’بکرا قسطوں پہ‘: وہ ڈراما جس نے انڈین فلموں کو پیچھے چھوڑ دیا

عمر شریف کا یہ ڈراما جب ویڈیو کیسٹ پر جاری ہوا، تو اسی دوران امیتابھ بچن کی فلم ’شہنشاہ‘ بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی، لیکن پاکستان میں اس فلم سے زیادہ ’بکرا قسطوں پہ‘ کی ویڈیو کیسٹ کو پذیرائی ملی۔

عمر شریف 09 جون 2019 کو کراچی میں سٹیج ڈرامے ’واہ واہ عمر شریف‘ میں پرفارم کر رہے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو/ رمیشہ علی)

عیدِ قرباں کا موقع ہو، گلی محلوں میں سجے سجائے مویشی ہوں، بکرے خوشبوؤں سے مہکتے چارے کھاتے نظر آئیں تو ذہن کے گوشوں میں اچانک ایک مسکراہٹ ابھرتی ہے۔ وجہ؟ عمر شریف کا ’بکرا قسطوں پہ‘، وہ شاہکار جس کا نام ہی سب کو متاثر کر جاتا ہے۔

ایک ایسا غیر معمولی سٹیج ڈراما جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا، جس کو آج بھی آپ دیکھیں تو ہر مکالمے پر کھل کر کھلکھلائے بغیر نہیں رہ سکتے۔

یہ 80 کی دہائی کے آخری برس تھے، جب پاکستانی، وی سی آر اور انڈین فلموں کے دیوانے تھے۔ انڈین اداکاروں کی فلمیں اور ان کے گانے وی ایچ ایس پر الگ الگ دستیاب ہوتے۔ کوئی ایسا گھر نہیں تھا جہاں ان انڈین فلموں کا نظارہ نہ کیا جاتا ہو۔

یہ وہی وقت تھا، جب کامیڈین عمر شریف پہلے آڈیو کیسٹ کے ذریعے لوٹ پوٹ کرتے لطیفے اور خاکے پیش کرتے ہوئے اپنی جگہ دھیرے دھیرے بنا رہے تھے۔ پھر کچھ ہی عرصے بعد ان کے سٹیج ڈراموں کی ویڈیو ریکارڈنگ پیش کی جانے لگی تو ہر جانب ان کی دھوم مچ گئی۔

عمر شریف نے ’یس سر عید نو سر عید‘ نامی سٹیج ڈراما ویڈیو کیسٹ پر جب جاری کیا تو اس نے مقبولیت کے سبھی ریکارڈز پاش پاش کر دیے۔

عید الفطر پر پیش کیے جانے والے اس ڈرامے کے بعد عید الاضحیٰ پر عمر شریف کا ایک اور شاہکار ڈراما ’بکرا قسطوں پہ‘ ویڈیو کیسٹ والوں کی دکانوں پر نظر آیا۔ ڈرامے کو لکھا اور پروڈیوس بھی خود عمر شریف نے کیا تھا، جبکہ ہدایت کاری سید فرقان حیدر کی تھی۔

اسی طرح سٹار کاسٹ میں عمر شریف کے علاوہ معین اختر، جمشید انصاری، نرالا، سلمیٰ ظفر، آفتاب عالم، سلومی، رؤف لالہ، اختر شیرانی، مقصود حسن، سلیم آفریدی اور ابراہیم نفیس شامل تھے۔ یعنی یہ سمجھیں کہ ایک ہیوی ویٹ سٹار کاسٹ تھی، جبکہ فلم سٹار شیبا بٹ نے بطور مہمان اداکارہ اپنی جھلک دکھائی تو یہ تھیٹر تماشائیوں کے لیے کسی ’سرپرائز‘ سے کم نہ تھا کہ ایک فلم سٹار ان کے مقابل لائیو پرفارمنس دے رہی تھی۔

اشتہار جس نے ڈراما بنایا

عمر شریف کے ٹی وی انٹرویو کے مطابق 1988 میں ڈرامے کا نام انہیں اخبار کے اشتہار کو دیکھ کر سوجھا۔ ہوا کچھ یوں کہ ان دنوں قربانی کے بکرے خاصے مہنگے ہو گئے تھے اور عوام اسی بات کا گلہ کر رہے تھے کہ قربانی کرنا ان کے لیے دشوار ہو گیا ہے۔

ایسے میں عمر شریف نے اخبار میں اشتہار دیکھا، جس میں تحریر تھا کہ بکرے قسطوں پر حاصل کریں، یعنی جو لوگ یکمشت خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے، انہیں اس اشتہار کے ذریعے بکرے قسطوں پر خریدنے کی ترغیب دی جا رہی تھی۔ بس پھر کیا تھا، اسی اشتہار نے ڈرامے کو ’بکرا قسطوں پہ‘ کا نام دیا۔ یہ وہ زمانہ بھی تھا جب عید یا تہوار کے موقعے پر کراچی کے آڈیٹوریمز میں باقاعدگی کے ساتھ سٹیج ڈرامے سجائے جاتے تھے۔

عمر شریف نے جو ڈراما عید کے لیے لکھا تھا، وہ سینسر بورڈ نے پاس نہیں کیا تھا۔ ایسے میں عمر شریف نے انتہائی برق رفتاری کے ساتھ دو دن کے اندر ایک نیا ڈراما ’بکرا قسطوں پہ‘ لکھ کر سٹیج پر پیش کیا تو اس نے ایک نئی تاریخ بنا دی۔ اس دور میں جب ہر فنکار اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد کر رہا تھا، عمر شریف نے حاضر جوابی، برجستہ مکالمات اور عام انسان کی زبان میں بات کرتے ہوئے ایک ایسی راہ نکالی، جس پر سب ان کے قافلے کے مسافر بن گئے۔

کہانی کیا تھی؟

بہت ہی سادہ سی، ہلکی پھلکی کہانی تھی کہ ایک غائب الدماغ پروفیسر ہے، جس کی یادداشت بہت کمزور ہے۔ اسی بنا پر دلچسپ ڈرامائی واقعات پیش آتے ہیں، جو اس ڈرامے کو اور زیادہ خوشگوار بنا کر رکھ دیتے ہیں۔

ساتھ ہی پروفیسر کے سائنس دان سسر لیبارٹری میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے مختلف نت نئے نسخوں کے تجربے داماد یعنی عمر شریف پر کرتے ہیں۔ سسر کے لگائے ہوئے انجیکشن کی بنا پر پروفیسر مختلف روپ دھارتا رہتا ہے۔  

اس دوران پروفیسر صاحب اپنی بیٹیوں کے رشتے کے لیے بھی فکرمند رہتے ہیں اور داماد ڈھونڈنے کی اس مہم میں ان کا واسطہ عجیب و غریب، لیکن شگفتہ چھوڑتے کرداروں سے ہوتا رہتا ہے۔ یہ سب کچھ ایسے انداز میں پیش کیا گیا کہ تماشائی نہ صرف قہقہے لگاتے بلکہ کرداروں سے جڑ جاتے۔

سٹیج ڈرامے کی شہرت کا نیا سفر

عمر شریف کا ’یس سر عید نو سر عید‘ اور ’بکرا قسطوں پہ‘ کم و بیش مختصر وقفے کے ساتھ ویڈیو کیسٹ پر جاری ہوئے تھے۔ وہ افراد، جو سٹیج ڈراموں سے دور رہتے تھے، ان کے لیے عمر شریف کی بے ساختہ اور برجستہ اداکاری تو مسکراہٹیں بکھیرنے کا پیغام لے آئی۔ ویڈیو کیسٹ پر آنے سے جہاں عمر شریف راتوں رات سپر سٹار بن گئے، وہیں کراچی کے تھیٹر ہالز کو بھی ایک نئی رونق ملی۔

عمر شریف کے ادا کیے ہوئے مزاحیہ جملے زبان زد عام ہوئے۔ وہ افراد، جنہوں نے اب تک عمر شریف کے آڈیو کیسٹ سنے تھے، ان کے لیے ’یس سر عید نو سر عید‘ اور پھر ’بکرا قسطوں پہ‘ نے ناقابل فراموش تفریح دی۔ عمر شریف اور ان کی ٹیم کا کمال دیکھنے کے لیے کراچی کے تھیٹرز کھچا کھچ بھرنے لگے اور جو وہاں جا کر سٹیج ڈراموں کا نظارہ نہ کر پاتے، وہ ویڈیو کیسٹ کے ذریعے اپنے ارمان پورے کر لیتے۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان دو ڈراموں نے جیسے سٹیج کی دنیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ساتھ ہی اب انڈین فلموں کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستانی سٹیج ڈرامے موجود تھے۔

امیتابھ بمقابلہ بکرا قسطوں پہ

عمر شریف کا جب یہ ڈراما ویڈیو کیسٹ پر جاری ہوا، تو اسی دوران امیتابھ بچن کی فلم ’شہنشاہ‘ بھی نمائش کے لیے پیش کی گئی، لیکن پاکستان میں اس فلم سے زیادہ ’بکرا قسطوں پہ‘ کی ویڈیو کیسٹ کو پذیرائی ملی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ’بکرا قسطوں پہ‘ نے بالی وڈ کے شہنشاہ کو ٹف ٹائم دیا۔

معین اختر اور عمر شریف کا موازنہ

اگرچہ ’بکرا قسطوں پہ‘ میں معین اختر مرکزی کردار میں نہیں تھے، لیکن عمر شریف اور معین اختر کے چاہنے والوں کو یہ تجسس تھا کہ ایک ہی ڈرامے میں کون کس پر بازی لے جاتا ہے۔ اسی بنا پر دونوں کے ہی پرستاروں نے اس ڈرامے میں خاص دلچسپی دکھائی۔

عمر شریف کی مزاحیہ سادگی، عوامی جملہ بازی اور پھر معین اختر کی شائستہ لیکن شوخی سے بھری اداکاری جب ایک ساتھ سٹیج پر یکجا ہوئی تو کمال ہو گیا۔

ایک ڈرامے سے دوسرے ڈرامے کا نام

عمر شریف کے ’بکرا قسطوں پہ‘ میں وقفے وقفے سے یہ عمل بھی دہرایا گیا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی اور دوسری جانب سے دریافت کیا جاتا ہے کہ ’بڈھا گھر پر ہے؟‘، جس پر عمر شریف اسے کھری کھری سناتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ سچویشن دراصل اس لیے رکھی گئی تھی کہ اگر کسی فنکار کی تیاری مکمل نہ ہو، تو اس عرصے میں اس کی انٹری سے پہلے عمر شریف تماشائیوں کو ڈرامے سے جوڑ کر رکھیں۔ یہ محض ایک وقت گزاری کا حربہ تھا، تاکہ اگلا فنکار سٹیج پر آ جائے اور عمر شریف نے پہلے سے ہی طے کر لیا تھا کہ دوسرے فنکار کی تاخیر سے آمد پر ٹیلی فون کی گھنٹی بجانی ہے اور وہ اپنے مزے دار جملوں سے ڈرامے کو آگے بڑھائیں گے، لیکن وہ ہر بار رانگ کال پر یہی بتاتے کہ معلوم کیا جا رہا ہے کہ بڈھا گھر پر ہے؟

ان کا یہ مکالمہ اس قدر مشہور ہوا کہ عمر شریف نے اسی نام سے آنے والے دنوں میں ایک ڈراما بھی سٹیج کیا، جس میں ان کے ساتھ معین اختر نے جوڑی بنائی۔ یوں ایک جملہ پورے ڈرامے کا نام بن گیا۔ اس ڈرامے میں کم و بیش وہی فنکار شامل تھے، جو ’بکرا قسطوں پہ‘ میں تھے۔ معین اختر اور عمر شریف کی کیمسٹری جس طرح ’بکرا قسطوں پہ‘ میں عروج پر رہی، اسی طرح کچھ ایسا ’بڈھا گھر پہ ہے؟‘ میں بھی دیکھنے کو ملا۔

بہرحال، عمر شریف نے اپنے اس مشہور ڈرامے ’بکرا قسطوں پہ‘ کے پانچ حصے پیش کیے۔

ان میں ابتدائی تین تو خاصے مقبول رہے، جبکہ چوتھا حصہ انہوں نے لاہور کے تھیٹر میں سٹیج کیا اور اسی طرح ’بکرا قسطوں پہ‘ کا پانچواں حصہ نجی ٹی وی چینل سے نشر ہوا۔ یہاں یہ بھی بتا دیں کہ عمر شریف کا یہ شہرہ آفاق ڈراما صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ امریکہ کے مختلف شہروں میں بھی سٹیج کیا گیا۔

امریکہ میں ’بکرا قسطوں پہ‘ نے مقبولیت اور کامیابی کی ہر سرحد پار کی۔ یہاں تک کہ اس کا ہر شو ہاؤس فل جاتا۔ اس طرح پاکستانی مزاح کو عالمی سطح پر غیر معمولی پذیرائی ملی۔

عین وقت پر سکرپٹ کی تیاری

عمر شریف کے ڈرامے ’بکرا قسطوں پہ‘ میں اہم کردار نبھانے والے کامیڈین شکیل صدیقی کہتے ہیں کہ 1992 میں عمر شریف فلم ’مسٹر 420‘ میں کام کر رہے تھے اور اسی دوران عیدِ قرباں پر ’بکرا قسطوں پہ‘ کا اگلا حصہ پیش کیا جانا تھا۔ عمر شریف نے فلمی مصروفیات کی بنا پر معذرت کر لی تھی، لیکن ساتھی فنکاروں کا اصرار ہوا تو وہ عید پر یہ ڈراما پیش کرنے پر آمادہ ہو گئے، لیکن اس دوران سکرپٹ نہیں لکھا گیا تھا۔

عمر شریف نے سب کو کہا کہ ہال میں پہنچ جانا، وہیں وہ سکرپٹ تھما دیں گے۔ سارے فنکار تھیٹر ہال پہنچے تو عمر شریف نے شو سے دو تین گھنٹے پہلے سکرپٹ لکھ کر ہر فنکار کو دیا۔ اب صورت حال یہ ہوئی کہ سکرپٹ صرف انٹروول تک کا تھا اور جب وقفہ آیا تو ایک بار پھر عمر شریف نے کاغذ فلم سنبھال کر اس کے اختتام تک کا حصہ صرف 15 منٹ میں لکھ ڈالا۔

ڈراما کئی فنکاروں کے لیے سنگ میل

سٹیج ڈراما ’بکرا قسطوں پہ‘ صرف عمر شریف کے لیے ہی کامیابی کی کنجی ثابت نہیں ہوا، بلکہ اس میں جن جن اداکاروں نے اپنے فن کا اظہار کیا، انہوں نے آنے والے دنوں میں اپنی الگ اور منفرد شناخت قائم کی۔

ان میں سب سے نمایاں شکیل صدیقی رہے، جو اس ڈرامے کے دوسرے حصے میں رؤف لالہ کی جگہ عمر شریف کے ملازم بنے اور آج تک اپنے نام کے بجائے ڈراما کردار ’تیلی‘ سے مشہور ہیں۔

نام بکرے پر، لیکن بکرا نہیں

یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ’بکرا قسطوں پہ‘ کے پانچ حصے آئے، اور بکرے کے نام پر ہونے کے باوجود کسی ایک میں بھی بکرا دکھایا تک نہیں، ہاں یہ ضرور ہوا کہ پہلے حصے میں بکرے اور گائے کا بس تذکرہ ضرور ہوا۔

بلاشبہ یہ ڈرامہ ایک عہد کی علامت ہے۔ ایک ایسا عہد جب سٹیج صرف تفریح کا ذریعہ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہاں عوامی مسائل اور پھر ان کے حل کو ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں نمایاں کیا جاتا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ