نئی آئینی عدالت معاشی مسائل حل کر سکتی ہے

آئینی عدالت اپنی آزادی کے بارے میں شکوک و شبہات کے درمیان میدان میں اتر رہی ہے لیکن یہ ان بنیادی آئینی مسائل پر کو بھی حل کر سکتی ہے جنہوں نے دہائیوں سے پاکستان کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔

20 اکتوبر 2022 کی تصویر میں سپریم کورٹ کی عمارت کا بیرونی منظر (انڈپینڈنٹ اردو)

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مشکل ترین پروگراموں میں سے ایک کے بعد پاکستان کی معیشت بظاہر مستحکم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم کچھ تسلی بخش معاشی اشاریوں کے نیچے ایسی ساختی دراڑیں موجود ہیں جنہیں عالمی مالیاتی ادارے کا کوئی پروگرام ٹھیک نہیں کر سکتا۔

ان دراڑوں کی وجہ دیرینہ آئینی ابہام ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیکس کون لگائے گا؟ خرچ کون کرے گا؟ قدرتی وسائل کو کون کنٹرول کرے گا؟ اور وفاقی نظام میں منڈیوں، ریگولیٹرز اور سرکاری اداروں کو کس طرح کام کرنا چاہیے؟

اسلام آباد میں پاکستان بزنس کونسل کے زیر اہتمام ہونے والے ایک حالیہ پبلک پرائیویٹ ڈائیلاگ میں بھی یہ اہم سوالات سامنے آئے، جہاں معاشی گورننس سے وابستہ تقریباً ہر ادارہ موجود تھا۔ اس تناظر میں، 27ویں ترمیم کے تحت پاکستان کی نئی ’وفاقی آئینی عدالت‘ (ایف سی سی) کا قیام ایک اہم پیش رفت ہے۔ کیا یہ نئی عدالت وہ ادارہ جاتی وضاحت فراہم کر سکتی ہے جس سے پاکستان کی معیشت محروم رہی ہے؟

معاشی اصلاحات کے لیے آئینی وضاحت اہمیت رکھتی ہے۔ جب معیشت کے اصول مبہم ہوں تو حکومتیں رابطہ کاری کے بجائے مقدمے بازی کرتی ہیں، اور کاروباری شخصیات سرمایہ کاری کے بجائے اپنا دفاع کرتی ہیں۔ پاکستان کے صوبے اور وفاق اکثر بجٹ کے اخراجات، ٹیکس کے دائرہ اختیار میں تداخل اور متضاد ریگولیٹری نظاموں پر آپس میں الجھتے رہتے ہیں۔ زراعت، توانائی اور کان کنی میں سرمایہ کاری رک جاتی ہے کیونکہ معاہدے، رائلٹی اور آمدنی کی تقسیم کے طریقہ کار عدالتوں میں چیلنج کیے جا سکتے ہیں۔ اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے: حکومت، نجی شعبے اور صارفین کے لیے لاگت میں اضافہ، کم سرمایہ کاری اور روزگار کے مواقع میں کمی۔

آئینی عدالت کیسے فرق لا سکتی ہے؟ اول، یہ مالیاتی وفاقیت کو فعال بنانے میں مدد کر سکتی ہے۔ پاکستان کا نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ، جو مالیاتی وفاقیت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، باقاعدہ نظر ثانی کا متقاضی ہے۔ اس کے باوجود، یہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے جمود کا شکار ہے۔

آئینی عدالت ایک متحرک این ایف سی فریم ورک پر زور دے سکتی ہے جو صوبوں کے درمیان محض آبادی کی بنیاد پر تقسیم کے بجائے کارکردگی پر مبنی نتائج کی طرف ترغیبات کو منتقل کرے۔ یہ فریم ورک ان چیزوں کی بھی وضاحت کرے گا: مقامی، صوبائی اور وفاقی ٹیکسوں کی حدود؛ صوبوں کے درمیان ہم آہنگ ٹیکس انتظامیہ کی ذمہ داریاں؛ اور آمدنی کی تقسیم کے لیے شفاف اور اصولوں پر مبنی ضابطے جن پر باقاعدگی سے نظر ثانی کی جائے۔ ڈیڈ لائنز اور ثالثی کے طریقہ کار کے ساتھ عدالت کا دیا ہوا روڈ میپ این ایف سی ایوارڈز کو بدل سکتا ہے۔

دوم، ٹیکس کے دائرہ اختیار کے تنازعات عدالتوں میں طویل عرصے سے زیر التوا ہیں۔ 18ویں ترمیم نے خدمات پر سیلز ٹیکس کو صوبوں کے حوالے کر دیا، لیکن وفاقی حکومت ایسے لیویز عائد کرنا جاری رکھے ہوئے ہے جو مختلف ناموں سے خدمات پر دوبارہ ٹیکس لگانے کے مترادف ہیں۔

دریں اثنا صوبے اپنے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے میں ناکام رہے ہیں، جس کی وجہ سے زراعت، ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ، اور خدمات کے بڑے شعبے بامعنی ٹیکس سے بچ نکلتے ہیں۔ اس کا نتیجہ ان لوگوں پر دباؤ کی صورت میں نکلتا ہے جو پہلے سے ٹیکس نیٹ میں ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک چھوڑ رہی ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ان کے مقامی کنسلٹنٹس پر بھی دنیا کے سب سے زیادہ سروس ٹیکسز لاگو ہوتے ہیں، جس سے پاکستان کے انتہائی ہنر مند پیشہ ور افراد کے بیرون ملک جانے (برین ڈرین) میں تیزی آ رہی ہے۔

ایف سی سی پہلے ہی وفاقی سپر ٹیکس سے متعلق مقدمات سمیت ہائی پروفائل معاشی کیسز کی سماعت کر رہی ہے۔ اس کا فیصلہ یہ اشارہ دے گا کہ آیا پاکستان بالآخر ٹیکس کی مستقل اور قابلِ پیش گوئی تشریح کے لیے تیار ہے یا نہیں۔

سوم، وسائل کے حقوق اور آمدنی کی گورننس کو شفاف ہونا چاہیے۔ رائلٹی، گیس کے کرایوں اور ہائیڈرو پاور کے منافع پر تنازعات معمول بن چکے ہیں۔ کارونجھر کی پہاڑیوں پر جاری تنازع، جہاں متضاد دعوے سامنے آئے ہیں، ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح آئینی ابہام سرمایہ کاری کو منجمند کر سکتے ہیں۔

آئینی عدالت کو قدرتی وسائل پر آئینی شقوں کی وضاحت کرنی چاہیے جیسے رائلٹی اور منافع کی تقسیم کے طریقہ کار پر نظر ثانی کر کے، وسائل کی آمدنی کے عوامی آڈٹ کو لازمی قرار دے کر، اور وسائل کے معاہدوں میں انتظامیہ کے یکطرفہ اختیار کو محدود کر کے۔ اس سے اربوں کی رکی ہوئی سرمایہ کاری بحال ہو سکتی ہے۔

یہ پہلو عوامی سرمایہ کاری کی گورننس کے لیے بھی اہم ہے۔ ڈونرز کے فنڈز سے چلنے والے قرضے تیزی سے مہنگے ہوتے جا رہے ہیں، جبکہ پانی کے شعبے کے اہم منصوبے تاخیر کا شکار ہیں اور طویل قانونی و انتظامی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔

چہارم، مسابقتی منڈیوں کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرنا اہم ہے۔ اشیا اور خدمات کی آزادانہ نقل و حرکت کی آئینی ضمانتوں کو صوبائی چیک پوسٹوں، غیر سرکاری لیویز، تعمیل کے متضاد قوانین اور غیر رسمی تجارت کے ذریعے معمول کے مطابق کمزور کیا جاتا ہے۔ یہ رکاوٹیں گھریلو منڈیوں کو تقسیم کرتی ہیں، مسابقت کو بگاڑتی ہیں اور قیمتوں میں عدم استحکام کو بدتر بناتی ہیں۔ ایف سی سی ان اقدامات کے خلاف فیصلہ کن حکم دے سکتی ہے جو بین الصوبائی تجارت میں رکاوٹ ہیں اور انہیں ختم کرنے کے لیے قابل نفاذ ٹائم لائنز مقرر کر سکتی ہے۔ اس سے ملک بھر میں کاروبار کرنے کی لاگت میں کمی آئے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجم، آئینی عدالت کو ریگولیٹری خود مختاری میں مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی معیشت کو قابل اعتبار اور آزاد ریگولیٹرز کی ضرورت ہے، چاہے وہ مانیٹری پالیسی کے لیے ہوں، توانائی کے نرخوں کے لیے یا مسابقت کی نگرانی کے لیے۔ اس کے باوجود ان کی خود مختاری کو باقاعدگی سے ختم کیا جاتا ہے۔ ایف سی سی ریگولیٹرز کے فیصلوں، تقرری کے عمل، برطرفی کے معیار کی وضاحت، اور شفاف کارکردگی کے جائزوں کو لازمی قرار دے کر ان کا تحفظ کر سکتی ہے۔

یہ پاکستان کے بیرونی سٹیک ہولڈرز کے لیے بھی اہم ہے۔ سی پیک منصوبوں میں شامل چینی فرموں کو بارہا متضاد صوبائی اور وفاقی احکامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کان کنی، زراعت اور رئیل اسٹیٹ میں دلچسپی رکھنے والے خلیجی ممالک سرمایہ کار مناسب ضوابط کی نشاندہی کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، حالانکہ پاکستان نے حال ہی میں سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کے ذریعے کوششیں کی ہیں۔

آئینی عدالت اپنی آزادی کے بارے میں شکوک و شبہات کے درمیان میدان میں اتر رہی ہے۔ لیکن یہ ان بنیادی آئینی مسائل پر غیر معمولی دائرہ اختیار کے ساتھ بھی آئی ہے جنہوں نے دہائیوں سے پاکستان کی معیشت کو جکڑ رکھا ہے۔ اگر ججز تحمل، آزادی اور معاشی فہم و فراست کا مظاہرہ کرتے ہیں، تو آئینی عدالت وہ آئینی استحکام فراہم کر سکتی ہے جس سے پاکستان کی معیشت طویل عرصے سے محروم رہی ہے۔

بشکریہ عرب نیوز

ڈاکٹر وقار احمد ماہرِ معیشت اور پاکستان کے پلاننگ کمیشن، ایف بی آر اور فنانس اور کامرس کی وزارتوں میں کام کر چکے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر