’لاندی،‘ ’مچھ‘ اور ’غنزاخے‘: وہ پہاڑی پکوان جو سردی نہیں لگنے دیتے

کیا آپ جانتے ہیں کہ سردیوں میں غنزاخے، لاندی، ڈاوڑو اور مچھ جیسی سوغاتیں کن علاقوں میں کھائی جاتی ہیں؟

سات اکتوبر 2017 کو ایک پاکستانی شیف پاکستان کے تاریخی اور ثقافتی شہر لاہور کی رنگا رنگ فوڈ سٹریٹ پر سیاحوں کے لیے بھنا گوشت تیار کر رہا ہے (اے ایف پی)

ہمارے گھر میں تو روز ہی پبی، نوشہرہ سے آئے گڑ کی چائے بنتی ہے لیکن اس سے زیادہ کیا علاقائی پکوان ہیں جو ہمارے اور احباب کے دسترخوانوں پہ موسمِ سرما میں سجتے ہیں اور شوق سے تناول کیے جاتے ہیں؟

میں تو ٹھہری کراچی سے جو ملک کا سب سے بڑا اور کاسموپولیٹن شہر ہے، اس لیے کوئی بھی موسم ہو، پاکستان بھر کے ہر علاقے کی سوغات چاہے میٹھی ہو یا نمکین، مل ہی جاتی ہے، لیکن پشاوری دسترخوان پہ سردیوں میں کیا کیا پروسا جاتا ہے؟

پشاور کی باسی روبینہ افتخار نے بتایا کہ ’پشاور کے لوگ کھانے کے شوقین ہیں، سردیوں کے آتے ہی ہر گھر میں کھانے کی رغبت بڑھ جاتی ہے۔ ہر کچن میں پلاؤ، چپلی کباب، فرائی چھلی، پائے اور سوپ بن رہے ہوتے ہیں۔ بازاروں میں بھی چپلی کباب اور مچھلی کی گرم کڑاہیوں پہ خریداروں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ میٹھے میں گاجر کا حلوہ، سوجی کا حلوہ، گلگلے نما امرسوں اور گرم جلیبیوں کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے۔‘

دوسری طرف دیہات میں بھی انڈے پراٹھے کے ناشتے کا گڑ والی چائے کے ساتھ صبح کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی گندم کے آٹے اور سوجی میں چینی اور آمیزش سے دیسی بسکٹ جیسے بند مٹھی کی وضع والے’غنزاخے‘ بھی چائے کے ساتھ یا بےوجہ ہی منہ کو ذائقہ دے جاتے ہیں۔

دوسری طرف تندور پر پکی مکئی کی کیک نما روٹیاں شوربے میں چورہ کر کے کھائی جاتی ہیں۔ رہی بات شادی بیاہ یا غمی کی تو گوشت اور خاص سواتی چاولوں کے حلیم نما موٹے چاولوں کی دیگیں ضرور چڑھتی ہیں۔

پشاور کے دسترخوان کا تذکرہ ہو اور کوئٹہ والوں کی بات نہ کی جائے تو نامناسب ہو گا، انڈپینڈنٹ اردو نے جب اس سلسلے میں کوئٹہ کی رہائشی محمودہ درانی سے رابطہ کیا تو ان کے پاس بھی ایک طویل اور جی للچانے دینے والی فہرست کچھ یوں موجود تھی۔

’سردیوں کی سوغات میں سب سے پہلے آتے ہیں بلوچستان کے ڈرائی فروٹ یا خشک میوہ جات، جن سے سردی کو سیلیبریٹ کیا جاتا ہے۔ پھر اگر خاص کھانوں کی بات کریں تو خشک گوشت سے بنتی ہے ’لاندی۔‘

بلوچستان کی سردی میں خود کو گرم رکھنے کے لیے ایک ماہ قبل ہی بکرے یا گائے کے گوشت کو ہینگ اور نمک لگا کے خشک کر لیا جاتا ہے اور پھر اسے شوربے میں پکا کے چاولوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دم پہ پکا روش بھی رات میں عموماً کھایا جاتا ہے۔

بلوچی لوگ ’کروت‘ کا شوربہ بھی بناتے ہیں جو دہی اور لسی کے پنیر نما کو پانی میں بھگو کے بنتا ہے اور کابلی پلاؤ بھی رغبت سے کھایا جاتا ہے۔

علاقائی پکوانوں میں گلگت بلتستان میں بالائی ہنزہ اور لوئر ہنزہ کی بات ہو تو اجزائے ترکیبی ایک ہی ہوں تو بھی نام علیحدہ علیحدہ رکھ کے اپنی علاقائی رنگ کو اجاگر کیا جاتا ہے۔

بالائی ہنزہ میں بھیڑ، بکری یا بیل کے گوشت سے تیار کیے گئے گوشت کو ’مچھ ‘ کہا جاتا ہے جبکہ یہی ڈش لوئر ہنزہ میں ’ڈاوڑو‘ کہلاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بالائی ہنزہ ’گوجال‘ کی رہائشی زاہدہ خان کے مطابق ’مچھ یا ڈاوڑو‘ نامی ڈش دیسی جانوروں سے تیار کی جاتی ہے۔ ان کے گوشت کو ابال کر یہ پکوان بنتے ہیں اور گھر ہی کے آٹے کے بنے نوڈل سے تناول کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ گوشت ہی سے ’شلبت‘ بھی بنایا جاتا ہے، جس میں گوشت اورآٹے کو گھول کر پکا کے شربت کی طرح تیار کیا جاتا ہے۔

ان کھانوں سے ٹھنڈ میں جسم کو مناسب حرارت ملتی ہے جبکہ میٹھے میں گیہوں کو بھگو کے پیسا جاتا ہے اور ’پین کیک‘ جیسی پتلی میٹھی روٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہ روٹیاں خوبانی کے تیل یا دیسی گھی کے ساتھ کھائی جاتی ہیں۔

کوئٹہ، پشاور اور بلتستان کی وادیوں سے نکل کر ذرا پنجاب کے سردی کے کچن میں جھانکیں تو سرسوں کا ساگ ابلتا پکتا نظر آتا ہے تو دوسری طرف پھجے کے پائے اور مکئی کی روٹی کا توا گرم ہوتا ہے۔ پنجاب کی سردی ہو اور حلوہ جات کی بات نہ کی جائے، ایسا ہو نہیں سکتا۔ حلوہ گاجر کا ہو یا سوجی کا سبھی پہ دیسی گھی، ڈرائی فروٹ اور ابلے انڈوں کی بارش نظر آتی ہے۔ میٹھا چینی یا ’گڑ‘ کا ہو، برابر ہی ڈالا جاتا ہے۔

ملتان کے کچھ ’کھاتے پیتے‘ افراد کے مطابق ’صبح اگر تلوں والے کلچوں اور نہاری سے ہو جائے تو دن بھر خوشی سی رہتی ہے اور ساتھ ہو ملائی والی گڑ کی مٹھاس سے بھری چائے۔ دن میں بھی ہلکی بھوک کے لیے ابلی یا بھنی ’چھلی‘ بھی کام بنا دیتی ہے اور شام کی تیاری میں فرائی مچھلی ہو، ساگ کی سفید مکھن والی پلیٹ اور گرم گرم مکئی کی روٹی بس جیسے زندگی مکمل ہو۔‘

پاکستان کا ثقافتی دل لاہور ہے۔ وہاں سردیوں میں کشمیری چائے اور بیف ہریسہ بھی نئے ٹرینڈز کا حصہ بن چکے ہیں۔ چائے باقر خانی تو قصہ خوانی سے پنڈی کے کشمیری محلے تک ہر چائے ہوٹل کی سردی بھر زینت بنی رہتی ہے۔ ملتان کی ریوڑی اور کراری گجک بھی شام ڈھلے لوگوں کے پیٹ میں کھانے کے بعد اپنی جگہ بنا ہی لیتے ہیں۔

لذیذ اور گرما گرم سردی کے پکوانوں کا قافلہ اب آن پہنچا ہے میرے اپنے شہر کراچی تک۔ زبیدہ آپا مرحومہ کے صاحبزادے حسین طارق کراچی کے اور سندھ کے پکوانوں کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتاتے ہیں کہ ’دسمبر کی ٹھنڈی ہوا اور دن کی دھوپ کو کراچی والے شادیوں کی رنگا رنگی کے ساتھ انجوائے کرتے ہیں، موسم کا بھی بڑا فرق پڑتا ہے۔ ایسے میں مہندی شادی کے فنکشنز میں بار بی کیو اور فرائی مچھلی، گرم بریانی اور حلوہ پوری کا اپنا لطف ہوتا ہے اور ساتھ ملتی ہے گرم کشمیری چائے یا کافی۔‘

دوسری طرف کراچی، کلفٹن پر واقع تھالی ریستوران کے مالک سریش جی نے بھی ہمیں بتایا کہ ’آج کل سردی کے مینیو میں زیادہ تر بھنے بینگن کا بھرتا، باجرے کی روٹی کے ساتھ، سرسوں کا ساگ مکئی کی روٹی، لوکی اور گاجر کا حلوہ اور باجرے کے لڈو گاہکوں میں زیادہ مقبول ہیں۔‘

کراچی کے پکوانوں کی بات چلے اور بیف نہاری شامل نہ کی جائے تو کراچی کے سردی مینیو کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ نہاری اور قورمے کے ساتھ شیرمال اور گرم نان کا اپنا رنگ ہے تو مٹن کنہ پایا خاص لال آٹے کی خمیری روٹی کے ساتھ نوش کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہو کھوئے والا حلوہ یا چینی کے سنہرے ٹکڑوں والی کرنچ پشاوری آئس کریم تو جیسے سردی میں ’بات بن جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ