27ویں آئینی ترمیم: وزیر اعظم کو بھی فوجداری کارروائی سے استثنیٰ دینے کی تجویز

آئین میں ترامیم کا بل سینیٹ میں پیش، قائمہ کمیٹی میں حکومتی ارکان نے وزیر اعظم کو بھی فوجداری مقدموں میں کارروائی سے استثنی کی تجویز پیش کر دی۔

حکومت نے ہفتے کی صبح وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم کا بل ایوان بالا (سینیٹ) میں پیش کر دیا۔

چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اراکین نے بل کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کیں اور تفصیلی بحث کی، جس کے بعد بل کو قانون و انصاف کی مشترکہ قائمہ کمیٹی میں بجھوا دیا گیا۔

بعد ازاں قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعظم کو بھی فوجداری مقدمات سے استثنی کی ترمیم پیش کر دی گئی۔ 

خیال رہے کہ بل میں صدر اور گورنر کے خلاف فوجداری کارروائی نہ کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔ 

ایک کمیٹی رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ ترمیم حکومتی ارکان سینیٹر انوشہ رحمان اور سینیٹر ظاہر خلیل ساندھو نے قائمہ کمیٹی میں پیش کی۔ 

تجویز میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 248 میں صدر کے ساتھ لفظ وزیر اعظم بھی شامل کیا جائے۔

اگر یہ تجویز منظور ہو جاتی ہے تو صدر مملکت کی طرح وزیر اعظم کے خلاف بھی دوران مدت فوجداری مقدمات پر کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ 

قائمہ کمیٹی کا اگلا اجلاس کل صبح 11 بجے ہو گا۔

سینیٹ میں بل پیش کرنے والے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ بل میں کل 49 شقوں میں سے 40 آئینی عدالت سے متعلق ہیں۔

سپیکر نے سینیٹ میں بحث مکمل ہونے کے بعد اجلاس اتوار کی دوپہر تین بجے تک ملتوی کر دیا۔

بل کی سب سے اہم تجویز چیف آف آرمی سٹاف کو ’چیف آف ڈیفنس فورسز‘ کا اضافی عہدہ دینے کا ہے، جبکہ ایک نئی کمانڈ پوزیشن ’کمانڈر نیشنل سٹریٹجک کمانڈ‘ بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔

بل کے مسودے، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، کے مطابق ’جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی‘ کا عہدہ رواں برس 27 نومبر سے ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

اسی طرح ’کمانڈر، نیشنل سٹریٹیجک کمانڈ‘ کا ایک نیا عہدہ بنائے جانے کی تجویز دی گئی ہے، جس کا تقرر وزیراعظم کی جانب سے چیف آف ڈیفنس فورسز یا آرمی چیف کی سفارش پر کیا جائے گا جبکہ چیف آف ڈیفنس فورسز پاکستان فوج سے ہوں گے۔ 

مسودے کے مطابق حکومت افسران کو ’فیلڈ مارشل، مارشل آف دی ایئر فورس یا ایڈمرل آف دی فلیٹ‘ کے عہدے پر ترقی دینے کا اختیار رکھتی ہے۔

یہ افسران زندگی بھر اپنے عہدے، مراعات اور وردی کو برقرار رکھیں گے اور انہیں آرٹیکل 47 کے طریقہ کار کے تحت ہی ہٹایا جا سکتا ہے، جو صدر کے مواخذے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ 

اس کے علاوہ انہیں صدر کی طرح آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل ہوتا ہے، جس کے تحت ان کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ 

27 ویں آئینی ترمیم کا دوسرا سب سے اہم موضوع سپریم کورٹ اور نئی آئینی عدالت ہے۔

بل کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور آئینی عدالت کے دیگر ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی اور اس میں سپریم کورٹ سے ازخود نوٹس کے اختیارات واپس لینے کی تجویز بھی شامل ہے۔

مسودے کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی سربراہی میں آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میں سے، جو تعیناتی کے لحاظ سے سینیئر ہوگا، اس کے پاس رہے گی۔

مزید کہا گیا کہ صدر وزیراعظم کی سفارش پر موجودہ سپریم کورٹ کے ججوں میں سے وفاقی آئینی عدالت کے پہلے چیف جسٹس کی تعیناتی کریں گے جبکہ وفاقی آئینی عدالت کا جج وہی ہو سکتا ہے جو سپریم کورٹ کا جج ہو، یا سات سال ہائی کورٹ کا جج رہا ہو یا 20 سالہ وکالت کا تجربہ رکھتا ہو یا سپریم کورٹ کا وکیل ہو۔ 

مسودے میں تجویز دی گئی ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کو اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی عدالت میں زیر التوا کیس کا ریکارڈ طلب کر سکیں گے۔ 

کابینہ سے بل کی منظوری

آج صبح وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں وفاقی کابینہ نے آئین میں 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

باکو میں موجودگی کی وجہ سے وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کی ویڈیو لنک کے ذریعے صدارت کی، جس کے حوالے سے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ پہلہ دفعہ نہیں ہوا بلکہ قواعد میں درج ہے اور بہت سارے اجلاسوں میں اراکین کو یا وزیراعظم کو یہ سہولت فراہم کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر قانون نے میڈیا کو بتایا کہ ’وفاقی کابینہ کو 27 ویں آئینی ترمیم پر بریفنگ دی گئی ہے اور وفاقی حکومت یہ ترمیمی بل آج سینیٹ میں پیش کرے گی۔‘

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ ’سینیٹ میں پیش کرنے کے بعد اس بل کو مشترکہ کمیٹی میں بھیجنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے تاکہ کمیٹی میں بل کی شقوں پر تفصیلی گفتگو ہو سکے۔‘

مجوزہ 27 ویں آئینی ترمیم میں این ایف سی ایوارڈز میں صوبائی حصے کے تحفظ کا خاتمہ، آرٹیکل 243 میں ترمیم، آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اور ججوں کے تبادلے، تعلیم اور آبادی کی منصوبہ بندی کے اختیارات کی وفاق کو واپسی کے اختیارات سمیت دیگر چیزیں شامل ہیں۔

اس سلسلے میں حالیہ دنوں میں وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، مسلم لیگ ق، بلوچستان نیشنل پارٹی اور استحکام پاکستان پارٹی سمیت تمام اتحادی جماعتوں سے مشاورت کر کے ترمیم کی حمایت مانگی تھی۔

وزیر قانون نے بتایا کہ وزیراعظم نے بل کی تیاری کے دوران تمام اتحادی جماعتوں سے مشاورت کی ہے۔ ان کے مطابق: ’چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔‘

اعظم نذیر تارڑ نے مزید کہا کہ ’اب ایک الگ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز بل کی صورت میں پارلیمان کے سپرد کی جائے گی۔‘

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ’ججوں کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو دینے کی تجویز ہے، جبکہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی ججوں کے تبادلے کے عمل کا حصہ ہوں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان