وزیراعظم شہباز شریف نے ہفتے کو بلوچستان کی خوشحالی کو پاکستان کی ترقی سے جوڑتے ہوئے کہا ہے کہ صوبوں کے درمیان اتفاق رائے پاکستان کی وحدت اور یکجہتی کے لیے ضروری ہے۔
اسلام آباد میں بلوچستان ورکشاپ سے خطاب میں وزیراعظم کا کہنا تھا: ’بلوچستان کے عوام ہمارے بھائی ہیں اور پاکستان ایک خاندان کی طرح ہے۔ پاکستان کی ترقی بلوچستان کی خوشحالی کے ساتھ براہ راست جڑی ہوئی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو مضبوط اور خوشحال ملک بنانے کے لیے ہمیں محبت، بھائی چارے اور اتحاد کے ساتھ جینا ہوگا۔ گذشتہ سات دہائیوں میں بلوچستان کو نظرانداز کرنا خود احتسابی کا لمحہ ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق ویراعظم شہباز شریف نے زور دیا کہ مختلف صوبوں میں رہنے والے معاشرے کے تمام طبقات کے درمیان محبت، اتحاد اور بھائی چارہ فروغ دیا جائے اور قربانیوں اور محنت کے ساتھ تمام چیلنجز پر قابو پایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسائل موجود ہیں اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اختلافات اور فاصلوں کو دور کریں اور محبت، اتحاد اور قربانیوں کے ساتھ امن و ترقی کے راستے پر ایک ساتھ چلیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان اپنی تاریخ، ثقافت رکھتا ہے اور بےپناہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، جن کی مالیت کروڑوں ڈالرز ہے۔ یہ عظیم قومی دولت اب بھی سنگلاخ پہاڑوں کے نیچے مدفون ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے قیام کے وقت بلوچ رہنماؤں اور سرداروں نے کوئٹہ میں اجتماع کیا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کیا۔ ’بلوچ عوام نے ہمیشہ اپنی اقدار اور ثقافت پر فخر کیا۔ انہوں نے تارکین وطن، جن میں پنجابی تارکین اور دیگر قبیلے شامل ہیں، کو مہمان نوازی کرتے ہوئے اپنایا۔‘
وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان میں مختلف طبقات طویل عرصے سے مکمل ہم آہنگی اور امن کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ قدرت نے اس صوبے کو منفرد انداز میں بنایا ہے۔ یہاں آبادی کم اور بکھری ہوئی ہے، جہاں سڑکوں کا بنیادی ڈھانچہ ایک بڑا چیلنج ہے اور مناسب سڑک کے نیٹ ورک کے بغیر آمدورفت مشکل ہے۔
وزیراعظم نے بتایا کہ کراچی سے چمن جانے والی سڑک کو مقامی طور پر ’خونی سڑک‘ کہا جاتا ہے کیوں کہ وہاں ٹریفک حادثات اور اموات کی شرح زیادہ ہے۔ اس خونی سڑک کو امن کے راستے میں تبدیل کرنے کے تخمینے کے مطابق 350 ارب روپے درکار ہوں گے۔
بقول وزیراعظم پیٹرول کی قیمتوں کا ہر 15 روز بعد اعلان کیا جاتا ہے، ایک موقعے پر جب یہ قیمتیں کم ہوئیں تو انہوں نے اس رقم میں سے سالانہ 180 ارب روپے تک اس سڑک کی تعمیر کے لیے مختص کرنے کا فیصلہ کیا۔
وزیراعظم نے کہا کہ جب انہوں نے یہ فیصلہ کیا تو ان کے ذہن میں صرف ایک مقصد تھا: ’صوبائی ہم آہنگی، محبت، اتحاد، ترقی کو فروغ دینا۔ پشاور سے کراچی تک کسی نے ان کے فیصلے کی مخالفت نہیں کی۔‘
انہوں نے کہا کہ مسائل کی جڑیں تاریخ میں ہیں اور انہیں حل کرنے کے لیے ’بلوچستان کے عوام قومی معاشی سمت اور ترقی کے فعال شریک اور حقیقی فائدہ اٹھانے والے بنیں۔‘
انہون نے مزید کہا کہ ان چیلنجز پر بات چیت اور انہیں حل کرنا ضروری ہے، کیوں کہ یہ نہ صرف پاکستان کے لوگوں کی بلکہ اس صوبے میں رہنے والے لوگوں کی بھی بھلائی کا سبب ہوں گے۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل درکار ہیں۔‘
انہوں نے یاد دلایا کہ 2010 میں، جب سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور صدر آصف علی زرداری کی حکومت کے تحت نئے این ایف سی ایوارڈ پر بات چیت ہو رہی تھی، تو انہوں نے دوسرے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ تین دن تک مشاورت کی تھی۔ اس ملاقات میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ پنجاب اس وقت کے وزیراعلیٰ بلوچستان کے مطالبے کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اپنے خطاب کے آخر میں وزیر اعظم نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی کو 2018 میں ختم کر دیا گیا تھا، مگر یہ ایک بار پھر سر اٹھا چکی ہے، جس کا جواب درکار ہے۔