پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد ’تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ (ٹی ٹی اے پی) نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاجی مہم کا اعلان کیا ہے۔
یہ اعلان ہفتے کو حکومت کی جانب سے پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) میں ترمیمی بل پیش کیے جانے کے چند گھنٹے بعد کیا گیا۔
بل کے اہم نکات میں ایک نئے آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹیو مجسٹریٹس کی بحالی، ججوں و عسکری قیادت کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلیاں شامل ہیں۔
حکومت نے یہ بل پیش کرنے سے قبل اپنی اتحادی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور پاکستان مسلم لیگ (ق) سے مشاورت کی تاکہ آئینی ترمیم کے لیے درکار دو تہائی اکثریت حاصل کی جا سکے۔
کابینہ سے منظوری کے بعد یہ بل سینیٹ میں پیش کیا گیا۔ اپوزیشن اتحاد کے سینیئر رہنما محمود خان اچکزئی نے حکومت پر ’آئین کی بنیادیں ہلانے‘ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے پارلیمان میں بل پیش کیے جانے کے بعد احتجاجی تحریک چلانے کے سوا ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔
انہوں نے ایک پوسٹ میں کہا ’آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے۔ ہماری اپنی پارلیمان آئین پر حملہ کر رہی ہے، لہٰذا ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں کہ ہم عوام کے پاس جائیں۔‘
بل میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ ججوں کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کو دیا جائے، قومی ہیروز کو دیے گئے اعزازی القابات ان کی زندگی بھر ان کے ساتھ رہیں اور صوبائی کابینہ کے لیے 11 فیصد کی حد کو چھوٹے صوبوں مثلاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے لیے 13 فیصد تک بڑھایا جائے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کہا کہ یہ ترمیم ملک میں جمہوریت، عدلیہ کی خودمختاری اور سویلین بالادستی کے لیے نقصان دہ ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے ایک بیان میں کہا ’نئے آئینی مسودے میں عوامی مفاد کی کوئی ترمیم شامل نہیں بلکہ یہ مکمل طور پر شخصی اور خود غرضی پر مبنی ہے، جس کا مقصد طاقت کا ارتکاز اور اشرافیہ کو مزید بااختیار بنانا ہے۔
’پاکستان کو من مانی توسیع اور ریٹائرمنٹ عمر بڑھانے کے کلچر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب وفاقی وزیرِ مملکت برائے قانون عقیل ملک نے کہا کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری پارلیمان کی بالادستی کو مضبوط کرنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
انہوں نے کہا ’یہ ترمیم نہ صرف جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کی علامت ہے بلکہ آئینی عدالت کے قیام کے طویل عرصے سے زیر انتظار خواب کی تکمیل بھی ہے۔‘
ان کے بقول ’یہ پیش رفت ملک میں آئینی توازن، شفاف احتساب، اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی ایک مثبت اور تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔‘
پاکستان میں آئینی ترامیم ماضی میں اکثر مقننہ، عدلیہ اور صوبوں کے درمیان طاقت کے توازن کو ازسرنو تشکیل دینے کے لیے استعمال ہوتی رہی ہیں۔
مجوزہ 27 ویں ترمیم، اکتوبر 2024 میں منظور ہونے والی 26 ویں ترمیم کے بعد پیش کی گئی ہے، جس کے تحت پارلیمان کو چیف جسٹس کی تقرری میں کردار دیا گیا تھا اور آئینی مقدمات سننے کے لیے سینیئر ججوں کا ایک نیا پینل تشکیل دیا گیا تھا۔
ناقدین کے مطابق اس سے عدلیہ کی خودمختاری متاثر ہوئی تھی۔
1973 میں منظور ہونے والے پاکستان کے آئین میں اب تک دو درجن سے زائد مرتبہ ترمیم ہو چکی ہیں۔
ان ترامیم میں اکثر سویلین حکومتوں اور فوجی قیادت کے درمیان طاقت کے توازن میں تبدیلی کی جھلک نظر آتی ہے۔