نیپال میں ’جنریشن زی‘ حکومت مخالف احتجاج میں پیش پیش کیوں؟

گذشتہ کئی برسوں کے دوران اس نوجوان نسل ’جنریشن زی‘ نے اس خطے میں سیاسی احتجاج میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔

نیپال میں گذشتہ چند روز سے نوجوانوں کی قیادت میں 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سرکاری پابندی کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں نے پچھلے سال کے بنگلہ دیش کے احتجاج کی یاد تازہ کر دی ہے۔

اہم سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کرنے کے واقعات، سیاست دانوں پر حملوں اور مظاہرین اور حکومتی فورسز کے مابین پرتشدد جھڑپوں کے بعد منگل کی رات، نیپالی فوج نے امن و امان کی بحالی کے لیے فوج تعینات کر دی۔

نیپال کے وزیراعظم کھڑگا پرساد اولی نے احتجاج کے دوران استعفیٰ دے دیا تھا۔

نیپال کے سول سروس ہسپتال کے مطابق مظاہروں میں کم از کم 19 افراد جان کھو بیٹھے اور دو سو سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔

مظاہرین میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جس کی وجہ سے اس احتجاج کو جنریشن زی کا احتجاج قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ وہ آج کے نوجوان ہیں جن کی تعریف عام طور پر 1997 اور 2012 کے درمیان پیدا ہونے والوں کے طور پر کی جاتی ہے۔

بعض ماہرین کے خیال میں مظاہرے اس لیے شروع ہوئے کیونکہ حکومت نے عوامی پیلٹ فارم بند کرنے کی کوشش کی جہاں یہ غیر یقینی حالات سے دوچار نسل ملازمت، دوستی اور اپنی آواز اٹھانے کی کوشش کرتی ہے۔

سرکاری عہدیداروں نے بتایا کہ یہ بندش ان کمپنیوں کا حکومت کے ساتھ باضابطہ طور پر اندراج کرنے میں ناکامی کے بعد لگائی گئی تھی۔

نیپالی فوج کے سربراہ جنرل اشوک راج سگڈیل نے منگل کی رات گئے ایک ویڈیو پیغام میں مذاکرات کی پیش کش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قوم کو پرامن حل فراہم کرنے کے لیے وہ مظاہروں میں شامل تمام گروہوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اسے ختم کریں اور بات چیت کریں۔

عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 15 سے 40 سال کی عمر کے افراد آبادی کا تقریباً 43  فیصد ہیں اور فی کس جی ڈی پی صرف 1447  ڈالر ہے۔

نیپال کے نوجوانوں میں بے روزگاری اور دولت کے فرق پر مایوسی بڑھ رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے شائع کردہ نیپال لیونگ سٹینڈرڈ سروے 2022-23 کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح 12.6 فیصد تھی۔

حکومت کی جانب سے 26 غیر رجسٹرڈ پلیٹ فارمز تک رسائی بند کرنے کے بعد جمعہ کو فیس بک، یوٹیوب اور ایکس سمیت متعدد سوشل میڈیا سائٹس کو بلاک کر دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اے ایف پی کے مطابق اس کے بعد سے ٹک ٹاک پر عام نیپالیوں کی جدوجہد کو سیاست دانوں کے بچوں کے ساتھ موازنہ کرنے والی ویڈیوز وائرل ہوئیں جنہیں ٹک ٹاک پر بلاک نہیں کیا گیا تھا۔

امریکی نیوز چینل این پی آر نے اس سے قبل اطلاع دی تھی کہ مظاہروں کی قیادت کرتے ہوئے، ہیش ٹیگ #NepoBaby ملک میں ٹرینڈ کر رہا تھا، جس کا مقصد مقامی سیاست دانوں کے بچوں کے غیر معمولی طرز زندگی پر تنقید کرنا اور بدعنوانی کو للکارنا تھا۔

ایک مقامی اخبار کھٹمنڈو پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق کچھ لوگوں نے اس پابندی کو آزادی اظہار رائے کے لیے خطرہ سمجھا جبکہ دوسروں کو خدشہ تھا کہ اس سے بیرون ملک کام کرنے والے پیاروں کے ساتھ رابطے میں خلل پڑے گا۔ اخبار کے مطابق مالی سال 2023-24 میں 741,000 سے زیادہ نیپالیوں نے روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑ دیا تھا۔

پیر کو بڑے پیمانے پر مظاہرے پھوٹ پڑے۔ بعض مظاہرین نے پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ سمیت سرکاری عمارتوں کے ساتھ ساتھ اعلی سیاسی رہنماؤں کے گھروں کو بھی نذر آتش کیا۔

ملک کے اہم بین الاقوامی ہوائی اڈے تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے کو بھی علاقے میں دھوئیں کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا۔

حکومت نے دن کے آخر میں سماجی ویب سائٹس پر پابندی کو ختم کر دیا اور ملک کے دارالحکومت کھٹمنڈو اور دیگر شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا۔ لیکن مظاہرے جاری رہے۔

وزیر اعظم کا استعفیٰ وزیر داخلہ رمیش لیکھاک کے استعفیٰ کے اعلان کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔

تنازعات کے حل کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سینیئر مشیر آشیش پردھان کے مطابق، ایک اہم سوال یہ ہے کہ اب نیپال پر حکومت کرنے کا حق کس کے پاس ہے۔

گذشتہ کئی برسوں کے دوران اس نسل جنریشن زی نے اس خطے میں سیاسی احتجاج میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ پچھلے سال بنگلہ دیش میں طلبا نے سرکاری ملازمتوں کے لیے متنازع کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کیا جس کے نتیجے میں ملک کی وزیر اعظم فرار ہو گئیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل