دن بھر مشاورت کے باوجود حکومت آئینی ترامیم پیش نہ کر سکی

حکومت کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقاتیں بے نتیجہ رہیں، پیر کی دوپہر قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس طلب۔

29 اپریل، 2014 کی اس تصویر میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت نظر آ رہی ہے (اے ایف پی)

حکومت دن بھر مشاورت کرنے کے باوجود اتوار کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں عدلیہ سے متعلق آئینی ترامیم پیش نہ کر سکی اور اب دونوں ایوانوں کے کل (بروز پیر) اجلاس طلب کیے گئے ہیں۔

آج توقع تھی کہ حکومت ترامیم کو دونوں ایوانوں میں پیش کر دے گی کیونکہ حکومتی وزرا کا کہنا تھا کہ ان کے پاس بل کو منظور کرانے کے لیے نمبرز پورے ہیں۔

تاہم دوسری جانب حکومتی وزرا دن بھر جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان سے مشاورت کرتے رہے۔ مولانا فضل الرحمان سے ملنے والوں میں پاکستان تحریک انصاف کے وفد بھی شامل تھے، لیکن ان ملاقاتوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

دن بھر مشاورت کے بعد خورشید شاہ کی زیر صدارت خصوصی کمیٹی کا آج کا چوتھا اجلاس بھی منعقد ہوا، جس کے بعد قومی اسمبلی کا اتوار کی رات مختصر اجلاس بلا کر کل دوپہر ساڑھے 12 بجے تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ سینیٹ کا اجلاس بھی کل اسی وقت پر ہو گا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل وفاقی کابینہ کا اجلاس ہونا تھا جو نہیں ہو سکا۔


جب تک ترمیمی بل نہیں دیکھیں گے ووٹ کیسے دیں؟ جے یو آئی

جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا عبدالغفور حیدری نے اتوار کی رات حکومتی اور اپوزیشن وفود سے ملاقاتوں کے بعد کہا میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ جب تک آئینی ترامیم کا مسودہ دیکھیں گے نہیں، پڑھیں گے نہیں تو ہم کیسے اس کی حمایت کریں گے؟

ان کا کہنا تھا کہ ’اس لیے حکومت کو کہا ہے اسے تاخیر سے پیش کریں اور پڑھنے کا موقع دیں تاکہ شرح صدر کے بعد فیصلہ کر سکیں۔‘

’ہم نے حکومت کو کہا ہے کہ اگر آپ کو جلدی ہے تو ہم شاید اس پوزیشن میں نہ ہوں کہ اس کی حمایت کر سکیں۔‘


ترمیم سے متعلق مولانا فضل الرحمٰان سے مشاورت جاری: وزیر اطلاعات

وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے دونوں ایوانوں کے اجلاس میں مسلسل تاخیر کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ممکنہ آئینی ترمیم سے متعلق مولانا فضل الرحمٰان سے مشاورت جاری ہے۔

انہوں نے پارلیمنٹ کی صورت حال پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’آئینی ترامیم پر مشاورت کا سلسلہ جاری ہے، آئینی ترمیم کے لیے ایک ایک نقطے پر ماہرین کی رائے طلب کی جاتی ہے۔‘

ان کے مطابق: ’وسیع تر سیاسی مشاورت مکمل ہونے تک آئینی ترامیم پر آگے بڑھنے میں تاخیر ہو جاتی ہے، حکومتی جماعتوں کے درمیان بھی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مولانا فضل الرحمٰن اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت جاری رکھے ہوئے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن صاحب انہی آئینی ترامیم پر مشاورت کر رہے ہیں، مشاورت میں تمام جماعتوں کے قانونی ماہرین موجود ہیں۔‘

اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے پرامید ہیں کہ نمبر گیم میں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کسی فرد کے لیے نہیں ملک کے وسیع تر مفاد میں کیا جا رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ سستے انصاف کی فراہمی کے لیے کام کیا جا رہا ہے، اس میں تمام پارٹیاں بیٹھیں، حکومتی اتحادی بیٹھے ہیں۔ یہ قومی نوعیت کے معاملات ہیں اس کا فائدہ پوری قوم کو ہونا چاہیے۔‘

آئینی ترمیم پر ہم سے مشاورت نہیں ہوئی: پی ٹی آئی

پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے ساتھ آئینی ترمیم کے حوالے سے کوئی مشاورت نہیں ہوئی اور نہ ہی ہمارے ساتھ کوئی ڈرافٹ شیئر کیا گیا۔

’جو بھی ہو رہا ہے رولز کے خلاف ہو رہا ہے۔‘


قومی اسمبلی اجلاس کا وقت تبدیل

اس سے قبل قومی اسمبلی کے محکمہ اطلاعات کا کہنا تھا کہ چند اہم امور پر فیصلوں کے لیے درکار وقت کے سبب قومی اسمبلی کے اجلاس کا وقت تبدیل کر دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن نے اپنے اراکین پارلیمنٹ کو آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالنے کی تاکید کی ہے۔

اتوار کو پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف میڈیا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اجلاس کے وقت میں تبدیلی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی خصوصی سفارش پر کی گئی ہے۔‘

بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’کمیٹی  نے آج صبح 10 بجے ہونے والے اجلاس کے بعد سپیکر قومی اسمبلی سے درخواست کی کہ چند اہم امور پر فیصلوں کے لیے اسے مزید وقت درکار ہے لہذا اجلاس کے وقت میں تبدیلی کی جائے۔‘

اس درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے اجلاس کا وقت تبدیل کر کے صبح ساڑھے 11 بجے کے بجائے دن چار بجے طلب کر لیا ہے۔

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے ٹائم تبدیلی کا نوٹس بھی جاری کر دیا ہے۔


مسلم لیگ ن کی اپنے سینیٹرز کو تاکید

ادھر ایوان بالا یعنی سینیٹ میں پاکستان مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے ایک بیان کیا ہے جس میں انہوں نے اپنے اراکین قومی اسمبلی اور سینیٹ کو تاکید کی ہے کہ وہ آج اپنے متعلقہ ایوانوں میں موجود رہیں اور ’پارٹی کے فیصلے کے مطابق آیینی ترمیم 2024 کے حق میں ووٹ دیں۔‘

انہوں نے اپنے بیان میں گذشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والی مسلم لیگ ن کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی پارلیمانی پارٹیوں کے اجلاس میں فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’پارٹی ہدایت کے مطابق ووٹ ڈالنا ضروری ہے۔‘


پارلیمان سپریم ہے: وزیراعظم

اس سے قبل ہفتے کو وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پارلیمان ملک کا سپریم ادارہ ہے، اس کے تقدس کو قائم رکھنے کے لیے ملکی و عوامی مفاد میں قانون سازی ضروری ہے۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ بات ہفتے کی شب ارکان پارلیمان کے اعزاز میں دیے جانے والے عشائیے کے موقع پر کہی۔ جس میں وفاقی وزرا، پاکستان مسلم لیگ ن، متحدہ قومی موومنٹ، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ضیا کے ارکان پارلیمنٹ شریک تھے۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ’قومی نوعیت کے معاملات کو صرف پارلیمان کے ذریعے ہی حل ہونا چاہیے۔‘

سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’ہم ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے سے نکال کر استحکام کی جانب لائے، معاشی استحکام کے تسلسل اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’آئینی اداروں اور غیر سیاسی شخصیات کو سیاست میں گھسیٹ کر فریق بنانے کی کوشش ہوتی رہی، محمد نواز شریف، بے نظیر بھٹو کی قیادت میں میثاق جمہوریت ہوا، میثاق جمہوریت سے غیر آئینی اقدامات کا راستہ ہمیشہ کے لیے روک دیا گیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ملکی ترقی کے لیے سب کو ایک مرتبہ پھر سے اکٹھا ہونا ہے۔ سیاست ہوتی رہے گی، ملک کو بچانے کے لیے پالیسیوں کا تسلسل انتہائی ضروری ہے۔‘

 پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آئینی ترمیم اتوار کو پیش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے عشائیے میں اتحادیوں اور ارکان پارلیمان کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔


مجوزہ آئینی ترمیم کے پیش نظر حکومتی اتحادی پہلے ہی اپنے تمام ارکان اسمبلی اور سینیٹ کو اسلام آباد میں رہنے کی ہدایت کر چکے ہیں جبکہ گذشتہ روز بھی اس بل کو قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا تھا تاہم ایسا نہیں ہوا۔

اگر یہ آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے تو اسے منظور کروانے کے لیے حکومت کو دو تہائی اکثریت یعنی 224 ووٹ درکار ہوں گے، جو حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس بظاہر نہیں ہیں۔

اس حوالے سے 14 ستمبر کو چیئرمین سینیٹ نے صحافیوں کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’جو نمبر کے متعلق افواہیں ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ نمبرز پورے ہوں گے تو بل پاس ہوگا۔ اس چیز میں آپ کو فکر کی ضرورت ہی نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست