پنجاب کا ہتک عزت کا نیا قانون کیا ہے؟

پنجاب کے نئے قانون میں کچھ لوگوں کے مطابق ہتک عزت کی تشریح بھی وسیع اور کافی مبہم ہے۔

12 اگست، 2022 کو اسلام آباد میں صحافی احتجاج کر رہے ہیں (اے ایف پی)

حکومت پنجاب نے انتہائی سبک رفتاری سے حزب اختلاف اور صحافیوں کی مزید مشاورت کی درخواست رد کرتے ہوئے ہتک عزت کا نیا قانون صوبائی اسمبلی سے منظور کروا لیا ہے۔

پاکستان میں عام تاثر یہی ہے کہ سوشل میڈیا پر انتہائی تنقید اور کردار کشی کے جاری شدید رجحانات کے بعد یہ قانون جلد منظور کروایا گیا ہے۔ سیاسی طور پر متحرک سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (ٹوئٹر) گذشتہ کئی ماہ سے اسی پاداش میں بند ہے۔

ادھر وفاقی حکومت نے آن لائن مواد کی نگرانی کے لیے نئی اتھارٹی بنانے کا گذشتہ دنوں اعلان کیا تھا، تو سوال یہی ہے کہ تنقید یا بےعزتی کی اصل وجوہات پر توجہ کیوں نہیں دیتے کہ جھوٹ کیوں بولا جا رہا ہے؟ سیاسی تناؤ میں کمی کیوں نہیں آ رہی؟ سیاسی جماعتیں اور دیگر عناصر اگر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا بند کریں گی تو شاید سکون آسکے گا۔

اس نئے قانون میں ہے کیا؟ آئینی عہدے پر فائز کس کو اس سے فائدہ ہوگا؟

قانون کے مطابق آئینی عہدے سے مراد صدر، گورنر، چیف جسٹس آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے ججز، چیف جسٹس اور لاہور ہائی کورٹ کے ججز، وزیراعظم، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، سپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین سینیٹ، وزیراعلیٰ، صوبائی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف، صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ اور ممبران، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، چیف آف آرمی سٹاف، چیف آف دی نیول سٹاف اور چیف آف دی ایئر سٹاف شامل ہیں۔

یہ افراد مقدمہ تو دائر کرسکیں گے لیکن ان کے خود پیش ہونے کی ضرورت نہیں، جو بعض قانونی ماہرین کے مطابق قانونی تقاضے پورے نہیں کرتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ملزم تو صفائی کے لیے جوتے رگڑتا رہے گا لیکن شکایت کنندہ گھر بیٹھا رہے گا۔ کچھ لوگوں کے مطابق ہتک عزت کی تشریح بھی وسیع اور کافی مبہم ہے۔ اس کی بھی وضاحت ہونی چاہیے۔

جرم ثابت ہونے پر معافی تلافی کے علاوہ 30 لاکھ روپے تک کا جرمانہ بھی بھرنا ہوگا۔ ایک ابہام یہ بھی پایا جاتا ہے اس قانون کا اطلاق صرف پنجاب میں ہو گیا یا اس کی زد میں ملک کے دوسرے حصوں کے لوگ بھی آ سکتے ہیں۔

تاہم صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ ہتک عزت کا قانون کسی صحافی کے خلاف نہیں بلکہ جھوٹ بول کر لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے والوں کے خلاف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تمام صحافتی تنظیمیں اپنے تحفظات لکھ کر انہیں دیں ان کے جائز ایشوز کو تسلیم کیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے: ’یہ قانون اس لیے لایا جا رہا ہے تاکہ ڈالر اور سستی شہرت کمانے کے لیے لوگوں کی پگڑیاں نہ اچھالی جائیں۔ ہتک عزت کا قانون لانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ پرانے ڈیفیمیشن لا میں کوئی کیس ایک نوٹس سے آگے نہیں جا سکا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’میرے والد اور بہنوں پر الزام لگائے گئے، ہتک عزت پر پہلا کیس خود لاؤں گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست