امریکی ڈالر کیسے دوسری کرنسیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے؟

پاکستانی اور انڈین روپیہ ہو یا برطانوی پاؤنڈ، اوپر سے اوپر جاتے امریکی ڈالر نے دیگر کرنسیوں کو نامعلوم گہرائی میں دھکیل دیا ہے، جس سے 1997 کے ایشیائی مالی بحران کی گونج دوبارہ سنائی دے رہی ہے۔

ایک غیر ملکی کرنسی ڈیلر 19 جولائی 2022 کو کراچی کی ایک کرنسی مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے نوٹ گن رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

امریکی ڈالر کی قدر میں اضافہ، جس نے ایک کے بعد ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے،  دیگر ممالک کی کرنسی کی قدر میں شدید گراوٹ کے خدشات کو بڑھا رہا ہے۔

یہ گراوٹ 1997 کے اس ایشیائی مالیاتی بحران کے بعد سے نہیں دیکھی گئی، جس کی گونج  دنیا بھر میں سنائی دی تھی۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فیڈرل ریزرو کی طرف سے شرح سود میں تیزی سے کیے جانے والے اضافے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی امریکی معیشت کی صحت نے سرمایہ کاروں کو ڈالر کے سیلاب کی جانب راغب کیا، جس کی وجہ سے ڈالر اوپر چلا گیا اور برطانوی پاؤنڈ، انڈین روپیہ، پاکستانی روپیہ، مصری پاؤنڈ اور جنوبی کوریائی وان سمیت دیگر کرنسیوں کو نامعلوم گہرائی میں دھکیل دیا۔

امریکہ کے ملٹی نیشنل انوسٹمنٹ بینک سے وابستہ بریڈ بیچل کا کہنا ہے کہ ’صورت حال میں شدت آتی جا رہی ہے۔‘ انہوں نے خبردار کیا کہ شرح تبادلہ میں مزید کمی ہو سکتی ہے، جس سے حالات گھمبیر ہو جائیں گے۔

دیگر بڑے مرکزی بینک بھی افراط زر کو کم کرنے کے لیے مالیاتی پالیسی کو پوری طاقت کے ساتھ سخت کر رہے ہیں لیکن ابھی تک ان اقدامات سے کرنسی مارکیٹ کو مستحکم کرنے میں مدد نہیں ملی اور نہ ہی گذشتہ ہفتے ین کو سپورٹ کرنے کے لیے جاپان کی براہ راست مداخلت کا فائدہ ہوا۔

بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ بینک آف انگلینڈ کی جانب سے بدھ کو پاؤنڈ کو سپورٹ کرنے کے لیے سرکاری بانڈز کی ہنگامی خریداری کے اعلان کردہ منصوبے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا۔

بریفنگ ڈاٹ کام سے منسلک پیٹرک اوہیئر کے مطابق: ’ہمیں اس بات پر شک ہے کہ بینک آف انگلینڈ کا منصوبہ کوئی معجزہ ثابت ہوگا جو پاؤنڈ کو دباؤ میں لانے والے تمام عوامل کو ختم کر دے گا۔  اس امر پر غور کرتے ہوئے کہ یہ منصوبہ مستقل نوعیت کا نہیں ہو گا۔

‘تازہ ترین گراوٹ نے پاونڈ سٹرلنگ کو سال میں اب تک کی سب سے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی جی 10 کرنسی بنا دیا ہے۔

دوسری جانب ابھرتی ہوئی مارکیٹ والے ممالک میں صورت حال اس سے بھی بدتر ہے۔ گذشتہ سال پاکستانی روپے کی قدر میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں 29 فیصد کمی ہوئی جبکہ مصری پاؤنڈ 20 فیصد تک کمزور ہوا۔

پاکستان میں تجارتی خسارے میں اضافے کو بھی روپے کی قیمت میں کمی کی وجہ بتایا جاتا ہے۔

پاکستان میں معاشی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کے مطابق جب کسی ملک کی درآمدات اور برآمدات میں توازن برقرار نہ رہے اور اولذکر میں اضافہ ہو تو اس ملک سے امریکی ڈالر اڑنا شروع ہو جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’اس کے نتیجے میں ڈالر کی طلب بڑھ جاتی ہے، قیمت بھی اوپر کو جاتی ہے اور اس ملک کی کرنسی کی قدر نیچے کی جانب گرتی ہے، پاکستان میں بھی روپے کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔‘

لندن میں قائم فرم ’بی بی ایچ انویسٹر سروسز‘ کے شعبہ کرنسی سٹریٹیجی کے سربراہ وِن تھن کا کہنا ہے کہ یہ ممالک اور دوسرے ملک جیسے کہ سرلنکا اور بنگہ دیش جنہوں نے اس وقت ’کم قیمت اور وافر سرمائے سے فائدہ اٹھایا‘ جب کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے شرح سود کمی تھی۔ اب یہ تمام ملک عالمی سطح پر سرمائے کی قلت کی وجہ متاثر ہو رہے ہیں۔

 انہوں نے خبردار کیا کہ ’ممکن ہے کہ کمزور ترین بنیادوں والے ملکوں کو سب سے پہلے آزمائش سے گزرنا پڑے تاہم دوسرے ملک بھی ان کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔‘

جن ملکوں میں قیمتوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، وہ ممالک درآمد شدہ تیل اور اناج پر انحصار کرتے ہیں۔ ان کے تجارتی خسارے میں اضافہ ہوا اور افراط زر کو ہوا ملی۔ ان کی کرنسیوں کو زبردست دھچکا لگا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی کرنسی کی قدر میں اضافے نے بھی اس مسئلے کو اور بڑھا دیا ہے کیوں کہ بہت سی اشیا کی قیمت ڈالر میں ہوتی ہے۔

پہلے سے ہی نازک معاشی حالات سے گزرنے والا پاکستان اگست میں تاریخی سیلاب سے متاثر ہوا، جس نے حکومت کو قرضوں کی تنظیم نو پر بات کرنے پر مجبور کر دیا۔

پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس میں شرکت کے موقعے پر دنیا کے امیر ممالک سے اپیل کی تھی کہ وہ پاکستان کو قرضوں میں ریلیف دیں کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث آنے والے بدترین سیلاب سے ملک کا انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا ہے۔

معاشی اور تجارتی امور کی کوریج کرنے والی ویب سائٹ ’فوریکس لائیو‘ سے منسلک ایڈم بٹن نے خبردار کیا ہے کہ ’مالیاتی نظام پر اب شدید دباؤ ہے اور یہ صرف وقتی بات ہے، اس وقت تک کہ جب دنیا میں کہیں بڑا بحران ہو۔‘

امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے رواں ہفتے کہا تھا کہ انہوں نے شرح سود میں اضافے کی وجہ سے مالیاتی منڈی میں بد نظمی کے ابھی تک آثار نہیں دیکھے۔

تائیوان، تھائی لینڈ یا جنوبی کوریا جیسے ممالک کے لیے، جو توانائی کی درآمدات پر بھی انحصار کرتے ہیں، چین کی صفر کووِڈ پالیسی نے اس اہم تجارتی پارٹنر کے لیے ان کی برآمدات کو کم کر دیا ہے۔

چین اور جاپان جیسی بڑی معیشتوں نے حالیہ ہفتوں میں زرمبادلہ کی منڈی کے برے حالات میں حصہ ڈالا ہے۔ جاپانی ین 24 سال کی کم ترین سطح پر آ گیا جب کہ چینی یوآن 14 سالوں میں اپنی کمزور ترین سطح پر پہنچ گیا۔

عدم استحکام کا خوف 1997 کے ایشیائی مالیاتی بحران کی یادیں تازہ کر رہا ہے، جو تھائی بھات کی قدر میں کمی کے باعث شروع ہوا تھا۔

اس کے بعد ملائیشیا، فلپائن اور انڈونیشیا کی باری آئی جنہوں نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کر دیا اور بڑے پیمانے پر سرمایہ بیرون ملک منتقل ہوا جس سے کئی ممالک شدید کساد بازاری کا شکار ہو گئے اور جنوبی کوریا نادہندہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا۔

اس وقت تھائی بھات کا گرنا جزوی طور پر ڈالر کے ساتھ اس کی فکس برابری سے منسلک تھا، جس نے تھائی حکومت کو اپنی کرنسی کو سہارا دینے پر مجبور کیا، جس سے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر ختم ہو گئے جنہیں مارکیٹ کی قوتوں کے پیش نظر برقرار نہیں رکھا جا سکتا تھا۔

ارجنٹائن کو بالآخر ڈالر کے مقابلے میں اپنی کرنسی کی قیمت کم کرنی پڑی اور وہ  2001 کے آخر میں ڈیفالٹ کر گیا، جو تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی ڈیفالٹ تھا۔

فنانشل سروس کمپنی ’ویلز فارگو‘ کے ایرک نیلس کہتے ہیں کہ 1997 اور 2022 کے درمیان بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا: ’اب مبادلے کے لیے مبادلے کی فکسڈ شرح زیادہ نہیں ہے۔ صاف بات یہ ہے کہ میں اس وقت ترقی یافتہ مارکیٹوں کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوں۔‘

لبنان، ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جو اب بھی اپنی کرنسی کو امریکی ڈالر کے ساتھ منسلک کرتا ہے، نے جمعرات کو کرنسی کی قیمت میں زبردست کمی کا اعلان کیا، جس سے ملک کے پاؤنڈ کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں سابق 1507 کی فکسڈ شرح سے گرنے کے بعد 15 ہزار ہو گئی۔

اس کے برعکس امریکہ میں، جہاں افراط زر 40 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، ڈیلی ایف ایکس کے کرسٹوفر ویکیچیو کا کہنا ہے کہ ’فیڈرل ریزرو مضبوط ڈالر کو ایک نعمت کے طور پر دیکھتا ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’اس سے معیشت کو قیمت کے زیادہ اہم دباؤ سے محفوظ رکھنے میں مدد ملتی ہے۔‘

مضبوط کرنسی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی ملک کو اپنی درآمدات کے لیے کم ادائیگی کرنی پڑے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت