پاکستان میں چار سال میں 14 لاکھ بے روزگاروں کا اضافہ: ادارہ شماریات

پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کے جاری کردہ لیبر فورس سروے میں انکشاف کیا گیا کہ گذشتہ مالی سال میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 21 سال کی بلند ترین سطح 7.1 فیصد تک پہنچ گئی۔

23 اگست 2023 کو کراچی کی ایک سڑک پر پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کے دوران ایک شخص نے ’بے روزگاری کو بڑھنے سے روکنے کے لیے‘ ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا ہے (آصف حسن/ اے ایف پی)

پاکستان کے ادارہ برائے شماریات نے بدھ کو کہا ہے کہ گذشتہ چار سالوں کے دوران ملک میں بے روزگاروں کی تعداد میں 14 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا ہے، جسے وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی نے ’آئی ایم ایف پروگرام اور قدرتی آفات کا نتیجہ‘ کہا جبکہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے عالمی مالیاتی ادارے کو اس سے بری الذمہ قرار دے دیا۔

پاکستان کے محکمہ شماریات کی جانب سے جاری کردہ لیبر فورس سروے میں انکشاف کیا گیا کہ گذشتہ مالی سال میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح بڑھ کر 21 سال کی بلند ترین سطح 7.1 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ 

اس رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بے روزگاری صوبہ خیبر پختونخوا میں ریکارڈ کی گئی جبکہ پنجاب کا دوسرا نمبر رہا۔ بے روزگاروں کی سب سے کم تعداد سندھ میں پائی گئی۔ 

بے روزگاری میں اضافہ تمام عمر کے لوگوں اور دونوں جنسوں میں دیکھا گیا، جو لیبر مارکیٹ کی مجموعی خراب صورت حال کی نشاندہی کرتا ہے۔

پاکستان نے گذشتہ برس آئی ایم ایف کے ساتھ سات ارب ڈالر کے تین سالہ پروگرام پر دستخط کیے تھے، جس میں تقریباً 50 شرائط پر عمل کرنا شامل تھا۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں لیبر فورس سروے کروانا اور اسے شائع کرنا بھی شامل تھا۔ 

ماضی کی حکومتیں یا تو ایسے سروے کرواتی ہی نہیں تھیں یا مطالعہ ہونے کی صورت میں نتائج کو عوام سے دور رکھا جاتا تھا۔

معاشی بہتری کے باوجود بے روزگاری میں اضافہ کیوں؟  

انڈپینڈنٹ اردو نے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے متعلقہ حکومتی عہدے داروں سے رابطہ کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ملاقات میں انہیں بتایا گیا کہ ایک خبر کے لیے ان کا موقف چاہیے تو وہ جواب دینے کے لیے تیار تو ہوئے لیکن سوال سننے کے بعد جواب دیے بغیر روانہ ہو گئے۔ 

دوسری جانب وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے محصولات ہارون اختر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حکومت کا اقتصادی بحالی کا دعویٰ تقریبا ڈیڑھ سال پہلے کی بنیاد پر ہے۔‘

ہارون اختر نے وضاحت دیتے ہوئے کہا: ’اس وقت پالیسی ریٹ 22 فیصد تھا، جو اب 11 فیصد ہے۔ اس دوران ہماری کریڈٹ ریٹنگز بہتر ہوئی ہیں جبکہ مارکیٹ پر سرمایہ کاروں کا اعتماد واپس آ رہا ہے۔ افراطِ زر اوسطاً پانچ فیصد پر آ گئی ہے، جو پہلے 30 فیصد سے زیادہ تھی۔ یہ مائیکرو اکنامک استحکام ہے۔‘

وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے بے روز گاری کی شرح میں اضافے کی وجہ ’موسمی آفات، آئی ایم ایف کے پروگرام اور عالمی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ‘ کو قرار دیا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کا سٹیبلائزیشن پروگرام، موسمیاتی تبدیلی سے آنے والی قدرتی آفات اور عالمی قیمتوں میں مسلسل تبدیلی نے اقتصادی ترقی کو محدود کیا اور ملازمتوں کی صورت حال پر اثر انداز ہوئے۔ 

تاہم وزیراعظم کے معاون خصوصی ہارون اختر آئی ایم ایف پروگرام کے بے روزگاری کی وجہ ہونے سے اتفاق نہیں کرتے۔ 

معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف کبھی بھی انفرادی پالیسیوں کی پابندی نہیں کرتا اور نہ ہی ترقی کو روکتا ہے۔ آئی ایم ایف کا کام یہ یقینی بنانا ہے کہ اس کا پیسہ واپس آئے اور حکومت کسی ایک شعبے کو فائدہ دینے والی غیر متوازن پالیسی نہ اپنائے۔ مجموعی طور پر ادارہ آمدنی کے حصول پر قریب سے نظر رکھتا ہے۔‘

حالیہ دنوں میں آئی ایم ایف شرائط کے تحت تیار اور جاری کی گئی یہ دوسری رپورٹ ہے۔ اس سے قبل گورننس اور کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ شائع کی گئی تھی۔

ہارون اختر نے حکومت کے آئندہ منصوبے سے متعلق بتایا کہ اس معاشی استحکام کو روزگار پیدا کرنے میں تبدیل کیا جائے گا۔ انہوں نے ماضی سے مثال دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہی عمل جس سے چین، انڈیا اور ویتنام گزرے اور اس وقت بنگلہ دیش گزر رہا ہے۔ 

’ہم اس عمل کو نظرانداز نہیں کر سکتے، صنعتی ترقی وہ جگہ ہے جہاں روزگار پیدا ہو گا۔‘

وزیراعظم کے معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ ’کوئی ملک تقریباً 50 فیصد اوسط ٹیکس کے بوجھ کے ساتھ ٹیکس آمدنی یا معیشت کو نہیں بڑھا سکتا۔ آئی ایم ایف اس بات کو سمجھتا ہے۔ ٹیکس کے لیے ایک مثالی سطح ہوتی ہے اور ہمارا مقصد اسے حاصل کرنا ہے۔ ہماری ٹیکس پالیسی کو بھی مثالی سطح پر مبنی ہونا چاہیے۔‘

اس رپورٹ میں کہا گیا کہ مردوں کی اوسط ماہانہ اجرت 24 ہزار 643 روپے سے بڑھ کر 39 ہزار 302 روپے ہوئی جبکہ خواتین کا اوسط ماہانہ محنتانہ 20 ہزار 117 روپے سے بڑھ کر 37 ہزار 347 روپے تک پہنچا۔

اس ضمن میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ سروے کے دوران مرد اور خواتین کارکنوں کے درمیان اجرت کا فرق تقریباً نصف ہو گیا ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق بڑی تعداد میں شرکا گھریلو اور نگہداشت کے کاموں میں مصروف تھے، جن میں تقریباً ساڑھے چار کروڑ خواتین گھریلو کاموں اور تقریباً تین کروڑ 20 لاکھ خواتین مویشیوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہیں۔ دو کروڑ خواتین نگہداشت کی ذمہ داریوں میں مصروف تھیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سات فیصد بے روزگاری کی شرح عام طور پر اہم اور تشویشناک سمجھی جاتی ہے، اگرچہ تاریخی طور پر غیر معمولی نہیں۔ ’خطرہ‘ کی سطح بہت حد تک مخصوص ملک کے معاشی سیاق و سباق پر منحصر ہوتی ہے، لیکن یہ عام طور پر ایک سست یا جدوجہد کرتی ہوئی معیشت کی نشاندہی کرتی ہے اور سماجی و اقتصادی چیلنجز پیش کرتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت