آئینی ترمیم کیس: دلائل اس ترمیم کو آئین کا حصہ مانتے ہوئے دیں، جسٹس امین الدین

26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پرسماعت میں درخواست گزاروں کےوکیل کا موقف تھاکہ سماعت فل کورٹ کرے جو 26ویں ترمیم کے وقت تھی،یعنی 16 رکنی بینچ بنایا جائے۔ جسٹس امین نے قرار دیا جب تک ترمیم کالعدم نہیں ہوتی،آئین کا حصہ ہے،دلائل اسی بنیاد پر دیے جائیں۔

 19 جون 2025 کو اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے سامنے سے شہری گزر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان کے آئین میں گذشتہ برس اکتوبر میں کی گئی 26ویں آئین ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر بدھ کو سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی آئینی بینچ نے کی۔

ان درخواستوں میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ سے متعلق ترامیم کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جب تک کوئی نئی ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین ہی پر انحصار کرنا ہو گا۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ’ہم آئین پر انحصار کرتے ہیں، وکلا بھی آئین پر انحصار کرتے ہیں، جب تک آئین میں ترمیم نہیں ہوتی موجودہ آئین پر ہی انحصار کرنا ہو گا۔‘

پارلیمنٹ نے اکتوبر 2024 میں آئینی ترمیم منظور کی تھی جس کے بعد تحریک انصاف سمیت دیگر نے اس ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ رواں برس جنوری میں ان درخواستوں پر دو سماعتیں ہوئی تھی اور پھر ایک طویل وقفے کے بعد اب اس کیس کی باضابطہ سماعتیں سپریم کورٹ کا آئینی بینچ کر رہا ہے۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ کے سامنے ہونے والی سماعت بدھ کو سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔ درخواست گزاروں کے وکیل حامد خان ایڈووکیٹ نے ابتدا ہی میں بینچ کی تشکیل پر دلائل دیے۔

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم اس کیس کی فل کورٹ میں ہی سماعت چاہتے ہیں، فل کورٹ وہ والی جو 26ویں ترمیم کے وقت تھی۔ اس حساب سے 16 رکنی بنچ بنے گا۔ موجودہ بنچ کے تمام ججز بھی اس وقت موجود تھے۔ استدعا ہے باقی اس وقت کے آٹھ ججزکو بھی شامل کیا جائے۔‘

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ متفق ہیں اس وقت 26 ویں ترمیم آئین کا حصہ ہے یا نہیں؟‘ حامد خان نے جواب دیا کہ ’اگر فل کورٹ اس ترمیم کو کالعدم قراردے تو یہ پہلے دن سے ختم تصور ہو گی۔ عدالت 21ویں ترمیم کے کیس کو دیکھ لے۔‘

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے ’جب تک کالعدم ہو نہ جائے تب تک تو آئین کا حصہ ہے نا؟ اس وقت آپ دلائل اس ترمیم کو آئین کا حصہ مانتے ہوئے دیں گے۔ آپ آئین سے بتا دیں یہ کیس سولہ رکنی فل کورٹ میں کیسے لگ سکتا ہے؟‘ جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے کہا کہ ’آپ اسی ترمیم کے تحت بنے بنچ کے سامنے آئے ہیں۔‘

بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ ’اس وقت 26ویں ترمیم آئین کی کتاب کا حصہ ہے۔ ہم نے اسی کتاب کے تحت حلف لے رکھا ہے، اگر ہم آرٹیکل191 بھول جائیں تو پھر آج سپریم کورٹ کا وجود ہی نہیں رہتا۔‘

حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’میں عدلیہ کی آزادی کے تناظر میں بات کر رہا ہوں۔ پہلی بار جوڈیشل کمیشن کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ مقدمات مقرر کرے۔ پہلے یہ عدلیہ کا اندرونی معاملہ ہوتا تھا۔ ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن میں ججز اقلیت میں آگئے ہیں۔ میں جب میرٹس پر بات ہو گی تب اس پر تفصیل سے بتاوں گا۔‘

حامد خان نے آئینی بنچ کی تشکیل سے متعلق 26ویں ترمیم کا حصہ پڑھ کر بتا دیا۔  جسٹس مندوخیل نے اس موقع پر کہا کہ ’آئین وقانون سے بتائیں بنچ بنانے کا اختیار ہمارا کیسے ہے؟‘ حامد خان نے جواباً کہا ’آئین کا آرٹیکل 175 اے دیکھیں۔‘ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے ’اس میں توپارلیمانی کمیٹی کو کمیشن میں ضم کیا گیا ہے۔‘

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے ’بار نمائندگان بھی کمیشن کا حصہ ہوتے ہیں۔ آپ بار ممبران کو ایگزیکٹو میں گنتے ہیں یا عدلیہ میں؟ اگر بار نمائندگان کو عدلیہ میں گنیں تو توازن پورا ہوجاتا ہے، مسئلہ یہ ہے ابھی تک یہی فیصلہ نہیں ہوا کس بنچ نے کیس سننا ہے۔ ہم کس اختیار سے فل کورٹ تشکیل دیں؟‘

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ’جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل پر کوئی قدغن نہیں۔ 26ویں ترمیم میں کہاں لکھا ہے جوڈیشل آرڈر نہیں ہوسکتا؟ عام مقدمات میں ایسا کیا جا رہا ہے تو اس کیس میں کیوں نہیں؟‘ جسٹس محمد علی مظہر نے بھی حامد خان سے کہا ’آپ ہمیں آئین کے متن سے بتائیں ہم فل کورٹ کا آرڈر کیسے کریں؟ کیا ہم یہ آرڈر آرٹیکل 187 استعمال کر کے دیں؟‘ حامد خان نے جواب دیا ’جی بالکل آرٹیکل 187 کے تحت عدالت اختیار استعمال کر سکتی ہے۔‘

جسٹس مندوخیل نے استفسار کیا کہ ’فرض کریں ہم آپ کی بات مانتے ہوئے تمام سپریم کورٹ ججز کو آئینی بنچ مان لیں تو آپ مطمئن ہوں گے؟‘ حامد خان نے کہا ’آئینی بنچ کا تصور آپ نے 26ویں ترمیم سے دیا ہے۔‘ اس پر جسٹس مندوخیل نے کہا کہ ’ہم نے نہیں دیا پارلیمان نے دیا ہم پر نہ ڈالیں۔‘

وکیل حامدخان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’دیکھنا ہے 26ویں آئینی ترمیم آئین کے مطابق ہے بھی یا نہیں۔ عدالت میں آدھا فل کورٹ موجود ہے، بقیہ آٹھ ججز کو بھی بینچ کا حصہ بنائیں۔ جہاں بھی آئین پر سوال اٹھا ہمیشہ فل کورٹ بنی ہے۔ ماضی میں فل کورٹ کے لیے کوئی جج دستیاب نہیں تھا تو ایڈہاک جج کو شامل کیا گیا۔‘

جسٹس مندوخیل نے نکتہ اٹھایا کہ ’ماضی میں 17 جج جو نکتہ طے کر چکے کیا چھوٹا بنچ اسے ریورس کر سکتاہے؟ کیا آپ خوش نہیں ہوں گے ماضی کا فیصلہ برقرار رہے اور اب چھوٹا بنچ ہی سماعت کرے؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس نعیم افغان نے ریمارکس دیے ’آپ نہیں سمجھتے اب صورتحال مختلف ہے؟ ماضی میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ موجود نہیں تھا۔ اس وقت چیف جسٹس اختیار استعمال کر کے فل کورٹ بناتے رہے۔ اب یہ اختیار آئین اور قانون کے مطابق کمیٹی کا ہی ہے۔‘ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ’آپ چاہتے ہیں فل کورٹ بیٹھ کر ایک ہی بار یہ معاملہ طے کرے؟ ایک ترمیم آئی جس سے عدلیہ کا مجموعی چہرہ ہی تبدیل ہو گیا۔ 26ویں آئینی ترمیم ٹھیک ہے یاغلط فی الحال عدالت نے معطل نہیں کی، آپ 26ویں آئینی ترمیم کو آئین کا حصہ سمجھتے ہیں تب ہی چیلنج کیا ہے۔‘

فل کورٹ کے حق میں حامد خان نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ میں کل فہرست بھی پیش کر دوں گا۔ ماضی میں ہمیشہ ان کیسز میں فل کورٹ بنی ہے۔‘ عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی جبکہ بنچ کی تشکیل پر دیگر وکلا سے بھی کل دلائل طلب کر لیے۔ 

26ویں آئینی ترمیم میں کیا ہوا اور اثرات کیا مرتب ہوئے

26ویں آئینی ترمیم سے چیف جسٹس پاکستان کی تعیناتی کے طریقہ کار سمیت عدلیہ میں کئی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کی گئیں، اسی ترمیم کے بعد سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ کی جگہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر موجود جسٹس یحییٰ آفریدی چیف جسٹس پاکستان بنے۔ آئینی تشریح کے مقدمات سننے کیلئے الگ آئینی بنچز کا قیام عمل میں لایا گیا، جوڈیشل کمیشن کی بھی تشکیل نو کی گئی، کئی فیصلوں میں ایگزیکٹو کا اختیار بڑھا دیا گیا۔

اس ترمیم کو منظور ہوتے ہیں وکلا، سول سوسائٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں یہ کہہ کر چیلنج کیا کہ یہ ترمیم اختیارات کی تقسیم کے اصول سے متصادم ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ 26ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کے اندر بھی ہلچل ہوئی۔ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے بطور ممبران پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ان درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کر کے چیف جسٹس پاکستان کو کئی خطوط بھی لکھے۔

اکثریتی ججز نے مگر یہ رائے دی کہ اب یہ کیس سننا آئینی بنچ کا ہی اختیار ہے۔ بعد میں آئینی کمیٹی نے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں ہی آئینی بنچ تشکیل دیا جس نے جنوری میں دو سماعتیں کیں، فریقین کو نوٹس جاری کیے مگر پھر سماعت آگے نہ بڑھ سکی۔ 26ویں آئینی ترمیم کس بنچ کو سننی چاہیے؟ یہ سوال اور بحث اب بھی باقی ہے۔ تحریک تحفظ آئین پاکستان کی جانب سے مصطفی نواز کھوکھر نے 26ویں ترمیم سے پہلے سپریم کورٹ میں موجود تمام ججز پر بنچ تشکیل دینے کی درخواست دائر کر رکھی ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان