پنجاب: سٹیج ڈراموں کی ای مانیٹرنگ کا آغاز

پنجاب آرٹس کونسل کے مطابق ای مانیٹرنگ کے تحت پنجاب بھر کے 43 تھیٹرز میں سے متعدد کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔

صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے پنجاب آرٹس کونسل کو ہدایت کی تھی کہ سٹیج ڈراموں کی ای مانیٹرنگ شروع کی جائے (اجوکا تھیٹر)

پنجاب آرٹس کونسل لاہور کے آئی ٹی ایڈمنسٹریٹر محمد لقمان کے مطابق پنجاب بھر میں سٹیج ڈراموں کی ای مانیٹرنگ کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے پنجاب آرٹس کونسل کو ہدایت کی تھی کہ سٹیج ڈراموں کی ای مانیٹرنگ شروع کی جائے۔

’کچھ تھیٹرز میں تو کیمرے لگے ہوئے تھے لیکن باقی میں ہم نے نئے کیمرے لگوائے، جن کی فیڈ پنجاب آرٹس کونسل کے لاہور کے مرکزی دفتر میں آ رہی ہے اور ان کو وہاں مانیٹر کیا جا رہا ہے، جبکہ ڈویژنل سطح پر بھی مانیٹرنگ رومز بنائے گئے ہیں، وہاں بھی ان کی مانیٹرنگ کی جا رہی ہے، جن کی فیڈ لاہور کے ہیڈ آفس میں بھی آ رہی ہوتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ لاہور کے نو سے دس تھیٹر آپریشنل ہیں جن کی مانیٹرنگ یہاں ہیڈ آفس میں کی جا رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مانیٹرنگ میں ہم کڑی نظر رکھتے ہیں کہ سٹیج پر ہونے والے ڈرامے میں کوئی غیر اخلاقی ڈانس نہ ہو، کوئی نازیبا ملبوسات زیب تن کیے گئے ہوں، یا فنکاروں کی حاضرین کے ساتھ کوئی انگیجمنٹ، جیسے حاضرین کی جانب سے کوئی پیسے وغیرہ نہ پھینکے جا رہے ہوں یا آپس میں کوئی اشارے بازی نہ کی جائے۔ یہ سب ہم رات 11 سے ایک بجے تک مانیٹر کرتے ہیں، جس کے لیے تین سے چار لوگوں کی ایک ٹیم موجود ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا تھا کہ پنجاب بھر میں اس وقت 43 تھیٹرز آپریشنل ہیں اور اب تک متعدد تھیٹرز کو اسی ای مانیٹرنگ کے تحت شوکاز نوٹس بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔

ای مانیٹرنگ کے حوالے سے سٹیج ڈرامہ فنکارہ و گلوکارہ میگھا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’گذشتہ چند برسوں سے موجودہ تھیٹر کی صورت حال کافی خراب ہو چکی تھی۔ فحش جملے بازی اور حرکات و سکنات جنہیں رقص کا نام دیا جاتا تھا، اور نام نہاد اداکارائیں و اداکار کام کر رہے تھے، ان کا صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات عظمیٰ بخاری نے سختی سے نوٹس لیا، جو کہ قابلِ تعریف ہے۔‘

میگھا کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا تھیٹر ماضی کی حسین یادیں رکھتا ہے، بہت سے مقبول آرٹسٹ تھیٹر نے پیدا کیے، اور میری بھی خواہش ہے کہ تھیٹر کا ری وائیول ہونا چاہیے، کیونکہ یہ عوام کی تفریح کا ذریعہ ہے اور اسے بطور ایک تفریح ہی رہنا چاہیے، اور اسے کسی مخصوص طبقے کے لیے بے ہنگم یا بے یارو مددگار نہیں چھوڑنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ سٹیج ڈراموں کے لیے فنکار، گلوکار، پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز کو اپنا اپنا کردار ذمہ داری سے نبھانا چاہیے، اور تھیٹر کی بحالی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس کے لیے چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہے۔

حکومت کے تین شعبے، جن میں پنجاب آرٹس کونسل، ہوم ڈیپارٹمنٹ اور ضلعی حکومت شامل ہیں، کو بھی تھیٹرز کی بحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، تاکہ عوام کو ایک فیملی تفریح مہیا کی جا سکے۔

دوسری جانب سیریس تھیٹر سے تعلق رکھنے والی ایک فنکارہ، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر ارم کا انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا: ’مجھے خیال یہ آ رہا ہے کہ حکومت نیو ایئر پارٹیز پر چھاپے کیوں نہیں مارتیں؟ کچھ ایکٹریسز کو حکومتی تمغے دیے جاتے ہیں، جبکہ وہ بھی اپنی فلموں میں وہی لباس پہن کر ناچ رہی ہوتی ہیں۔‘

’جو آرٹسٹ مڈل کلاس، سٹرگلنگ ایکٹر، یا پنجابی تھیٹر سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں دھر لیا جاتا ہے۔‘

ارم کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمرشل تھیٹر ڈرامے لکھنے والے تقریباً سبھی مرد ہیں، لیکن جب پکڑ کی باری آئی تو ان میں کام کرنے والی خواتین کو دھر لیا گیا۔ ان ڈراموں کے ڈائریکٹرز، رائٹرز اور پروڈیوسرز کو کیوں نہیں پکڑا جا رہا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن