’کیس نمبر 9‘: شاہ زیب خانزادہ کے قلم سے لکھی تلخ سچائیاں

یہ ڈراما متاثرہ خواتین کو یقین دلاتا ہے کہ اگر ہمت کی جائے تو انصاف کا حصول مشکل سہی، ناممکن نہیں۔

ڈراما سیریل ’کیس نمبر 9‘ میں فیصل قریشی اور صبا قمر نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں جنہیں پذیرائی مل رہی ہے (ہر پل جیو)

ریپ کیسز میں خواتین کو ثبوت نہیں ہمت نہ ہونے پر شکست ملتی ہے۔ لوگ کیا کہیں گے؟ اس ایک جملے نے زیادتی کا شکار ہزاروں خواتین کو انصاف سے محروم کر دیا ہے۔

یہ طاقتور اور حقیقت پر مبنی مکالمات ڈراما سیریل ’کیس نمبر 9‘ کی کہانی کا نچوڑ ہی کہے جا سکتے ہیں۔ ہفتے میں دو دن نشر ہونے والے اس ڈراما سیریل نے اپنی ابتدائی اقساط سے ہی ناظرین کو نہ صرف جھنجوڑ کر رکھ دیا ہے بلکہ انہیں مجبور کیا کہ وہ بے چینی کے ساتھ اگلی اقساط کا انتظار بھی کریں۔

ڈرامے کی مقبولیت اور شہرت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب اس کا پہلا ٹریلر جاری ہوا تھا تو اس وقت سے ہر کوئی اس ڈرامے کے آغاز کے لیے تجسس کا شکار رہا۔ ڈرامے کی ہیوی ویٹ سٹار کاسٹ ہے، جن میں فیصل قریشی، صبا قمر، آمنہ شیخ، نورالحسن، جنید خان، گوہر رشید، نوین وقار اور حنا بیات شامل ہیں۔

صبا قمر اور آمنہ شیخ ڈراما سیریل ’کیس نمبر 9‘ کے ذریعے ایک طویل عرصے بعد چھوٹی سکرین پر واپس آئی ہیں۔ اسی بنا پر ان دونوں کے پرستاروں نے بھی اس ڈرامے میں اپنی دلچسپی دکھائی ہے۔

ڈرامے کے ہدایت کار سید وجاہت حسین کسی تعارف کے محتاج نہیں جو ’خائی‘ اور ’خدا اور محبت‘ جیسے ڈراموں کے ذریعے ناظرین کو بہترین تخلیقات کاتحفہ دے چکے ہیں لیکن اس کے باوجود سب سے چونکا دینے والی بات اس ڈرامے کے مصنف ہیں جو کہ کوئی اور نہیں ٹی وی میزبان شاہ زیب خانزادہ ہیں، جنہوں نے پروگراموں میں تجزیہ دینے کے بعد اب اپنی لکھنے کی صلاحیتوں کا امتحان ڈراما سیریل ’کیس نمبر 9‘ سے لیا ہے۔

ان کے لکھے ہوئے مکالمات تیر کی طرح دل پر چبھ رہے ہیں۔ بالخصوص جب ڈرامے کی ہیروئن یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ ’میری جیت ہر اس عورت کی ہو گی، جو سسٹم سے ہار کر بیٹھی ہے۔‘

کہانی کیا ہے؟

کہانی بہت سادہ ہے جو ہم اور آپ اکثر مختلف چینلوں پر دیکھتے ہیں کہ کسی خاتون کا ریپ کر دیا جاتا ہے یا پھر انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں۔ اس کے بعد انصاف کے حصول کی جنگ شروع ہوتی ہے۔ ان میں سے کئی مقدمات کمزور شواہد اور ناکافی ثبوت کی بنا پر وقت سے پہلے ہی بے جان ہو جاتے ہیں۔

اسی پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈراما سیریل ’کیس نمبر 9‘ میں دفاتر اور اداروں میں جنسی ہراسانی اور پھر ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کے پہلو کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ڈرامے کے مطابق کام کے مقامات پرخواتین چاہے وہ بڑا ہی عہدہ کیوں نہ رکھتی ہوں انہیں ’کچھ دو اور کچھ لو‘ کے فارمولے پر بحالت مجبوری عمل کرنا پڑتا ہے لیکن صبا قمر یعنی سحر معظم اس گھناؤنی سوچ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی ہے تو اس کا طاقتور، عیاش اور بااثر باس فیصل قریشی یعنی کامران دھوکے سے گھر پر بلا کر اس کے دامن پر وہ داغ لگا دیتا ہے جسے ثابت کرنے کے لیے سحر قانونی جنگ کا آغاز کرتی ہے۔

کامران دولت اور تعلقات کی طاقت سے خود کو معصوم اور بے گناہ ظاہر کرنے کے ساتھ سحر کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اسے بدکردار ثابت کرنے کی کوشش میں ہے۔

زیادتی کا شکار خواتین کے لیے رہنمائی

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اس ڈرامے کے ذریعے زیادتی کا شکار خواتین کی نہ صرف قانونی رہنمائی کی جا رہی ہے بلکہ انہیں ذہنی طور پر اس قابل بنایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے خلاف آواز بلند کر سکیں، کیونکہ ڈرامے کے ایک مکالمے کے مطابق ’گھر والوں کی سپورٹ اور حوصلہ نہ ہونے کی وجہ سے متاثرہ خواتین پہلے سے ہی مقدمہ ہار جاتی ہیں۔‘

ڈراما سیریل ’کیس نمبر 9‘ دراصل یہ شعور بھی بیدار کر رہا ہے کہ اگر کوئی زیادتی کا متاثرہ ہے تو وہ مقدمے کے لیے کون کون سے پہلو یا نکات پر توجہ دے۔ بالخصوص اس سارے معاملے میں وقت کس قدر اہمیت رکھتا ہے، اسی بات کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔ یعنی اگر بروقت شکایت درج کروائی جائے تو مقدمہ ٹھوس ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر دیکھا جائے تو ڈراما سیریل کے ذریعے قانونی اور تفتیشی نظام کی خامیوں اور ان میں موجود پیچیدگیوں کو بھی بے نقاب کیا گیا ہے۔ مثلاً سحر جب زیادتی کا شکار ہوکر رپورٹ درج کروانے کے لیے پولیس سٹیشن کا رخ کرتی ہے تو اسے کس نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہ دراصل اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ زیادتی کا شکار خواتین کو کس طرح کی قانونی رکاوٹوں کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ یہی نہیں ثبوت اور شواہد کا استعمال اور ان کی حفاظت کس طرح کی جائے یہی اس ڈرامے میں بہترین انداز میں عکس بند کیا گیا ہے۔

 ڈرامے کا سب سے اہم پہلو معاشرتی رویہ کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر کسی کے گھر، پولیس موبائل رخ کر لے تو زمانے کے ان گنت سوالات اس خاندان کا تعاقب کرتے رہتے ہیں یا پھر متاثرہ خاتون کے اپنے گھر والوں کا رویہ حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے ، وہ اس کی ڈھال بننے کے بجائے اس معاملے کو دبانے میں زیادہ زور دیتے ہیں۔

ڈرامے کا ایک اور پراثر مکالمہ وہ ہے، جب سحر زیادتی کا شکار ہونے کی رپورٹ درج کراتی ہے تو میڈیکو لیگل آفیسر اس سے یہ کہتی ہے کہ ’کوئی بھی بڑا کام کرنے کے لیے، جو سب سے مشکل ہوتا ہے وہ پہلا قدم ہوتا ہے اور وہ تم اٹھا چکی ہو۔‘

اسی طرح مطلقہ خواتین کو ہمارے معاشرے میں کس طرح ’مفت کا مال‘ سمجھ کر لوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ نکتہ بھی ڈراما سیریل ’کیس نمبر9‘ کا موضوع رہا ہے۔ یہ ڈراما دراصل مسائل کیا ہیں، یہ کیوں ہوئے اور ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے، جیسے سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کرتا نظر آ رہا ہے، جن سے متاثرین کو بااختیار بنانے اور مجرموں کو غیر موثر کرنے کا موقع ملے گا۔

بہرحال یہاں ایک بات جو ناظرین کو اس ڈرامے سے جوڑے ہوئے ہے وہ اس ڈراما سیریل کا تیز ٹیمپو ہے۔ عموماً پاکستانی ڈراموں کی ابتدائی اقساط میں کرداروں کا ہی تعارف کروایا جا رہا ہوتا ہے لیکن شاہ زیب خانزادہ نے انتہائی مہارت سے اس کا سکرین پلے کچھ ایسا لکھا کہ کہانی کہیں بھی تھمی نہیں بلکہ مسلسل آگے بڑھتی جا رہی ہے اور ہر منظر کے بعد یہی تجسس ہوتا ہے کہ آگے کیا ہو گا؟

روہیت اور مانیشا اور پاکستانی ڈراما

عموماً پاکستانی ڈراموں میں غیر مسلم برادریوں کے کردارشامل نہیں ہوتے۔ ڈراما سیریل ’کیس نمبر 9‘ میں اسی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہند و برادری سے تعلق رکھنے والا ایک جوڑا بھی ہے۔ نوین وقار مانیشا کا جبکہ جنید خان روہیت کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ پاکستانی ڈرامے میں اس پہلو پر خاص توجہ دی گئی ہے۔

ڈرامے کے ایک مکالمے میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف تین فیصد ریپ کیسز میں انصاف ملتا ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ اسی انداز کے اور کردار دیگر ڈراموں میں بھی شامل کیے جائیں گے تاکہ پاکستانی اقلیتی کیمونٹی کی ڈراموں میں بھی نمائندگی ملے۔

روہیت اور مانیشا کے کردار ڈراما سیریل ’کیس نمبر 9‘ میں خاصے اہم ہیں اور ڈرامے کی کہانی کا دارومدار انہی دونوں پر بھی ہے۔

اداکاروں کی کردار نگاری

فیصل قریشی منفی کردار ادا کر رہے ہیں اور ان کی اداکاری کی یہی خوبی رہی ہے کہ وہ اپنے ہر کردار میں ایسے رچ بس جاتے ہیں کہ دیکھنے والے ان کی اداکاری میں کھو جاتے ہیں۔

صبا قمر نے ثابت کیا کہ وہ نہ صرف ایک خوبرو اور پرکشش شخصیت کی مالک ہیں بلکہ اداکاری میں بھی وہ دیگر اداکاراؤں سے کیوں ممتاز ہیں۔ اس کا احساس ڈراما سیریل ’کیس نمبر 9‘ میں ان کی فطری اداکاری دیکھ کر بخوبی ہو جاتا ہے۔

ڈرامے میں ابھی نورالحسن اور آمنہ شیخ کا کردار واضح ہونا باقی ہے لیکن ٹریلرز یہی ظاہر کر رہے ہیں کہ دونوں کے درمیان کورٹ روم میں زبردست مکالمے بازی ہونے کو ہے۔ پولیس افسر کے روپ میں گوہر رشید کی اداکاری میں بیشتر مناظر میں جھول نظر آ رہا ہے۔ ڈرامے کا نام ’کیس نمبر 9‘ کیوں ہے، یہ بھی آنے والی اقساط میں بیان کیا جانے والا ہے۔

ڈرامے کے ایک مکالمے میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف تین فیصد ریپ کیسز میں انصاف ملتا ہے، مگر یہ ڈراما متاثرہ خواتین کو یہ باور کراتا ہے کہ اگر حوصلہ، شعور اور چٹان جیسا عزم ہو تو انصاف ممکن ہے۔

ڈراما سیریل ’کیس نمبر 9‘ صرف ایک ڈراما نہیں، بلکہ وہ آواز ہے جو ہر اس خاتون کے حق میں بول رہی ہے جو خوف، دباؤ اور خاموشی میں دب چکی ہے۔ سحر معظم کا کردار خواتین کو یہ سکھاتا ہے کہ ہر ظلم کے خلاف لڑنا ممکن ہے اور ہر جیت ایک طاقتور پیغام بن جاتی ہے۔

اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ ڈراما محض داستان نہیں بلکہ زیادتی کا شکار خواتین کے لیے ایک راستہ دکھانے والا آئینہ ہے تاکہ وہ قانونی، ذہنی اور سماجی طور پر مضبوط ہو کر اپنے حق کے لیے آواز بلند کر سکیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ