پنجاب کا کمرشل تھیٹر جسے بابو لوگوں نے کبھی ’سیریس‘ نہیں لیا

 امان اللہ کے ساتھ تھیٹر میں نئے فنکاروں کا سیلاب آ گیا۔ خالد عباس ڈار کے بقول: ’میں نے اپنی شوبز کی 60، 65 سالہ زندگی میں کسی دوسرے استاد کے اتنے شاگرد نہیں دیکھے جتنے امان اللہ کے تھے۔‘

امان اللہ کہتے تھے ’میں وکھری آڈینس پیدا کر رہا ہوں‘ (بیسٹ آف امان اللہ فیس بک پیج)

سال 1979 کے سپر ہٹ سٹیج ڈرامے ’سکسر‘ نے تھیٹر کی دنیا میں کھلبلی مچا رکھی تھی۔ ایک نئے جوان کا چرچا ہوا جو سٹیج پر کسی کے سامنے ہاتھ کھڑے کرنے کو تیار نہ تھا۔ یہ امان اللہ تھا جو بعد میں ’کنگ آف کامیڈی‘ کے نام سے معروف ہوا۔

خالد عباس ڈار فن کی دنیا کا بڑا نام ہیں۔ وہ الحمرا میں تھیٹر کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے امان اللہ سے کہا ’بیٹا یہاں آ کر ہمارے ساتھ بھی کام کرو۔‘

امان اللہ نے کہا ’میں وکھری آڈینس پیدا کر رہا ہوں۔ یہ اور آڈینس ہے، وہ اور ہے۔‘

یہ وکھری آڈینس باغ جناح کے اوپن ائیر تھیٹر کی تھی جو الحمرا والوں کے نزدیک ’غیر شائستہ‘ اور محض ’جگتوں کی رسیا‘ تھی۔

الحمرا والے ایلیٹ کلچر کے نمائندہ تھے جو اپنے تئیں برتر سطح کا فن تخلیق کر رہے تھے۔  تب الحمرا کی پیلی سی رنگت والی پرانی عمارت میں ایک ہی ہال تھا، محض 100 لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی جو اکثر زیادہ پڑ جاتی۔ اس تھیٹر کی بود و باش ارسٹوکریٹک تھی، ایک مصنوعی پن جو کم از کم ہمارے ہاں کے اردو ڈرامے کی گھُٹی میں ہے۔

دوسری طرف باغ جناح کا اوپن ائیر تھیٹر عام آدمی کی تفریح تھی۔ پیلے اور لال رنگ کے شامیانے لگا کر سٹیج تیار کیا جاتا۔ کریون اے کی ڈبیہ کے بجائے بیڑی پینے والے عوام جگتوں سے محظوظ ہوتے۔ کسی نے یہیں دیکھ کر ’زندگی سے بھرپور قہقہہ‘ کے الفاظ سوچے ہوں گے۔

باغ جناح کا یہی تھیٹر اب امان اللہ کے کمالات اور نیا عروج دیکھ رہا تھا۔ البیلا (ہنی البیلا کے والد) کے ساتھ ان کی جوڑی ہاٹ فیورٹ تھی۔  یہاں ہزار، بارہ سو لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی جو اکثر کم پڑ جاتی۔

امان اللہ کی مقبولیت کا آنکھوں دیکھا حال سناتے ہوئے سہیل احمد کہتے ہیں کہ گیارہ، بارہ سو کا مجمع تھا، بارش شروع ہو گئی، لوگ بھیگ جا رہے ہیں مگر اٹھنے کا نام نہیں لے رہے۔ بارش کے تیز شور میں امان اللہ کی آواز گم ہونے لگی۔ وہ ہزار کہتے ہیں مگر لوگ اٹھنے کا نام نہیں لیتے۔ وہ کہتے ہیں اسی ٹکٹ میں کل آ جانا۔ لوگ کہتے ہیں تسی ہساؤ اسی بیٹھے آں۔

یہ ’وکھری آڈینس‘ اور امان اللہ سٹائل کامیڈی پنجاب میں اس نئے طرز کے تھیٹر کا نقطہ کمال تھا جسے آج کمرشل تھیٹر کہا جاتا ہے۔ بالی جٹی اور عالم لوہار کے لوک تھیٹر کی توسیع، جس میں سیٹھ انٹری مار چکا تھا۔

یہ وہ زمانہ ہے جب فلم انڈسٹری کا شباب ڈھلنے لگا تھا۔ 1970 کی دہائی میں اردو فلموں کے زوال سے پنجابی فلم انڈسٹری نے نئی کروٹ لی۔ مولا جٹ اور نصیبو لال کا ’کنڈی نہ کھڑکا‘ کمائی کا فارمولا تھا جو سرمایہ کار کے لیے بہت کامیاب رہا لیکن انڈسٹری کی چولیں ہلا گیا۔ اگلا نمبر پنجابی تھیٹر کا تھا۔

لاہور، فیصل آباد، گجرانوالہ اور ملتان جیسے بڑے شہر کمرشل تھیٹر کی چاندنی میں نہا رہے تھے۔ پنجاب کے دور دراز شہروں میں سی ڈیز پہنچنے لگیں۔ تھیٹر تفریح کا بہترین متبادل ذریعہ ثابت ہو رہا تھا۔ سینما ہال تھیٹر ہال میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔

 امان اللہ کے ساتھ تھیٹر میں نئے فنکاروں کا سیلاب آ گیا۔ خالد عباس ڈار کے بقول: ’میں نے اپنی شوبز کی 60، 65 سالہ زندگی میں کسی دوسرے استاد کے اتنے شاگرد نہیں دیکھے جتنے امان اللہ کے تھے۔‘

ان ڈراموں کا اصل کمال فی البدیہ جگتیں تھیں۔ بات سے بات نکالنا اور بولتے چلے جانا۔

15، 20 سال کا عروج دیکھنے کے بعد پنجاب کا کمرشل تھیٹر اسی دوراہے پر کھڑا تھا جہاں سے پنجابی فلم نے اپنا سفر کھوٹا کیا۔

ذومعنی فقرے بازی نے مجرے کا راستہ ہموار کیا۔ ایک بار ڈانسر گھسی، تو اداکار گیم سے باہر ہوتے چلے گئے۔ اب تھیٹر میں امان اللہ اور سہیل احمد کے لیے کچھ نہیں رہ گیا تھا۔

بھلا ہو پرائیویٹ چینلز کا جہاں درجنوں تھیٹر فنکاروں کو دوسری اننگز کھیلنے کا موقع ملا، ورنہ ان کے ساتھ وہی ہوتا جو مستانہ کے ساتھ ہوا۔

ایک روز رات کو سٹیج ڈرامے پر پولیس کا چھاپہ پڑا اور فنکار دھر لیے گئے۔ پولیس سٹیشن پہنچے تو مستانہ کرسی پر بیٹھنے لگے۔ سپاہی نے کہا ’اٹھ اوئے تیری کمر ٹُٹی اے (اٹھو! تمہاری کمر ٹوٹی ہوئی ہے)‘ اور ساتھ ہی تھپڑ جڑ دیا۔ اگلے دن ضمانت ملی تو مستانہ واپس بہاولپور چلے گئے۔ انہوں نے دوبارہ کبھی سٹیج یا لاہور کا منہ نہ دیکھا۔

مستانہ کے بھائی حلفاً کہتے ہیں اس دن ڈرامے میں کوئی ڈانس نہ تھا۔ پھر پولیس نے چھاپہ کیوں مارا؟ تھیٹر سے دلچسپی رکھنا والا ہر شخص جانتا ہے کہ پولیس پارٹی تھی۔ یہ تھیٹر وار چل رہی تھی اور پولیس لاہور کی گینگ وار کی طرح یہاں بھی پارٹی تھی، کیوں کہ یہاں پیسہ اور حسن تھا۔

دیگ کا ایک دانہ چکھنا ہو تو میڈیا اور کورٹ کچہری تک پہنچنے والی عابد باکسر اور نرگس کی لڑائی کا احوال پڑھ لیں کافی رہے گا۔

 آہستہ آہستہ ڈرامے سے لکھاری اور اداکار دونوں مائنس ہو گئے۔ اب بزنس مین تھا اور ڈانسرز۔ سہیل احمد اور نرگس کے درمیان طویل عرصہ کشمکش رہی۔ سہیل احمد کا موقف تھا کہ کمرشل تھیٹر کی ایک روایت، ایک کلچر ہے، کچھ تو خیال کرو۔

نرگس کہتی ہیں جب لوگ مجرے کے خواہش مند اور میرا ٹکٹ خریدنا چاہتے ہیں تو اس سے کسی کو کیا تکلیف؟ نرگس کے ساتھ بزنس مین کھڑا تھا اس کا پلہ بھاری رہا۔

پھر ڈانسرز کے اپنے گروپ بنے۔ پولیس پارٹی بنی، تھیٹر کے نام پر انتہائی گھٹیا مجرا کیا جانے لگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دو روز قبل بابو لوگوں کی فرمائش پر پنجاب اسمبلی سے 150 سال پرانے ڈرامہ ایکٹ 1876 میں ترامیم منظور کروائی گئی ہیں تاکہ کمرشل تھیٹرز میں فحاشی و عریانی کا خاتمے کیا جائے۔

تھیٹر کے انتظامی معاملات محکمہ داخلہ سے محکمہ اطلاعات و ثقافت میں منتقل کر دیے گئے۔ پنجاب آرٹس کونسل میں نئے آفیسر کی تعیناتی ہو گی، بابو صاحب نگرانی کے لیے پوری ٹیم تیار کریں گے۔

پنجاب کا کمرشل تھیٹر اپنا وقت گزار چکا۔ دہائیوں پر محیط ثقافتی سرگرمی اور لاکھوں لوگوں کی تفریح آج نہیں تو کل ماضی کا حصہ بن جائے گی۔

حکام فحاشی روکنا چاہتے ہیں۔ مگر اوپر سے آڈر لگانے کے سوا انہوں نے کمرشل تھیٹر کے لیے کیا کیا ہے، ان کی خدمات کیا ہیں؟ مستانہ کی ایک پنچ لائن بہت مشہور ہوئی تھی، ’تو مینوں سیریس لی نئیں لے ریا۔‘ انہوں (حکام) نے کبھی تھیٹر کو سریس لیا؟

ویسے خیال آتا ہے شکر ہے سیریس نہیں لیا ورنہ جتنا ان میں نور ہے آج کا دم توڑتا تھیٹر کب کا مر گیا ہوتا۔ 1980 کی دہائی میں جب پہلی بار قوی خان امان اللہ کو اپنے ڈرامے کے لیے الحمرا لے گئے تو ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔

انہی دنوں شعیب منصور سے کسی نے انٹرویو میں پوچھا کہ آپ کا پوری دنیا میں پسندیدہ اداکار کون ہے۔ انہوں نے کہا امان اللہ۔

جی سی کے ارسٹوکریٹک ماحول کے پڑھے شعیب منصور اور قوی خان کی گواہی نہ ہوتی تو نجانے کب تک امان اللہ کے لیے الحمرا کے دروازے بند رہتے۔

وہی الحمرا جہاں پنجابی بولنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ لاہور پنجاب کا دل اور اس کی ثقافتی پہچان الحمرا میں آپ پنجابی زبان کا تھیٹر نہیں کر سکتے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ