خیبر پختونخوا کابینہ میں تاخیر کے آئینی بحران ہونے پر رائے منقسم

خیبرپختونخوا میں کابینہ کی تشکیل میں تاخیر سے کیا کوئی سیاسی یا آئینی بحران پیدا ہوا ہے یا نہیں قانونی ماہرین اس پر منقسم دکھائی دیتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمد سہیل آفریدی 16 اکتوبر 2025 کو اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے (سکرین گریب)

پاکستان میں سیاسی قوائد کے مطابق صوبے میں وزیراعلی کی حلف برداری کے بعد کابینہ کی تشکیل حکومت بننے کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ لیکن صوبے خیبر پختونخوا میں تاحال حکومت بننے کا عمل مکمل نہیں ہو سکا جس کی تاخیر بعض قانونی ماہرین کے نزدیک بظاہر آئینی بحران کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ البتہ صوبے کی حکمراں جماعت اس سے متفق نہیں۔

نومنتخب وزیر اعلی خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کی حلف برداری کو دو ہفتے کا وقت گزر چکا ہے لیکن تاحال کابینہ کی تشکیل ممکن نہیں ہو سکی۔ نئے وزیر اعلی کا اصرار ہے کہ ان کے پارٹی قائد عمران خان سے جیل میں مشاورت کے بعد ہی کابینہ کا اعلان کیا جائے گا۔ ملاقات نہ ہونے سے یہ عمل تاخیر کا شکار ہے۔

آئینی ماہرین کے مطابق کابینہ کے بغیر صوبائی حکومت عملاً غیر فعال ہے جو صوبے میں ایمرجنسی کے نفاذ کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔ 

انڈپینڈنٹ اردو نے آئینی نکات پر قانومی ماہرین سے بات کی۔ پہل سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل شاہ خاور سے کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بالکل درست ہے کہ وزیر اعلی اپنی کابینہ کے ساتھ ہی موثر ہوتا ہے جیسے وزیراعظم اپنی کابینہ کے ساتھ فیصلے کرتا ہے۔ اتنے عرصے سے کے پی نے جو کابینہ نہیں بنائی تو اس کا مطلب ہے کہ صوبے کی انتظامیہ بھی اپنا کام نہیں کر رہی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک بات آرٹیکل 234 کے تحت ایمرجنسی لگانے کی ہے تو صدر یقینی طور پر ایسا کر سکتے ہیں اور گورنر راج بھی لگ سکتا ہے۔‘

جبکہ وکیل افضل شیر مروت نے جو پی ٹی آئی سے وابستہ رہے ہیں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر یہ مدعا اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے Mustafa Impex Case (PLD 2016 SC 808) میں واضح اور غیر مبہم اصول قائم کیا کہ ریاستی و انتظامی اختیارات فردِ واحد استعمال نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ وزیرِ اعظم تک کابینہ کی منظوری کے بغیر اختیارات استعمال نہیں کر سکتا۔ یہ اصول صوبوں پر بھی مکمل طور پر لاگو ہوتا ہے۔ اس نظیر کے بعد یہ آئینی حقیقت ناقابل انکار ہے کہ اگر وزیرِ اعلیٰ اکیلے حکومتی اختیارات استعمال کر رہے ہوں تو وہ آئین سے انحراف ہو گا اور حکومتی افعال آئینی جواز سے محروم تصور ہوں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’موجودہ خیبر پختونخوا کی صورت حال میں کابینہ کی عدم تشکیل سے آئینی خلا پیدا ہو چکا ہے۔ انتظامی فیصلوں، بجٹ کے امور، محکماتی سرگرمیوں اور حکمرانی کے تمام عمل کو آئینی اختیار فراہم کرنے کے لیے کابینہ کا قیام ناگزیر ہے۔ اگر حکومتی ڈھانچہ صرف وزیرِ اعلیٰ تک محدود رہے تو یہ سوال شدت سے پیدا ہو جاتا ہے کہ کیا صوبے میں حکومت آئینی طور پر فعال ہے؟‘

بیرسٹر کامران الیاس راجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیر اعلی کے کردار کا وزیراعظم کے رول کے ساتھ موازنہ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ صوبائی معاملہ ہے، دوسری بات یہ کہ آئین میں وقت کا تعین نہیں کیا گیا کہ اتنے وقت میں کابینہ کی تشکیل لازم ہے یا اتنے وزرا ہونے چاہیے۔ اس عمل میں عمومی طور پر دو سے تین ہفتے لگ جاتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مختلف وزارتوں اور شعبوں میں کام رک سکتا ہے جس کے لیے صوبائی وزرا کا ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ طوالت اختیار کرتا ہے تو حالات گورنر راج کی طرف جا سکتے ہیں۔‘

اسمبلی تحلیل نہیں ہوئی، ایمرجنسی نہیں لگ سکتی: پی ٹی آئی

پی ٹی آئی کے وکیل خالد یوسف چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’صوبائی کابینہ کی تشکیل میں تاخیر کے ذمہ دار سہیل آفریدی نہیں بلکہ وفاقی حکومت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اگر وفاقی حکومت سہیل آفریدی کو عدالتی اجازت حاصل ہونے کے باوجود عمران خان سے مشاورت کے کیے ملاقات نہیں ہونے دے رہی تو تاخیر کی ذمہ داری بھی لے۔ صوبے کی عوام نے جس کے نام پر ووٹ دیا ہے ان کا حق ہے کہ کابینہ ان کی مشاورت سے بنے اور جہاں تک بات آرٹیکل 234 کے اطلاق کی ہے تو آرٹیکل 234 کا اطلاق ابھی اس لیے نہیں ہو سکتا کیونکہ صوبائی اسمبلی موجود ہے۔

’اسمبلی تحلیل نہیں ہوئی، اور کابینہ کی تشکیل بڑے فیصلوں کے لیے ضروری ہے جو کہ عمران خان سے ملاقات کے بعد جلد ہو جائے گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس لیے ہم نہیں سمجھتے کہ خیبر پختونخوا میں کوئی آئینی خلا یا بحران پیدا ہو رہا ہے۔‘

رواں ماہ 15 اکتوبر کو سہیل خان آفریدی نے صوبے کے 30ویں چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور گورنر فیصل کریم کنڈی نے پشاور ہائی کورٹ کے احکامات پر ان سے حلف لیا۔

سابق وزیر اعلی علی امین گنڈاپور کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کے حکم پر عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ علی امین کے استعفے کے بعد کابینہ بھی تحلیل ہو گئی جو تاحال دوبارہ تشکیل نہیں ہو سکی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست