غزہ میں ’شدید قحط‘ پھیل رہا ہے، 100 سے زائد تنظیموں کا انتباہ

ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز، سیو دی چلڈرن اور آکسفیم سمیت 100 سے زائد امدادی تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپس نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں لوگ بھوک سے نڈھال ہو رہے ہیں۔

مرکزی غزہ میں 20 جولائی 2025 کو بڑی تعداد میں فلسطینی بچے اور خواتین کھانا لینے کی کوشش میں کھڑے ہیں (روئٹرز)

اسرائیل کو فلسطینی علاقے میں تباہ کن انسانی صورت حال کے باعث بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے  جہاں بدھ کو 100 سے زائد امدادی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ غزہ میں ’شدید قحط‘ پھیل رہا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 111 دستخط کنندگان — جن میں ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (ایم ایس ایف)، سیو دی چلڈرن اور آکسفیم شامل ہیں — نے ایک بیان میں خبردار کیا کہ ’ہمارے ساتھی اور جن لوگوں کی ہم خدمت کرتے ہیں، وہ بھوک سے نڈھال ہو رہے ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جب اسرائیلی حکومت کی ناکہ بندی غزہ کے لوگوں کو بھوکا مار رہی ہے، تو امدادی کارکن بھی اب انہی قطاروں میں کھڑے ہیں جہاں انہیں اپنے خاندان کے لیے خوراک حاصل کرنے میں گولی لگنے کا خطرہ ہے۔‘

ان گروہوں نے فوری جنگ بندی، تمام زمینی گزرگاہوں کو کھولنے اور اقوام متحدہ کی قیادت میں امداد کی بلا روک ٹوک فراہمی کا مطالبہ کیا۔

غزہ کے سب سے بڑے ہسپتال کے سربراہ نے منگل کو بتایا کہ گذشتہ تین دنوں کے دوران غذائی قلت اور بھوک کے باعث 21 بچے مر گئے ہیں۔

منگل کو اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ مئی کے آخر میں امریکہ اور اسرائیل کے حمایت یافتہ ’غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن‘ کے آغاز کے بعد سے اب تک 1,000 سے زائد فلسطینی امداد حاصل کرنے کی کوشش میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ انسانی امداد غزہ میں جانے دی جا رہی ہے اور وہ حماس پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ شہریوں کی تکلیف کا فائدہ اٹھا کر امدادی سامان چرا کر مہنگے داموں بیچتی ہے یا امداد کے منتظر لوگوں پر فائرنگ کرتی ہے۔

اپنے بیان میں انسانی ہمدردی کی تنظیموں نے کہا کہ ٹنوں کے حساب سے امدادی سامان سے بھرے گودام غزہ کے اندر اور سرحدوں پر موجود ہیں، مگر ان تک رسائی یا ترسیل کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’فلسطینی ایک ایسے چکر میں پھنسے ہیں جہاں انہیں امداد اور فائر بندی کی امید ہے، مگر انہیں ہر روز مزید بگڑتے حالات کا سامنا ہے۔ یہ صرف جسمانی اذیت نہیں بلکہ نفسیاتی اذیت بھی ہے۔ زندہ رہنے کی امید ایک سراب کی مانند دکھائی جاتی ہے۔

’انسانی ہمدردی کا نظام جھوٹے وعدوں پر نہیں چل سکتا۔ امدادی کارکن غیر یقینی ٹائم لائنز پر یا ایسے سیاسی وعدوں پر انحصار نہیں کر سکتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سب کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غزہ میں ایک چھ ہفتوں کے بچے کی بھوک کے باعث موت ہو گئی اور ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مہینوں سے غزہ پر منڈلاتی بھوک کی لہر اب عملی طور پر تباہ کن انداز میں نازل ہو رہی ہے۔

24 گھنٹوں میں بھوک سے 15 اموات

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق غزہ کے ایک ہسپتال میں چھ ہفتے کے یوسف کی بے جان لاش ایک میز پر ساکت پڑی تھی، اس کی جلد ہڈیوں پر تنی ہوئی تھی اور اس کے ننھے بازو پر لگی پٹی اس جگہ کو ڈھانپ رہی تھی جہاں ڈرِپ لگائی گئی تھی۔ ڈاکٹروں کے مطابق یوسف کی موت کی وجہ بھوک تھی۔

یوسف ان 15 لوگوں میں شامل تھے جن کی گذشتہ 24 گھنٹوں میں غزہ میں بھوک کے باعث موت ہوئی۔ یوسف کے چچا، ادھم الصفاوی کے مطابق، خاندان کو بچے کے لیے بے بی فارمولا دودھ نہیں ملا۔

وہ اپنے بے جان بھتیجے کو دیکھتے ہوئے بولے: ’کہیں سے بھی دودھ نہیں ملتا، اور اگر کہیں دستیاب ہو بھی تو ایک ڈبے کی قیمت 100 ڈالر ہے۔‘

گذشتہ روز بھوک سے مرنے والے دیگر فلسطینیوں میں تین اور بچے بھی شامل تھے، جن میں 13 سالہ عبد الحمید الغلبان بھی تھا، جو جنوبی شہر خان یونس کے ایک ہسپتال میں دم توڑ گیا۔

اسرائیلی فوجوں نے غزہ پر اپنے حملوں کے آغاز کے بعد سے اب تک تقریباً 60,000 فلسطینیوں کو فضائی حملوں، گولہ باری اور فائرنگ کے ذریعے قتل کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا