فرانسیسی سفیر کی بے دخلی کا مطالبہ برقرار ہے: مفتی منیب

مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا وہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری، وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ کسی صورت بیٹھنے کو تیار نہیں تھے۔

تحریک لبیک کو سیاسی دھارے میں پرامن طریقے سے لانا کیا ممکن ہوگا (تصویر: مفتی منیب الرحمٰن ٹوئٹر پیچ)

رویت ہلال کمیٹی کے سابق چیئرمین مفتی منیب الرحمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملکی مفاد اور امن و استحکام کی خاطر حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان کردار ادا کرنے کی پیشکش قبول کی تھی۔

مفتی منیب الرحمان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات کے لیے کردار ادا کرنے کی پیشکش کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مذاکرات سے قبل حکومتی وزرا دھمکیاں دے رہے تھے کہ طاقت کا استعمال کیا جائے گا اور ان کا خاتمہ کر دیں گے۔‘

76 سالہ مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا وہ وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نورالحق قادری، وزیر داخلہ شیخ رشید اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے ساتھ کسی صورت بیٹھنے کو تیار نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ ’جنہوں نے معاملات بگاڑے، وعدوں سے انحراف کیا، ان کا کوئی اعتبار نہیں۔‘

انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں بتایا کہ ’آرمی چیف کا رویہ مثبت تھا اور وہ مسئلے کو احسن طریقے سے حل کرنا چاہتے تھے۔‘

’میں نے آرمی چیف سے کہا کہ پاکستان کی تاریخ کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ جب لال مسجد کا آپریشن ہو رہا تھا تو رات 12 بجے تک تمام لبرلز حکومت کو ملامت کر رہے تھے کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے، حکومت طاقت کیوں استعمال نہیں کر رہی، مگر جب آپریشن ہوا تو صبح یہی سب حکومت مخالف صف میں کھڑے تھے۔‘

فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کے مطالبے کے حوالے سے مفتی منیب الرحمٰن نے کہا کہ ’ہم اس مطالبے سے دستبردار نہیں ہو رہے بلکہ میڈیا اس حوالے سے ہماری باتوں کی غلط تشریح کر رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ فرانسیسی سفیر کو واپس بھیجنے کا معاہدہ حکومت کی جانب سے کیا گیا تھا جس کی پاسداری نہ کرنے کی وجہ سے ایک بار پھر تصادم ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ پارلیمان کے حوالے کر دیا ہے اور حکومت نے اس مطالبے کو تسلیم کیا ہے۔

مفتی منیب الرحمٰن اور دیگر سرکاری اہلکاروں کی مداخلت سے بالآخر گذشتہ دنوں تحریک لبیک پاکستان نے وزیر آباد کے مقام پر اپنا احتجاج موخر کرتے ہوئے مصروف ترین جی ٹی روڈ ٹریفک کے لیے کھول دی تھی۔

مذاکرات کی کامیابی کے بعد اسلام آباد میں حکومتی اور تحریک لبیک کی مذاکراتی ٹیموں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران مفتی منیب الرحمٰن نے کہا تھا کہ وہ کمیٹی کو اختیارات دینے پر وزیر اعظم عمران خان کے مشکور ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ کسی کی فتح یا شکست نہیں بلکہ یہ پاکستان، اسلام اور انسانی جانوں کی حرمت کی فتح ہے۔

مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ معاہدے کی تفصیلات مناسب وقت پر سامنے آئیں گی اور آئندہ ہفتے معاہدے کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔

معاہدے کے نتیجے میں وزیر مملکت علی محمد خان کی سربراہی میں ایک سٹیئرنگ کمیٹی بنائی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے بارے میں بیان پر مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف الزام ہے اور ٹی ایل پی پاکستان اور اس کے آئین کی وفادار جماعت ہے۔‘

فواد چوہدری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ کالعدم ٹی ایل پی کے حق میں بھارت سے ٹویٹس ہو رہی تھیں۔

مفتی منیب نے مزید کہا کہ ’کسی پاکستانی کو غدار کہنا سب سے بڑی گالی ہے اور اسی وجہ سے فواد چوہدری کو کوئی پسند نہیں کرتا۔‘

مفتی منیب الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ’حکومت میں ایک وزیر ایک بات کرتا ہے تو دوسرا وزیر دوسری بات کرتا ہے۔ اگر حکومت کی کوئی پالیسی ہے تو جسے وہ ہضم نہیں ہو رہی اس کو چپ کرا دے۔‘

تحریک انصاف کی حکومت نے مرکزی رویت ہلال کمیٹی کی گذشتہ برس دسمبر میں تشکیل نو کرتے ہوئے ایک طویل عرصے تک رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ رہنے والے مفتی منیب الرحمٰن کو ہٹا دیا تھا۔

ان کی رویت سے متعلق کئی فیصلے متنازعے رہے تھے لیکن وہ اس عہدے پر قائم رہے۔ انہیں تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات میں بھی شامل کیا گیا ہے۔

وہ اپنے بعض اعلانات کی وجہ سے بھی خبروں میں رہے۔ انہوں نے تین جولائی کو لاہور میں نیوز کانفرنس کے دوران قربانی کے جانوروں کی آن لائن خریداری کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے فتویٰ جاری کیا تھا کہ آن لائن خریدے ہوئے جانور کی قربانی نہیں ہوسکتی۔

سیاسی مبصرین کے خیال میں آئندہ عام انتخابات سے قبل مفتی منیب الرحمٰن کا ایک مضبوط سیاسی کردار میں سامنے آنا کافی معنی خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم مفتی منیب الرحمٰن نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا کوئی سیاسی مشن نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں کہ تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور کالعدم تحریک لبیک (ٹی ایل پی) کے درمیان سیاسی اتحاد کی باتیں چل رہی ہیں تو اس پر جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ الیکشن الائنس کی باتیں کرنے والے اور ٹی ایل پی جانیں، یہ میرے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے، میرے ایجنڈے کا حصہ امن، سلامتی ہے۔‘

فل الحال مفتی منیب کے لیے بڑا چیلنج فریقین کے درمیان معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے۔ اس سلسلے میں انہیں کافی سیاسی و قانونی پیچیدگیوں کا سامنا رہنے کا بھی امکان ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست