ورلڈ اکنامک فورم نے رواں ہفتے ’گلوبل جینڈر گیپ رپورٹ برائے 2025‘ کا اجرا کیا ہے، جس میں دنیا کے 148 ممالک میں پاکستان آخری نمبر پر ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان خواتین کے معاشی عمل میں شرکت کے حوالے سے 147 ویں، خواتین کی صحت میں 131 ویں اور سیاسی خود مختاری میں 118 ویں نمبر پر ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان کا صنفی فرق 56.7 فیصد ہے جبکہ اس درجہ بندی میں آئس لینڈ 92.6 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔
فن لینڈ 87.9 کے ساتھ دوسرے، ناروے 86.3 کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ ہمارے خطے میں بنگلہ دیش سب سے آگے ہے، جو 24 ویں نمبر پر موجود ہے جبکہ انڈیا کا نمبر 129 اور سری لنکا کا 123 ہے۔
کیا یہ اعداد و شمار پاکستان کے نمائندہ ہیں؟
اقوامِ متحدہ کی 2024 کی رپورٹ بعنوان Status of Women in Pakistan کے مطابق پاکستان میں غربت اور سماجی روایات کی وجہ سے ہر سال ایک کروڑ 90 لاکھ بچیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔
لڑکیوں میں سکولوں میں داخلے کی شرح صرف 56 فیصد ہے۔ پاکستان کی سماجی روایات ان کے گھروں سے باہر کام کرنے میں بڑی رکاوٹ ہیں اور جو خواتین کام کرتی ہیں، ان میں سے بھی صرف 25 فیصد کو معاوضہ ملتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ہفتے وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اکنامک سروے آف پاکستان میں کہا گیا کہ خواتین کی معاشی سرگرمیوں میں شمولیت بڑھی ہے، جس کا ایک ثبوت یہ دیا گیا ہے کہ پاکستان میں خواتین کے بینک اکاؤنٹس کی تعداد دو کروڑ سے بڑھ گئی ہے۔
نیشنل کمیشن فار دی سٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن امِ لیلیٰ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاکستان میں خواتین کو صنفی امتیاز کے حوالے سے بہت مشکلات کا سامنا ہے، لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پاکستان عالمی درجہ بندی میں سب سے نچلے درجے پر ہو۔ اس حوالے سے ہم ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کا جائزہ لے رہے ہیں کہ انہوں نے کس ڈیٹا کی بنیاد پر ایسا کیا ہے۔
’مشعل پاکستان‘ جو کہ ورلڈ اکنامک فورم کا پاکستان میں شراکت دار ادارہ ہے، اس کے سی ای او عامر جہانگیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’صنفی فرق کو ختم کیے بغیر پاکستان عالمی ممالک کی برابری نہیں سکتا۔ آدھی آبادی کو ترقی کے عمل سے باہر رکھ کر آپ معاشی خوش حالی کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔ جن ممالک میں صنفی برابری ہے وہی صرف معاشی اور سماجی طور پر آگے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں خواتین کی قومی زندگی میں شمولیت کو بڑھانے کے لیے پالیسیوں کے ساتھ ساتھ ادارہ جاتی سطح پر موجودہ روایات کو بھی یکسر بدلنا ہو گا۔
خواتین ملازمتوں میں پیچھے کیوں ہیں؟
آئینِ پاکستان کی شق نمبر 25(2) اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ پاکستان میں کسی کے ساتھ بھی اس کی صنف کے حوالے سے فرق روا نہیں رکھا جائے گا جبکہ شق نمبر 26 اور 27 میں مزید ضمانت دی گئی ہے کہ عوامی مقامات اور نوکریوں میں بھی صنفی بنیادوں پر فرق روا نہیں رکھا جا سکتا۔
لیکن دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذیلی ادارے پبلک ایڈمنسٹریشن ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق وفاق کے ایک کروڑ 12 لاکھ کُل ملازمین میں سے صرف 49,508 خواتین ہیں۔ اگرچہ وفاق کے تمام خود مختار اور نیم خود مختار اداروں کے ساتھ ساتھ سول سروس میں بھی خواتین کا الگ سے 10 فیصد کوٹہ مختص ہے۔
وفاقی سیکریٹریٹ میں کُل خواتین ملازمین کی تعداد صرف 986 ہے، جن میں سے 39.66 فیصد گریڈ 17 سے 22 تک کی ملازم ہیں جبکہ باقی 60.34 فیصد گریڈ ون سے 16 میں کام کر رہی ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن ڈاکٹر فرزانہ راجہ، جو قائداعظم یونیورسٹی کے جینڈر ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ رہ چکی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ورلڈ اکنامک فورم چار شعبوں میں خواتین کی کارکردگی کو دیکھ کر درجہ بندی کرتا ہے، جن میں معیشت، تعلیم، صحت اور عوامی نمائندگی میں خواتین کا حصہ شامل ہیں۔
یہ درست ہے کہ پاکستان ان چاروں شعبوں میں کافی پیچھے ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ پاکستان کی خواتین کو آخری درجے پر رکھا جائے۔
پاکستان کے شہری علاقوں میں تعلیم کے میدان میں خواتین کی کارکردگی بہت حیران کن ہے۔ ملازمتوں میں بھی ان کا حصہ بڑھ رہا ہے لیکن دوسری جانب پاکستان کے دیہی علاقوں میں انہیں مردوں کے مقابلے میں کم تر حیثیت حاصل ہے۔
ایسا بھی نہیں کہ وہ عملی زندگی میں کام نہیں کر رہیں لیکن وہ سب سے زیادہ زرعی شعبے سے وابستہ ہیں، جس کے درست اعداد و شمار ہمارے پاس موجود نہیں، اس لیے انہیں لیبر قوانین کے مطابق معاوضہ بھی نہیں مل رہا، جس کی وجہ سے وہ اس طرح کی عالمی درجہ بندی کی رپورٹوں کا حصہ نہیں بن پاتیں لیکن تعلیم اور صحت کے میدانوں میں پاکستانی خواتین بہت زیادہ مسائل کا شکار ہیں۔
مخصوص نشستوں کے ذریعے خواتین کی نمائندگی بڑھانے کی کوشش
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق گذشتہ عام انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 2018 کے عام انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں سے تقریباً پانچ فیصد کم تھی لیکن دوسری جانب حیران کن بات یہ بھی تھی کہ خواتین کے ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد میں 23 لاکھ کا اضافہ ہوا، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ خواتین سیاسی میدان میں متحرک ہو رہی ہیں۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کے سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر ظفر اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مشرف کے دور میں جب سینیٹ، قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی مخصوص نشستوں کا کوٹہ بڑھایا گیا تو اس کے بعد خواتین کی نمائندگی میں 17 فیصد اضافہ ہوا تھا جبکہ اس وقت عالمی سطح پر عوامی نمائندگی کے اداروں میں خواتین کی نمائندگی کا تناسب 15 فیصد پر تھا۔
یہ ایک طریقہ تھا کہ خواتین کا کردار فیصلہ سازی میں بڑھایا جائے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس نمائندگی کا فائدہ سیاسی خانوادوں کی بیگمات کو ہوا اور ابھی تک عام خواتین سیاسی کارکنوں کی نمائندگی بہت کم رہی۔
فافن کی ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ پارلیمنٹ میں خواتین کی نمائندگی 17 فیصد ہے جبکہ گذشتہ پارلیمنٹ میں یہ 21 فیصد تھی۔ پاکستان کی 31 رکنی وفاقی کابینہ میں صرف ایک خاتون وزیر ہے، لیکن دوسری جانب پارلیمنٹ کے ایجنڈے میں ان کا حصہ 49 فیصد ہے، جو ان کے متحرک قانون ساز ہونے کی علامت ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق عوامی نمائندگی کے اداروں میں خوتین کا کم سے کم حصہ 30 فیصد ہونا چاہیے جبکہ اس وقت عالمی سطح پر ان کا مجموعی حصہ 27 فیصد ہے۔ روانڈا دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں پر پارلیمنٹ میں خواتین کی تعداد مردوں سے زیادہ یعنی کل تعداد کا 61.3 فیصد ہے۔