خواتین کی عید الفطر کی تیاریاں رمضان کے دوسرے عشرے سے شروع ہو جاتی ہیں اور چاند رات تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
کراچی کے بازاروں میں بڑھتا ہوا رش دیکھ کر انڈپینڈنٹ اردو پہنچا جامع کلاتھ مارکیٹ میں، جسے عید کی شاپنگ کے معاملے میں ہمیشہ مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔
نت نئے شاپنگ سینٹرز کے قیام نے اس کی رونقیں کچھ ماند تو کر دی ہیں لیکن آج بھی کراچی کے باسی شادی بیاہ اور تہواروں کے موقعوں پر خریداری کے لیے اسی بازار کا رخ کرتے ہیں اور اب بھی دیگر بازاروں کی نسبت یہاں متعلقہ اشیائے ضروریہ انتہائی مناسب نرخوں پر دستیاب ہیں۔
عید کی مناسبت سے جامع کلاتھ مارکیٹ کو برقی قمقموں سے سجایا گیا ہے۔ ان دنوں اس بازار میں چلنے کے لیے جگہ نہیں ہے، کندھے سے کندھا ٹکراتا ہے اور ہر طبقے اور علاقے سے تعلق رکھنے والے لوگ خریداری کرنے یہاں دکھائی دیتے ہیں، جن میں اکثریت خواتین کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہاں جیولری، میک اپ کا سامان، چوڑیاں، شادی بیاہ کے ملبوسات، برقعے اور بچوں کے ملبوسات بھی دستیاب ہیں۔ بازار میں داخل ہو کر اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا کیوں کہ یہاں دکان دار خریداروں کو متوجہ کرنے کے لیے کئی رشتوں سے پکارتے ہیں، مثلاً آئیے باجی، آئیے خالہ، آئیے آنٹی وغیرہ۔
مارکیٹ میں داخل ہوں تو بازار کا روایتی منظر نظر آتا ہے۔ ہینگرز پر لٹکے کپڑے، ڈمیوں پر سجے ملبوسات، قیمتوں پر بحث کرتے دکاندار اور خریدار۔ اسی بازار میں ایک گلی، چوڑی گلی کے نام سے مشہور ہے، جہاں نت نئے ڈیزائن کی چوڑیوں کے سیٹ فروخت ہوتے ہیں۔
گلی میں داخل ہوں تو چکا چوند روشنی میں چمکتی دمکتی خوب صورت چوڑیاں خریداروں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں۔ یہاں زیادہ تر خواتین میچنگ چوڑیاں ہی خریدتی نظر آئیں گی جبکہ دلہنوں کے لیے خاص سیٹ بھی دستیاب ہیں۔
معراج الدین جامع کلاتھ مارکیٹ میں جیولری کی دکان لگائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جامع کلاتھ 1948 سے اسی علاقے میں موجود ہے اور وہ خود 1991 سے اس مارکیٹ میں کام کر رہے ہیں۔
بقول معراج الدین: ’ابتدا میں دکانیں بلاکس اور جست کی چادریں ڈال کر بنائی گئیں اور اس وقت ان کا کرایہ 800 روپے تھا۔ رفتہ رفتہ یہ حدود اربعہ بڑھتا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک بڑے بازار کی شکل اختیار کر لی۔ جامع کلاتھ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا بازار ہے۔‘
انہوں نے بتایا: 'سارا سال بازار میں رش رہتا ہے لیکن عید کے دنوں میں اچھی فروخت ہو جاتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’جب تک خواتین ہیں، تب تک بناؤ سنگھار سے جڑے سارے کاروبار چلتے رہیں گے۔ وقت کے ساتھ چوڑی کی تیاری اور اقسام میں تبدیلی آتی رہی ہے، لیکن یہ کبھی ترک نہیں کی جا سکیں۔ سونے اور چاندی کی چوڑی کی مانگ اپنی جگہ مگر کانچ کی چوڑیوں میں وہ بات ہے کہ ان کی دلکشی کا بھی کوئی جواب نہیں۔ اب کانچ کی چوڑیوں کے ساتھ ساتھ میٹل کی چوڑیاں اور انڈین پلاسٹک کے چوڑے زیادہ پسند کیے جا رہے ہیں جبکہ ایک درجن چوڑی کی قیمت 80 روپے سے لے کر 5000 روپے تک ہے کیونکہ اب چوڑیوں میں بھی ورائٹی آگئی ہے۔‘
خواتین اپنی زیبائش کے لیے مختلف اقسام کے زیورات استعمال کرتی ہیں، مثلاً تاج، ٹیکہ، جھومر، جھمکے، بالیاں، بندے، لونگ، نتھ، ہار، مالا، گلوبند، انگوٹھی، چوڑیاں، پازیب اور چھاگل وغیرہ، لیکن ان تمام زیورات میں چوڑیوں کو ثقافتی اور جذباتی لحاظ سے ایک منفرد مقام حاصل ہے، اسی لیے تو خواتین نئے لباس کے ساتھ کوئی اور زیور گہنا پہنیں یا نہ پہنیں، خوش رنگ چوڑیوں سے کلائیاں ضرور سجاتی ہیں۔
مارکیٹ میں موجود خواتین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عید کی تقریباً ساری تیاری مکمل ہے لیکن جب تک میچنگ کی چوڑیاں نہ ہو تو عید کے رنگ پھیکے لگتے ہیں۔‘