کیا سپریم کورٹ کی موجودگی میں ہمیں کسی آئینی عدالت کی ضرورت ہے؟ نئے جج، نیا عملہ، نئی تنخواہیں، نئی مراعات، معاشی بدحالی کا شکار قوم اپنی دہری کمر پر یہ اضافی بوجھ کیوں رکھے؟
سوال بہت پیچیدہ ہے لیکن جواب سادہ سا ہے: ضرورت ہے بلکہ شدید ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ میں مقدمات کا انبار پڑا ہے۔ 15 ستمبر 2014 کو سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار 616 ہو چکی تھی۔ ان مقدمات کی باری کب آئے گی؟ جہاں تفصیلی فیصلہ آنے میں مہینوں لگ جائیں وہاں کون جانے ان مقدمات کے فیصلوں کے لیے ایک دہائی چاہیے یا اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہو۔ نیز یہ کہ اس دوران جو مزید مقدمات دائر ہوں گے ان کا مستقبل کیا ہو گا؟
میری کتاب ’پسِ قانون‘ کے دیباچے میں سابق چیف جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا کہ ایک دیوانی مقدمے کو حتمی فیصلے تک پہنچنے میں اوسطاً 25 سال درکار ہوتے ہیں۔ عدلیہ کی کارکردگی پر قربان نہ جائیے تو پیار سے اسے یا قربان ضرور کہہ دیجیے کہ ایک مقدمہ یہاں زندگی کے 25 سال کھا جاتا ہے۔
یہاں لوگ سپریم کورٹ سے بری ہوتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے پہلے ہی پھانسی پا چکے۔ کچھ وہ ہیں جو بری ہوئے تو اس وقت تک وہ زندگی کے دوو عشرے جیل میں گزار چکے تھے۔ آزاد عدلیہ سے اب کون پوچھے کہ اس جان اور ان سالوں کا حساب کس کے ذمے ہے۔
مقدمات میں التوا کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ یہی آئینی معاملات ہیں جنہیں غیر معمولی اہتمام سے سنا جاتا ہے۔ فوری سماعت ہو جاتی ہے۔ چھٹی والے دن عدالتیں کھل جاتی ہیں۔ رات گئے پیٹیشنز قبول فرما لی جاتی ہیں۔ مقدمے کی کارروائی براہ راست نشر ہوتی ہے جہاں فریقین داد شجاعت دیتے ہیں۔
پھر ٹکر چلتے ہیں، تجزیے ہوتے ہیں، ایسا سماں بندھ جاتا ہے کہ سب کی تسکین ہو جاتی ہے۔
معمولی سے سیاسی آئینی مقدمات، پوری قوم کو اذیت سے دوچار کر چکے ہیں۔ پورا نظام انصاف ان مقدمات کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے۔ ساری توجہ اور سارا وقت تو یہ مقدمات کھا جاتے ہیں۔ بلاول بھٹو کے مطابق: آئینی مقدمات کی تعداد 15 فیصد ہے اور یہ سپریم کورٹ کا 90 فیصد وقت کھا گئے۔
تصور کیجیے کہ یہ 15 فیصد مقدمات سپریم کورٹ کے سامنے پیش نہ ہوتے اور اس کا 90 فیصد وقت ان پر صرف نہ ہوا ہوتا تو کیا زیر التوا مقدمات کی تعداد 60 ہزار سے زیادہ ہوتی؟
عقل تقاضا کرتی ہے کہ اگر 60 ہزار سے زیادہ مقدمات التوا میں پڑے ہوں اور سپریم کورٹ اپنا 90 فیصد وقت صرف چند آئینی مقدمات میں صرف کر رہی ہو تو فوری طور پر سپریم کورٹ سے یہ آئینی مقدمات لے کر کسی اور عدالت کو دے دیے جائیں تا کہ سپریم کورٹ اپنے 60 ہزار سے زائد مقدمات نبٹا سکے اور لوگوں کو انصاف مل سکے۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کے پاس 85 فیصد مقدمات کے لیے صرف 10 فیصد وقت ہو اور 15 فیصد آئینی مقدمات پر 90 فیصد وقت صرف ہو جائے؟
وفاقی آئینی عدالت کے کچھ اور فوائد بھی ہیں مثلا:
1۔ مقدمہ جب آئینی عدالت کے سامنے پیش ہو گا تو پھر مرضی کا بنچ بنا کر آئین کو ری رائٹ کرنے کا خطرہ کم ہو جائے گا اور افسانوی شہرت والے تین رکنی بنچوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔
2۔ وفاق مضبوط ہو گا اور آئینی مقدمات کا فیصلہ تمام صوبوں کے جج کر رہے ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
3۔ مختلف بنچوں کی بجائے ایک ہی عدالت سے فیصلے آئیں گے تو آئینی تشریح کے نام سے پیدا ہونے والی الجھن کا خاتمہ ہو گا۔
4۔ آئینی عدالت کے پاس چونکہ دوسرے کیس نہیں ہوں گے تو اس خطرے کا خاتمہ ہو جائے گا کہ آئینی کیس کی بنیاد پر کسی فریق کو کسی دوسرے مقدمے میں دباؤ میں لایا جائے۔ ( تھوڑے کہے کو بہت جانیے ، یہ بہت اہم نکتہ ہے۔)
یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ آئینی معاملات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی کارکردگی بھی کوئی قابل تعریف نہیں ہے۔ ملک میں نظریہ ضرورت کی بلا اسی سپریم کورٹ نے اتاری ہے۔ مارشل لاؤں کو جواز یہی سپریم کورٹ دیتی رہی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی اسی سپریم کورٹ نے دیا۔ اب اگر اس سے آئینی معاملات لے لیے جائیں تو یہ کوئی ایسی ناقابل فہم بات نہیں ہے۔
آئینی عدالت کے قیام کے حوالے سے البتہ دو چیزیں بہت اہم ہیں۔
پہلی بات یہ کہ اس کے ججوں کے تعین کو صرف حکومت پر نہیں چھوڑا جا سکتا، اس کا کوئی شفاف طریقہ وضع ہو جہاں مختلف چیمبروں کی اجارہ داری بھی نہ ہو اور جج اس طرح نہ چنے جائیں جیسے اب چنے جاتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ چونکہ آئین اسلامی ہے اس لیے آئینی عدالت میں عالم جج کا ہونا ضروری ہے۔ یوں سمجھیے کہ آئین ایک سنجیدہ چیز ہے اسے محض وکلا اور ججوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔
یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔