انڈیا: فیروز آباد میں کانچ کی چوڑیوں کی چمک دھندلانے لگی

انڈین ریاست اتر پردیش کے شہر فیروز آباد کا علاقہ اممبرہ کبھی چوڑیوں کے لیے مشہور شہر تھا، جہاں ہر گلی سے کانچ کی چوڑیوں کی کھنکتی ہوئی آواز سنائی دیتی تھی، لیکن آج یہ چمکتی دنیا دھندلا چکی ہے۔

انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر فیروز آباد کا علاقہ اممبرہ کبھی چوڑیوں کے لیے مشہور شہر تھا، جہاں ہر گلی سے کانچ کی چوڑیوں کی کھنکتی ہوئی آواز سنائی دیتی تھی، لیکن آج یہ چمکتی دنیا دھندلا چکی ہے۔

یہ علاقہ وفاقی دارالحکومت نئی دہلی سے تقریباً 200 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور کبھی چوڑیوں کی تجارت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ ایک وقت تھا جب یہاں ایک ہزار سے زیادہ کارخانے تھے، جن سے ہزاروں لوگوں کو روزگار ملتا تھا لیکن اب یہ تعداد کم ہو کر 200 سے کم رہ گئی ہے۔  

جدیدیت اور بدلتے ہوئے فیشن کے دور میں روایتی چوڑیاں اپنی چمک کھو رہی ہیں۔ اب لوگ پلاسٹک یا دیگر سستے متبادل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔

محمد اسلم گذشتہ 45 سالوں سے چوڑیوں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ انہوں نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا: ’سستی پلاسٹک کی چوڑیاں، جو بنیادی طور پر چین سے آتی ہیں، نے ہماری روایتی چوڑیوں کی مانگ کو کم کر دیا ہے۔‘

محمد اسلم کے مطابق فیروز آباد کی رنگ برنگی چوڑیاں انڈین شادیوں، تہواروں اور یہاں تک کہ بالی وڈ فلموں میں بھی ایک خاص مقام رکھتی تھیں۔ ’یہ چوڑیاں ہر عورت کی کلائی کی زینت بنتی تھیں۔ یہ روایت کئی نسلوں سے چلی آ رہی تھی۔ اس نے نہ صرف شہر کو روزگار فراہم کیا بلکہ اپنی ثقافتی شناخت بھی بنائی، لیکن اب حالات بالکل بدل چکے ہیں۔

’اب چوڑیاں بنانے کے کئی کارخانے بند ہو چکے ہیں اور ہزاروں ہنر مند کاریگر بے روزگار ہیں۔ اب لوگ اپنی روزی کمانے کے لیے دوسری ریاستوں میں نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جی ایس ٹی (جنرل سیلز ٹیکس) اور کووڈ وبائی بیماری بھی فیروز آباد کی چوڑیوں کی صنعت کی حالت زار کی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ جی ایس ٹی کے نفاذ سے چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو دھچکا لگا، جنہیں ٹیکس کی پیچیدگیوں اور بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا کرنا پڑا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آج بھی فیروز آباد کی شیشے کی صنعت کا سالانہ کاروبار تقریباً 10,000 کروڑ (انڈین) روپے ہے، جس میں سے صرف چوڑی کی صنعت کی مالیت تقریباً ایک ہزار کروڑ روپے ہے، تاہم  پہلے شیشے کی پیداوار پانچ سے چھ ہزار ٹن یومیہ تھی، اب اس میں شدید کمی آئی ہے۔ چوڑیوں کی تیاری کی پیداواری صلاحیت بھی اب کم ہو کر 1500 ٹن یومیہ رہ گئی ہے۔

اس کا براہ راست اثر محنت کش طبقے بالخصوص خواتین پر پڑا ہے جو روایتی طور پر اس صنعت سے وابستہ تھیں۔ یہ ایک محنتی شعبہ ہے، جس میں کام کی متعدد سطحیں شامل ہیں — شیشے کو پگھلانا، شکل دینا، رنگ دینا، سجانا اور پھر بیچنا۔

آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس فن کو زندہ رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کچھ کاروباریوں نے اپنے کاروبار کو چوڑیوں کی تیاری سے شراب کی بوتل بنانے کی طرف منتقل کر دیا ہے، کیونکہ اس شعبے میں مانگ برقرار ہے۔ 

اسلم کے مطابق: ’ہم نے یہ فن اپنے بزرگوں سے سیکھا ہے، یہ صرف ایک کاروبار نہیں، یہ ہمارا ورثہ ہے، لیکن ہمیں حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں مل رہی، اگر حالات ایسے ہی رہے تو شاید آنے والی نسلیں چوڑیاں بنانے کی یہ روایت نہ دیکھ پائیں۔‘

فیروز آباد کے تاجروں اور کاریگروں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ’حکومتی امداد۔ چاہے وہ سبسڈی ہو، تکنیکی مدد ہو، منڈیوں تک رسائی ہو، یا نئی تکنیکوں کی تربیت ہو۔ اگر حکومت اس شعبے کو سپورٹ کرتی ہے، تو یہ دوبارہ ترقی کرے گا۔‘

مقامی تاجروں کا خیال ہے کہ اگر حکومت روایتی صنعتوں کو فروغ دینے کی پالیسی اپنائے تو فیروز آباد دوبارہ چمک سکتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی آرٹ