پاکستان نے جمعے کو واضع کیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد سکیورٹی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد ہی باہمی تجارت بحال کی جائے گی۔
رواں مہینے دونوں ممالک کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں اموات کے بعد سرحدی گزرگاہیں تقریباً دو ہفتے سے بند ہیں۔
سرحدی بندشوں کے باعث دونوں ممالک میں بنیادی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
تازہ پھل، سبزیاں، معدنیات، ادویات، گندم، چاول، چینی، گوشت اور ڈیری مصنوعات دونوں ممالک کے درمیان 2.3 ارب ڈالر سالانہ تجارتی حجم کا بڑا حصہ ہیں۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقے میں واقع مرکزی طورخم سرحدی گزرگاہ پر موجود ایک پاکستانی اہلکار کے مطابق اس وقت تقریباً پانچ ہزار کنٹینر دونوں جانب پھنسے ہوئے ہیں۔
آج اسلام آباد میں ترجمان دفتر خارجہ ناصر اندرابی نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ موجودہ سکیورٹی خدشات کے باعث افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معطل ہے۔
انہوں نے کہا ’موجودہ سکیورٹی صورت حال کا جائزہ لیے جانے تک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ شروع نہیں ہو سکے گی۔‘
دونوں ملکوں میں سرحدی جھڑپیں اس وقت اکتوبر میں ہوئیں جب اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ ان عسکریت پسندوں پر قابو پائے جو افغانستان سے پاکستان پر حملے کرتے ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ جنگجو افغانستان میں موجود ٹھکانوں سے کارروائیاں کرتے ہیں، تاہم افغان طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
اندرابی کے مطابق ’جب سرحدی تجارتی مقامات پر حملے ہوتے ہیں اور پاکستانی شہری مارے جاتے ہیں تو ان کی جان کسی بھی تجارتی مفاد سے زیادہ اہم ہے۔‘
گذشتہ ہفتے قطر اور ترکی کی میزبانی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں میں جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، جو فی الحال برقرار ہے، تاہم سرحدی تجارت تاحال معطل ہے۔
مذاکرات کا اگلا دور 25 اکتوبر کو استنبول میں متوقع ہے۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کے سوال ’کیا (مذاکرات کے) پہلے دور کے مقاصد مکمل طور پر حاصل ہوئے؟‘ کے جواب میں کہا ’دوحہ مذاکرات کے نتیجے میں ایک جنگ بندی طے پائی تھی جو تاحال بڑی حد تک برقرار ہے، اور یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
’پاکستان استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں بھی اسی نیک نیتی اور سنجیدگی کے ساتھ شریک ہے جس کے ساتھ اس نے دوحہ میں شرکت کی تھی۔‘
ناصر اندرابی کے مطابق ’دوحہ (مذاکرات) کے بعد کسی بڑے دہشت گرد حملے کی اطلاع نہیں ملی جو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کیا گیا ہو۔
’اگر دوحہ سے پہلے اور بعد کے عرصے کا جائزہ لیا جائے تو یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ جنگ بندی بڑی حد تک برقرار رہی۔‘
ترجمان دفتر خارجہ نے استنبول میں پاکستان کی نمائندگی کرنے والے وفد سے متعلق ایک سوال پر کہا ’انہیں وفد کی حتمی تفصیلات کے بارے میں معلومات نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان طالبان حکومت پاکستان سے بات چیت کو ’مذاکرات‘ نہیں “انڈرسٹینڈنگ” کہہ رہے ہیں۔
اس حوالے سے ترجمان نے کہا ’افغان فریق کی جانب سے معاہدے یا صلح نامے جیسے القابات پر زیادہ بحث ضروری نہیں، اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ ایک جامع اور بامعنی دستاویز پر اتفاق ہوا ہے۔‘
گذشتہ روز افغانستان میں اطلاعات کے نائب وزیر مہاجر فراہی نے ایکس پر لکھا تھا کہ طالبان کے سپریم لیڈر ہبت اللہ آخوند زادہ نے بغیر کسی تاخیر کے دریائے کنڑ پر ڈیموں کی تعمیر شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس حوالے سے اندرابی نے کہا کہ یہ ایک نیا معاملہ ہے اور حکومت تفصیلات کا جائزہ لے رہی ہے۔
انہوں نے کہا ’بین الاقوامی قانون کے مطابق سرحد پار بہنے والے دریا نچلے کنارے والے ملک کے مخصوص قوانین کے تابع ہوتے ہیں اور پاکستان یقینی بنائے گا کہ بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات بھی قائم رہیں۔‘
غزہ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ’اب وقت ہے کہ فائر بندی کو ایک طویل المدتی امن عمل میں بدلا جائے جس کا نتیجہ فلسطینی ریاست کے قیام اور القدس الشریف کو اس کا دارالحکومت بنانے کی صورت میں نکلے۔‘
انڈیا اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی سفارتی سرگرمیوں پر بات کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ’دونوں خودمختار ممالک ہیں اور اس بارے میں پاکستان کوئی تبصرہ نہیں کرے گا۔
تاہم انہوں نے یہ ضرور یاد دلایا کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف کسی بھی دہشت گرد سرگرمی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔