انڈیا نے پاکستان سے دونوں ملکوں کے درمیان انڈس ریور سسٹم کے چھ دریاؤں کے پانی کی تقسیم کو کنٹرول کرنے والے سندھ طاس معاہدے میں ترمیم کا مطالبہ کیا ہے۔
نئی دہلی نے اسلام آباد کو دیے گئے ایک نوٹس میں کہا کہ حالات میں ’بنیادی اور غیر متوقع‘ تبدیلیوں کے باعث معاہدے کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت پیدا ہو گئی ہے۔
انڈیا کی سرکاری نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق یہ نوٹس پاکستان کو 30 اگست کو سندھ آبی معاہدے کے آرٹیکل XII(3) کے تحت جاری کیا گیا، جس کے مطابق معاہدے کی شقوں میں وقتاً فوقتاً ترامیم ممکن ہیں۔
نیوز ایجنسی کے مطابق نوٹس پاکستانی مندوب کو سندھ طاس معاہدے کے تحت سرحد پار آبی پراجیکٹس کی نگرانی کی غرض سے دورے کے دوران دیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد میں واٹر کمشنر کے دفاتر اور وفاقی وزارت آبی وسائل میں کئی حکام سے بات کر کے پاکستان کا مؤقف جاننے کی کوشش کی لیکن انہوں نے جواب دینے سے گریز کیا۔
1960 میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی ’منصفانہ طور پر تقسیم‘ کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت پنجاب میں بہنے والے تین دریاؤں راوی، ستلج، اور بیاس پر انڈیا کا زیادہ کنٹرول ہو گا، جب کہ جموں و کشمیر سے نکلنے والے دریاؤں (چناب، سندھ اور جہلم) پر پاکستان کا کنٹرول ہو گا یعنی اسے زیادہ پانی استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حالانکہ یہ معاہدہ برقرار ہے تاہم دونوں ملکوں کی جانب سے اس معاملے پر تحفظات سامنے آتے رہے ہیں۔
جنوری 2023 میں بھی نئی دہلی نے ہائیڈل پراجیکٹس کی تعمیر پر بار بار اعتراضات اٹھاتے ہوئے معاہدے کے نفاذ میں اسلام آباد کی ’مسلسل مداخلت‘ کی وجہ سے آئی ڈبلیو ٹی کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
انڈین نیوز ایجنسی کے مطابق حالیہ نوٹس دو ہائیڈرو الیکٹرک پاور پراجیکٹس پر ایک دیرینہ تنازع کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے، جو انڈیا تعمیر کر رہا ہے۔ ان پراجیکٹس میں پہلا دریائے کشن گنگا اور دوسرا دریائے چناب پر تعمیر ہونے والے منصوبے ہیں۔
پاکستان نے ان منصوبوں پر تکنیکی اعتراضات اٹھائے ہیں اور ان کا غیر جانبدار ماہرین کے ذریعے نگرانی کا مطالبہ کیا ہے۔
اگست 2016 میں پاکستان نے 1960 میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے ثالث عالمی بینک (ورلڈ بینک) سے رجوع کیا اور معاہدے کی متعلقہ تنازعات کے ازالے کی دفعات کے تحت ثالثی عدالت کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔
ثالثی عدالت کے لیے پاکستان کی درخواست کا جواب دینے کے بجائے انڈیا نے ایک غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے لیے ایک علیحدہ درخواست دائر کر دی تھی، جو معاہدے میں فراہم کردہ تنازعات کے حل کی نچلی سطح ہے۔