ٹی ایل پی مارچ: پولیس کا ’غائب‘ اسلحہ ’ادھر اُدھر‘ سے ملنے لگا

کالعدم ٹی ایل پی کے مارچ کے دوران پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے دوران مظاہرین پر الزام لگا کہ انہوں نے سرکاری اسلحہ چھینا تاہم اب پولیس حکام کہتے ہیں کہ ’غائب‘ ہونے والا بھاری اسلحہ ’ادھر، ادھر سے ملنا شروع ہو گیا ہے۔‘

کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے مارچ کو روکنے کو کوششوں کے دوران کئی مقامات پر پولیس اور شرکا کے درمیان تصادم ہوا  (اے ایف پی)

پنجاب میں کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے اسلام آباد کی جانب مارچ کو روکنے کے دوران پولیس اور شرکا کے درمیان لاہور سے وزیر آباد تک کئی مقامات پر تصادم ہوا۔

پولیس نے مختلف تھانوں میں 60 کے قریب مقدمات درج کیے جن میں سے بیشتر میں مظاہرین پر پولیس کی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ، اہلکاروں پر تشدد کے ساتھ ساتھ قیمتی اسلحہ اور سامان چھیننے کا الزام لگایا گیا۔

تاہم پنجاب پولیس حکام کے مطابق 15 دن پہلے ہونے والے واقعات میں ’غائب‘ ہونے والا بھاری اسلحہ ’ادھر، ادھر سے ملنا شروع ہو گیا ہے۔‘

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید اور سی سی پی او لاہور نے پہلے ہی دعویٰ کیا تھا کہ پولیس اسلحے سے لیس نہیں اور صرف ڈنڈوں اور حفاظتی سامان کے ساتھ مارچ کو روکنے میں مصروف ہے۔

حکومتی وزرا کے یہ بیانات بھی سامنے آئے تھے کہ ’مظاہرین نے پولیس کا اسلحہ چھین کر گولیاں چلائیں جس سے پولیس اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔‘

دوسری جانب ٹی ایل پی قیادت نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کے کارکنوں پر پولیس نے فائرنگ کی جس سے کئی ’کارکن ہلاک و زخمی‘ ہوئے۔

اس تمام صورتحال میں پولیس حکام یا ٹی ایل پی قیادت کی جانب سے کوئی پوسٹ مارٹم رپورٹ یا تصاویری ثبوت تاحال سامنے نہیں آئے جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ جھڑپوں میں اسلحہ استعمال ہوا ہے۔

مقدمات میں اسلحہ چھننے کا الزام کتنا درست تھا؟

کالعدم تحریک لبیک نے دو ہفتے قبل مطالبات تسلیم نہ ہونے پر لاہور سے مارچ کا آغاز کیا تھا جس کی منزل اسلام آباد تھی۔

حکومت کی ہدایت پر پنجاب پولیس نے ایم اے او کالج چوک لاہور میں مارچ کو طاقت سے روکنے کی کوشش کی تو تصادم کے نتیجے میں شدید بھگدڑ مچ گئی۔

اس دوران آنسو گیس کی شیلنگ، لاٹھی چارج اور مظاہرین کے پتھراؤ سے کئی پولیس اہلکار اور مظاہرین ہلاک اور زخمی ہوئے۔

پولیس گاڑیوں کی مظاہرین کی جانب سے توڑ پھوڑ اور اسلحہ چھننے کے الزامات پر لاہور، شیخوپورہ، گجرانوالہ ضلع میں 60 سے زائد مقدمات درج کیے گئے۔

ان مقدمات میں ایک درجن کے قریب تنظیمی عہدے داروں اور مقامی مساجد کے امام سمیت نامعلوم افراد کو بھی نامزد کیا گیا۔

سنگین دفعات کے تحت درج مقدمات میں مظاہرین پر مجموعی طور پر 25 سے 30 جی ایس ایم رائفلز، سینکڑوں گولیاں، پولیس کی امریکی ساختہ درجنوں اینٹی رائٹ گنز، آنسو گیس کے شیلز چھننے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

ایس ایس پی آپریشنز پنجاب ساجد کیانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے 22 اکتوبر سے 26 اکتوبر تک لاہور، شیخوپورہ اور گجرانوالہ کے مختلف تھانوں میں مقدمات درج کیے جن میں مارچ کے شرکا کی جانب سے پولیس اہلکاروں اور گاڑیوں پر حملوں کے ساتھ اسلحہ چھیننے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔

’اس معاملے پر ہر ضلعے میں پولیس کے سامان کا تخمینہ لگانے والی کمیٹیوں نے تحقیقات کیں تو معلوم ہوا کہ کافی سارا قیمتی اسلحہ غائب ہے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ مرتب کی اور چھان بین شروع کر دی۔‘

ساجد کیانی کے بقول محکمہ پولیس میں اسلحہ اور گولیوں کا باقاعدہ ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور جس اہلکار یا افسر کو کوئی اسلحہ جاری کیا جاتا ہے تو اس کا اندراج بھی کیا جاتا ہے۔

’لہذا جب معاملہ کمیٹیوں کے سامنے زیر غور آیا اور متعلقہ اہلکاروں یا افسروں سے اسلحے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے رپورٹ دی کہ بھگدڑ میں بیشتر جی ایس ایم رائفلز، گولیاں وغیرہ ادھر، ادھر غائب ہوگئیں جو واپس مل گئی ہیں اور انہیں مظاہرین نے نہیں چھینا تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بڑے واقعے میں جہاں پولیس کو ہزاروں افراد کے مارچ کو روکنے کا اختیار ایک حد تک ہو تو اس طرح اسلحہ اور سامان غائب ہونا فطری ہے۔

ایس ایس پی آپریشنز پنجاب کے مطابق جن پولیس اہلکاروں سے سرکاری اسلحہ واپس نہ ملا تو اگر مرحلے میں ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی۔

 

کیا تصادم میں اسلحہ استعمال کرنے کے شواہد ملے؟

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے گذشتہ ہفتے میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ پولیس کو اسلحے کے بغیر صرف آنسو گیس کے شیل، لاٹھیاں وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی جبکہ پولیس کو اسلحہ رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔

دوسری جانب کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر( سی سی پی او) لاہور غلام محمود ڈوگر نے بھی پولیس اہلکاروں کو اسلحہ ساتھ نہ رکھنے کی ہدایت کی تھی۔

تصادم میں جتنے بھی پولیس اہلکار یا مظاہرین ہلاک ہوئے ان میں سے کسی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی گئی جس میں وجہ اموات گولی لگنا ثابت ہو، اس دوران کوئی ویڈیو یا تصویر بھی نہیں جس میں اسلحہ کا استعمال ثابت ہوتا ہے۔

ساجد کیانی کے مطابق اس معاملے کی تحقیق بھی جاری ہے کہ جن اضلاع میں پولیس کی ڈیوٹی مارچ کے ساتھ تھی انہوں نے اسلحہ ساتھ رکھنے کی ضرورت کیوں محسوس کی، اپنی مرضی سے ساتھ رکھا یا پہلے سے ان کے پاس موجود تھا، جمع نہیں کرایا گیا اور ایسے ہی جلدی میں ڈیوٹی پر جانا پڑا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب ترجمان ٹی ایل پی صدام حسین بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اسلحہ استعمال نہ ہونے کے دعوؤں کو مسترد کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمارے 15 کارکن مارے گئے جن میں سے 11 کے جسم پر گولیاں لگنے کے نشانات تھے۔‘

انہوں نے الزام لگایا کہ ’مارچ کے شرکا پر کامونکی اور سادھو کی میں سیدھے فائر کیے گئے جس سے کئی کارکن بھی زخمی ہوئے۔‘

’پوسٹ مارٹم اس لیے نہیں کرایا گیا کیونکہ ایسے ماحول میں پوسٹ مارٹم کرانا ناممکن تھا تاہم جب انکوائری ہوگی تو ہم شواہد کے ساتھ ثابت کر سکتے ہیں۔‘

اسلحہ غائب ہونے کے حوالے سے صدام حسین نے کہا کہ ’یہ بات غلط ہے کہ ہمارے کارکنان نے پولیس سے اسلحہ چھینا کیونکہ ہمارے لوگ تو جان بچانے کی کوشش کرتے رہے اور جو پولیس اہلکار قابو بھی آئے انہیں بحفاظت اسلحہ سمیت واپس کرنے کی ویڈیوز جاری کر چکے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان