پاکستان میں حکومت کے لیے ایک بار پھر آئینی ترامیمی پیکج دو تہائی اکثریت سے منظور کرانا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
دو بار تبدیلی کے بعد اب تک جو مجوزہ ترامیمی دستاویز سامنے آئی ہیں ان کے مطابق سپریم کورٹ کے ساتھ آئینی عدالتوں کا قیام، ججز کی مدت اور عمر کا تعین، تین سینیئر ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس نامزد کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ اس سے قبل سینیئر ترین جج کو چیف جسٹس بنایا جاتا ہے۔
ان سمیت دیگر تجاویز پر بھی اگرچہ تحفظات سامنے آئے ہیں لیکن وکلا اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اس ترامیمی بل کو ہی مسترد کر دیا ہے۔
اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس سے قبل پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی عدالتی اصلاحات اٹھارہویں ترمیم کی منظوری کے وقت مسلم لیگ ن کے دباؤ پر مسودے سے نکالنا پڑی تھیں۔
اب چھبیسویں ترمیم کی منظوری کے لیے موجودہ حکومت کو بھی اسی چیلنج کا سامنا ہے۔
اتوار کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس کئی گھنٹے تک اسی لیے شروع نہ ہوئے کہ حکومت کے پاس مطلوبہ تعداد پوری نہیں تھی۔ مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت نہ ملنے پر معاملہ غیر معینہ مدت تک لٹک گیا۔
تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی میل ملاقاتوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا کو گذشتہ رات دیے گئے بیانات میں کہا کہ ’اب پیپلز پارٹی اور جے یو آئی مل کر ترامیمی بل کے مسودے کی تجاویز کا ڈرافٹ تیار کریں گی۔ پھر حکومت کو پیش کیا جائے گا اور متفقہ طور پر اسے منظور کرایا جائے گا۔‘
ترجمان جے یو آئی اسلم غوری نے بھی تصدیق کی ہے کہ پیپلز پارٹی سے مل کر تجاویز تیار کی جارہی ہیں۔
اس حوالے سے وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی أمور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ ’یہ کسی کی جیت یا ہار نہیں بلکہ حکومت جے یو آئی کے تحفظات دور کر کے متفقہ طور پر بل منظور کرانے کی حکمت عملی بنا رہی ہے۔ پہلے کچھ غلط فہمیوں کی بنیاد پر بل پیش نہیں ہوسکا۔‘
ان کے بقول: ’ویسے تو حتمی طور پر اس ترامیمی بل کا مسودہ تیار نہیں کیا گیا تاہم ردو بدل کے بعد جو تجاویز پر مبنی دستاویز سامنے آئی ہیں، ان کے خلاف سابق صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری نے عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کر دی ہے۔‘
لاہور ہائی کورٹ بار نے بھی ان تجاویز کو مسترد کرتے ہوئے جمعرات کو آل پاکستان وکلا کنونشن بلایا ہے۔
صدر بار اسد منظور نے اپنے بیان میں اعلان کیا کہ ’آئینی عدالتوں کے قیام اور چیف جسٹس کی مدت میں تین سال کے اضافے کا قانون کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔‘
رہنما تحریک انصاف اور سینیئر قانون دان حامد خان کے بقول، ’ایوب خان، یحیحیٰ خان، جنرل مشرف جیسے آمروں کی جرات نہیں ہوئی کہ سپریم کورٹ کو تقسیم کیا جائے تو جمہوریت کا دعویٰ کرنے والوں کو ایسا کرنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟‘
کیا آئینی ترمیمی بل اب بھی منظور ہونے کا امکان ہے؟
رانا ثنا اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مخصوص نشستوں کا فیصلہ آنے کے بعد ہماری دو تہائی اکثریت نہیں۔ ہمارے پاس 11,12نمبر کم ہیں۔ لہذا اس 26ویں آئینی ترمیم کے لیے ہمیں مولانا فضل الرحمٰن کی حمایت چاہیے۔ پہلے بھی محسن نقوی اور اعظم نذیر تارڑ نے ان سے بات چیت کی۔ پھر صدر مملکت اور وزیر اعظم بھی مولانا کے پاس گئے۔ جس سے یہی سمجھا گیا کہ وہ ان ترامیم پر رضا مند ہیں۔‘
رانا ثنا اللہ نے کہا کہ’جب مولانا نے ایوان میں خطاب کیا تو اندازہ ہوا ان کے کچھ تحفطات ہیں۔ یہ بات غلط ہے کہ وہ کوئی سودے بازی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی تجویز ہے کہ سب کے ساتھ مشاورت کر کے ترامیم لائی جائیں اور جو بنیادی تحفظات ہیں انہیں دور کیا جائے۔ اس کے لیے ہماری اور بلاول بھٹو کی ان سے بات چیت جاری ہے۔ نظام میں بہتری کے لیے مل کر ترامیم لائیں گے جو منظور بھی ہوں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلاول بھٹو زرداری کے مطابق ’مولانا سے ملاقات میں طے پایا ہے کہ وہ ہم سے مل کر نئی تجاویز تیار کریں گے۔ جو ہم حکومت کے ساتھ مل کر مسودہ تیار کریں گے اس کے لیے پی ٹی آئی سے بھی مشاورت ہوسکتی ہے۔ اگر وہ نہ مانے تو ہم مولانا کے ساتھ مل کر یہ ترامیمی بل جو اٹھارہویں ترمیم کے وقت پاس نہیں ہوسکا تھا اب مکمل کرائیں گے۔‘
ترجمان جے یو آئی اسلم غوری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا پہلے دن سے موقف ہے کہ ایسا آئینی اصلاحاتی پیکج تیار کیا جائے جس سے سب جماعتیں متفق ہوں۔ یہ صرف حکومت یا ان کی اتحادی جماعتوں کا معاملہ نہیں بلکہ25کروڑ عوام کا مسئلہ ہے۔ کسی ایک جج کو توسیع دینے کے لیے قانون نہیں بنائے جاسکتے۔ لہذا ججز کی تعیناتی کا طریقہ کار یا ان کی مدت میں اضافے کا معاملہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔‘
اسلم غوری نے کہا کہ ’مولانا صاحب کہ چکے ہیں کہ جب تک مسودہ تیار نہیں ہوگا ہم اس کی حمایت کیسے کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد متفقہ مشاورت سے مسودہ تیار کرنے کی کوشش جاری ہے۔ ایسا مسودہ تیار کیا جارہا ہے جس پر کسی سیاسی جماعت کو اعتراض نہ ہو اور نظام کے لیے بہتر ہو۔ کسی ایک فریق کے مفادات کی بجائے عوامی مسائل کے حل پر فوکس کیا جائے گا۔‘
مجوزہ ترامیم سے آئینی استحکام ممکن ہے؟
اس مسودے پر حامد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے جوڈیشل اصلاحاتی ترامیم کا جو بل لانے کی کوشش کی ہے۔ وہ کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ کسی خاص مقصد کے لیے عدلیہ کی آزادی پر حملہ کیا جارہا ہے۔ ہم وکلا نے کسی بھی متبادل عدالت کو قبول نہیں کرنا کیونکہ سپریم کورٹ، وفاق کی عدالت بھی ہے اور آئینی عدالت بھی موجود ہے۔‘
حامد خان نے کہا کہ ’ایک بڑی مذموم کوشش ہو رہی ہے ایک متبادل عدالت لانے کی جس میں یہ اپنے لوگ بھرتی کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس کی ترقی کا طریقہ کار 18 ویں ترمیم میں دیا گیا ہے، سب اس پر متفق ہیں تو تبدیل کرنے کی اس وقت ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟
‘ہم کسی جانبدار کو چیف جسٹس نہیں بنانے دیں گے یہ اپنے ملک کی سب سے بڑی عدالت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ کا ہی کام ہے مفاد عامہ کے کیس سننا اور دیگر نوعیت کے کیس بھی سپریم کورٹ ہی سن سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اگر بہتری لانی ہے تو سپریم کورٹ کو اپنا کیس مینجمنٹ سسٹم بہتر کرنا ہوگا، امید ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ چیف جسٹس بن کر کیس مینجمنٹ سسٹم بہتر کریں گے۔‘
حامد خان نے کہا کہ اگر تین سینیئر ججز میں سے ایک کو چیف جسٹس بنانے کا قانون بنایا آ گیا تو دوسرے اداروں کی طرح ہر جج چیف بننے کے لیے حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس طرح یہاں بھی میرٹ پر کام کی بجائے چیف بننے کی دوڑ شروع ہوجائے گی۔‘