تھیٹر ڈرامہ: ’خاموش، بس اب چپ‘

لاہور کے الحمرا کلچرل کمپلیکس میں پیش کیے گئے ٹھیٹر ڈرامے کے ذریعے گذشتہ برس قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی زینب کو انوکھے انداز میں نہ صرف خراج عقیدت پیش کیا گیا، بلکہ بچوں نے یہ بات سمجھی اور سمجھائی بھی کہ انہیں اپنی حفاظت خود کیسے کرنی ہے۔

بچے بڑوں کی باتوں کو سمجھنے میں ذرا مشکل محسوس کرتے ہیں، لیکن اگر وہی بات بچوں کے ذریعے سمجھائی جائے تو وہ سمجھ بھی آجاتی ہے اور اس کا اثر بھی دیر تک قائم رہتا ہے۔ ایسی ہی ایک کاوش لاہور کے الحمرا کلچرل کمپلیکس، قدافی سٹیڈیم میں بھی کی گئی جہاں گذشتہ برس قصور میں زیادتی کے بعد قتل ہونے والی زینب کو انوکھے انداز میں نہ صرف خراج عقیدت پیش کیا گیا بلکہ بچوں نے یہ بات سمجھی اور سمجھائی بھی کہ انہیں اپنی حفاظت خود کیسے کرنی ہے۔

چھ سے بارہ برس کی عمر کے بچوں کی ایک ٹیم نے ہفتہ (13 اپریل) کو 'خاموش، بس اب چپ‘ کے عنوان سے ایک تھیٹر ڈرامہ پیش کیا۔

کہتے ہیں بچوں سے اداکاری کروانا جان جوکھوں کا کام ہے مگر یہ سبھی بچے تو کمال نکلے۔

انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم نے ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے سٹیج کے پیچھے جا کر جب ان کی تیاری دیکھی تو ہنسی بھی آئی اور فخر بھی ہوا کی یہ بچے انتہائی پر اعتماد تھے، لیکن پہلی بار سٹیج پر اتنے سارے حاظرین کے سامنے ایک بہت سنجیدہ مسئلے پر اپنی کارکردگی دکھانے سے قبل تھوڑی گھبرائے ہوئے بھی تھے، کچھ نے تو اس کا اعتراف بھی کیا کہ ان کے تو ہاتھ پاؤں پھول رہے ہیں۔

ڈرامے کے ڈائریکٹر حبیب چوہدری بچوں کی حوصلہ افزائی  کرتے رہے اور انہیں سین یاد کرواتے رہے اور پھر وقت آیا ڈرامے کا۔

سٹیج پر ان بچوں کی کارکردگی دیکھ کر یوں لگا کہ جیسے یہ ان کا پہلا ڈرامہ نہیں تھا۔

'خاموش، بس اب چپ‘ میں دکھایا گیا کہ گلی محلوں کے بچوں کی زندگی کیسی ہوتی ہے، وہ کافی پراعتماد ہوتے ہیں مگر پھر ایک دن اس علاقے میں منفی سوچ کا حامل ایک شخص آجاتا ہے اور ایک بچے کو تشدد کا نشانہ بنا کر مار ڈالتا ہے۔ اس ڈرامے میں یہ سبق بھی دیا گیا کہ والدین اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں تاکہ وہ کسی بڑے نقصان سے بچ سکیں۔

اس تھیٹر ڈرامے میں بچوں نے اپنی زبانی دیگر بچوں کو یہ بھی بتا دیا کہ انہیں معاشرے کے بے حس کرداروں سے اپنی حفاظت خود کیسے کرنی ہے۔

اس ڈرامے کو دیکھنے والوں میں بچوں اور ان کے والدین کے علاوہ کچھ اہم شخصیات بھی شامل تھیں، جن کے خیال میں بچوں کے لیے ایسے ڈرامے ہونے چاہییں، جس میں بچے ہی اپنا پیغام اپنے طریقے سے لوگوں تک پہنچائیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی فن