھی خود انہوں نے ادا کیا۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پوری‘ رابندر ناتھ ٹیگور کی ایک کہانی سے ماخوذ ہے اور چونکہ وہ ٹیگور کو ایک بہترین مصنف، شاعر اور فلسفی سمجھتی ہیں جنہوں نے زیادہ تر پسماندہ اور غریب طبقے کی خواتین پر لکھا ہے لہذا انہوں نے اس سال کے پہلے شو کے لیے انہیں منتخب کیا۔

’مجھے ٹیگور اس لیے پسند ہیں کہ وہ یہ کبھی نہیں کہتے کہ فلاں انسان غلط ہے اور یہ ٹھیک ہے۔ وہ معاشرے کے تانے بانے کے اندر رہنے والے تمام انسانوں کو اپنے مسائل میں گھرا دکھاتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ آپ کے فیصلے اسی تانے بانے سے جڑے ہوتے ہیں اور آپ جو بھی فیصلہ لیتے ہیں اس میں آپ کی ذات جھلکتی ہے۔‘

زینب ڈار نے بتایا کہ ’پوری‘ ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے جو اپنی ازدواجی زندگی ختم کرکے اپنی ذات کی تلاش میں نکلتی ہیں۔ ’یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو ازدواجی زندگی کے پندرہ سال بعد اپنی شادی کو صرف اس لیے ختم کرتی ہے کیونکہ وہ ان تمام چیزوں سے متفق نہیں تھی جو سماج میں ہورہی تھیں۔ وہ گھر کے کاموں کے علاوہ بھی زندگی میں کچھ کرنا چاہتی ہے۔لیکن  اس بات پر اس کو گھر میں باتیں سننے کو ملتی ہیں۔اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس کو چپ کرایا جاتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم سب جسمانی تشدد کی تو بہت بات کرتے ہیں، لیکن ذہنی و جذباتی تشدد پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔ جب کوئی آپ کو کہتا ہے کہ یہ آپ سے نہیں ہوگا یہ تمہارا کام نہیں ہے۔ اس سے انسان کی خوداعتمادی کو ٹھیس پہنچتا ہے۔ جب آپ کے پر کاٹنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ پر ہاتھوں سے نہیں کاٹے جاتے بلکہ الفاظ سے کاٹے جاتے ہیں۔الفاظ کی ضرب کسی بھی اوزار کی ضرب سے زیادہ کاری ہوتا ہے اور یہ بھی ہم اس ڈرامے کے ذریعے دکھا رہے ہیں۔‘

شو کے اختتام پر زینب ڈار نے بتایا کہ وہ اپنے ہر ڈرامے کے آخر میں ایک پیغام بھی دیتی ہیں ۔اور ’پوری‘ شو میں انہوں نے یہ پیغام دیا کہ ایک عورت خود اپنی ذات میں بھی پوری ہوتی ہے اور اس کو کسی سہارے کے ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں۔

’خدا نے ہر انسان کو مکمل بنایا ہے۔تو سہارے مت ڈھونڈیں۔ خود کو تلاش کریں اور اپنی پہچان خود بنیں اور اسی کے ساتھ آگے بڑھیں۔‘

زینب کا کہنا ہے کہ کمرشل تھیٹر کے برعکس ان کے کام کو کوئی فنڈ نہیں ملتا اور ان کے ساتھ جتنے ساتھی ہیں وہ سب یونیورسٹی کی طالبات و طالبعلم ہیں جو رضاکارانہ طور پر اس کام میں حصہ لیتے ہیں اور جن کے شو کے اخراجات زینب ٹکٹ سے پورا کرتی ہیں۔

’ہم ایک مناسب سا ٹکٹ رکھتے ہیں، جس سے پروڈکشن کا خرچ اور ان بچوں کے کھانے پینے کا خرچہ ہی پورا ہو جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم جہاں بھی اپنا سکرپٹ لے کر جاتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ اس میں جگتیں اور مزاح نہیں۔ اب اگر ہر موضوع کو ہم ہنسی مذاق میں اڑا دیں تو اصل موضوعات پر بات کب ہوگی؟تو یہ دقتیں تو ہیں لیکن ان دقتوں کی وجہ سے کوئی سچ بولنا تو نہیں چھوڑ دیتا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ