پاکستان میں جو خیراتی ادارے سالہا سال سے قربانی کا فریضہ سر انجام دے کر غربا اور مساکین میں گوشت تقسیم کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گذشتہ پانچ 10 سالوں میں جانوروں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے قربانی کی شرح میں کمی آئی ہے۔
جانوروں کی طلب و رسد میں بہت زیادہ فرق بھی جانوروں کی قیمتیں بڑھنے کی ایک وجہ قرار دی جا رہی ہے۔ اس لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور بالخصوص دیگر ملکوں کے مسلمان تارکین وطن کے لیے پاکستان میں قربانیوں کا فریضہ سرانجام دینا اب سستا آپشن نہیں رہا۔
جانور کم لیکن گوشت کھانے والے زیادہ
زرعی ترقیاتی بینک آف پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں فی کس گوشت کی کھپت جو 2000 میں 11.7 کلو تھی اس میں 2020 تک 47 کلو فی کس کا اضافہ ہو چکا تھا جو قیمتیں بڑھنے کی بڑی وجہ ہے۔
دوسری طرف گذشتہ تین سالوں میں گوشت کی برآمد میں 50 فیصد اضافہ بھی ہوا ہے پچھلے مالی سال میں گوشت کی برآمد 51.2 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔
ورلڈ پاپولیشن رپورٹ 2024 کے مطابق پاکستان کی آبادی میں اضافے کی شرح 3.6 فیصد سالانہ ہے جس کے مطابق یہ 19.4 سالوں میں دوگنی ہو جاتی ہے جبکہ گذشتہ 20 سالوں میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں لائیوسٹاک میں اضافے کی شرح 28 فیصد سے زیادہ نہیں بڑھ سکی۔
جس شرح سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس تناسب سے لا ئیوسٹاک نہیں بڑھ رہی۔ لہذا جانوروں کی قیمتیں ہر پانچ سال میں تقریباً دوگنی ہو جاتی ہیں۔
عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں سال کے ماہِ جون تک غربت کی شرح 42.4 فیصد ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان 20 ممالک میں کیا جاتا ہے جس کی آبادی افلاس جیسے مسائل سے دوچار ہے یعنی ان کودو وقت کی روٹی کا ملنا محال ہے۔
قربانی سب سے اہم معاشی سرگرمی بھی ہے
قربانی کے فریضہ کو پاکستانی معیشت کی سب سے بڑی سرگرمی سمجھا جاتا ہے جس سے شہری علاقوں سے دیہی علاقوں تک پیسوں کی منتقلی ہوتی ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ سال تقریباً 68 لاکھ جانور عید الاضحیٰ کے موقع پر قربان کیے گئے تھے جن میں 28 لاکھ گائیں اور بیل، 1لاکھ 65 ہزار بھینسیں، 33 لاکھ بکرے، تین لاکھ 85 ہزار بھیڑیں اور تقریباً ایک لاکھ اونٹ شامل تھے۔
قربانی کے جانوروں کی خرید و فرخت ان کی نقل و حمل، خوراک اور ان کی کٹائی سے ملکی معیشت میں تقریباً 800 ارب روپے کی معاشی سرگرمی ہوئی۔ جس میں سے جانوروں کی خرید و فروخت کا حصہ 671.7 ارب روپے، قصائیوں نے ان جانوروں کو ذبح کر کے 101.3 ارب روپے کمائے جبکہ جانوروں کی نقل و حمل پر 15.3 ارب روپے اور ان جانوروں کی کھالوں سے پانچ ارب روپے کی معاشی سرگرمی ہوئی۔
خیراتی اداروں کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟
پاکستان سینٹر فار فلن تھرافی کے مطابق پاکستان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ چھوٹے بڑے خیراتی ادارے کام کر رہے ہیں جن میں بڑی تعداد مسلمانوں کے زیر اہتمام چلنے والے خیراتی اداروں کی ہے جو عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانیوں کا اہتمام کرتے ہیں تاکہ ان کا گوشت غریب و مساکین تک پہنچایا جا سکے۔
الخدمت
الخدمت جماعت اسلامی سے وابستہ ایک بڑا خیراتی ادارہ ہے جس کے مینیجر میڈیا ریلیشنز شعیب ہاشمی نے انڈیپنڈنٹ ارد و کو بتایا کہ ’مجموعی طور پر تو پاکستان میں الخدمت کے زیر اہتمام قربانیوں میں اس سال تقریباً آٹھ سے10 فیصد اضافہ دیکھا جا رہا ہے تاہم اس سال قابلِ ذکر پاکستانیوں نے قربانی کے لیے غزہ کو منتخب کیا ہے اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو بیرونِ ملک سے الخدمت کو قربانی کے لیے آنے والے عطیات میں اس سال تین فیصد اور اندرون ِ ملک سے پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے جن سے الخدمت نے اس سال چھ ہزار بڑے اور چار ہزار چھوٹے جانور قربان کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
سیلانی
سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل کے چیف آپریٹنگ آفیسر محمد غزال نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہم اس بار پاکستان بھر میں 11 سو پوائنٹس پر چھ ہزار گائے اور چھ ہزار بکرے قربان کریں گے جن میں شرعی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کو مکمل طور پر مدِنظر رکھا جائے گا۔ اس سال مہنگائی کی وجہ سے اجتماعی قربانی کا رجحان بڑھا ہے۔ اگرچہ افریقہ اور انڈیا میں جانوروں کی قیمتیں کم ہیں لیکن پھر بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اوّلین ترجیح پاکستان ہی ہوتی ہے۔‘
المصطفیٰ
المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ پاکستان کی ایم ڈی نصرت سلیم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پاکستان میں اس سال تقریباً نو ہزار حصوں کی قربانی کر رہے ہیں جن میں سے تقریباً 99 فیصد حصے برطانوی مسلمانوں نے پاکستان کے لیے بھیج رکھے ہیں۔
’ہم پاکستان بھر میں 50 مقامات پر اپنے جانور قربان کریں گے اور پھر ان کا گوشت 280 سے زائد ان علاقوں تک پہنچایا جائے گا جہاں غربت کی شرح زیادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’ہر جانور میں قربانی کے سات حصے ہوتے ہیں اس سال ہمارے پاس گذشتہ سال کے مقابلے میں 22 سو حصے زیادہ ہیں لیکن دوسری جانب پاکستان میں جانوروں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہمیں 55 پاؤنڈ فی حصہ میں جو سات کے حساب سے تقریباً ایک لاکھ 45 ہزار روپے بنتے ہیں کی گائے یا بیل خریدنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر مہنگائی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو بیرون ملک سے قربانی کے سلسلے میں آنے والے عطیات میں شدید کمی ہو سکتی ہے۔‘
مسلم ہینڈز
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسلم ہینڈز جس کا ہیڈ کوارٹر برطانیہ میں ہے اس کے پاکستان کے ہیڈ آف پبلک ریلیشنز ریحان طاہر نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’گذشتہ سالوں میں ہمارے پاس برطانیہ سے پاکستان میں قربانیوں کے جو حصے موصول ہوتے تھے وہ تقریباً 14 ہزار ہوتے تھے جن سے ہم دو ہزار بڑے جانوروں کی قربانی کرتے تھے مگر اب برطانیہ سے پاکستان کے لیے جو حصے موصول ہوتے ہیں وہ 700 کی نچلی ترین سطح تک گر چکے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ برطانوی مسلمانوں نے قربانیاں کرنی چھوڑ دی ہیں بلکہ اب ان کا رجحان غزہ اور یمن کی طرف زیادہ ہے۔
’دوسری بڑی وجہ پاکستان میں جانوروں کی قیمتوں میں خاصا اضافہ ہے چند سال پہلے پاکستان میں قربانی کا ایک حصہ 35 پاؤنڈ کا ہوتا تھا جو اب 80 پاؤنڈز تک پہنچ چکا ہے۔ افریقہ میں اب بھی ایک حصہ 50 پاؤنڈ کا ہے تو جن برطانوی اور یورپی مسلمانوں نے قربانی کا مذہبی فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے ان کے لیے جب کم پیسوں میں افریقی ممالک میں قربانی کا آپشن موجود ہے تو وہ زیادہ پیسے دے کر پاکستان میں قربانی کرنے کو ترجیح کیوں دیں گے۔‘
انہوں نے بتایا کہ کچھ حکومتی قواعد بھی اس قیمت کو بڑھا رہے ہیں عالمی خیراتی اداروں کو پیپرا رولز کے تحت جانوروں کی خریداری کے ٹینڈر اخبارات میں دینے پڑتے ہیں۔
ٹینڈر میں ٹھیکیدار 20 فیصد تک اپنا منافع بھی رکھتے ہیں جس سے جانوروں کی قیمت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
عالمگیر
عالمگیر ویلفئر ٹرسٹ کے ڈائریکٹر انجینیئرنگ ریحان یاسین نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس سال ہم نے پاکستان بھر میں 550 گائے ذبح کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے جن میں سے 400 کراچی میں ذبح کی جائیں گی۔ ہمارے پاس جانوروں میں حصہ ڈالنے والے لوگ زیادہ تر ایسے ہوتے ہیں جن کے عزیز رشتہ دار بیرون ملک مقیم ہوتے ہیں۔ چونکہ پاکستان میں جانوروں کی قیمتیں ہر سال 15 فیصد کے حساب سے بڑھتی ہیں جبکہ قصائیوں کے معاوضے اور چارے کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ ہو جاتا ہے تو اس سلسلے میں ہمیں بجٹ کے اندر قربانیوں میں کئی مشکلات کا سامنا ہے اگر یہی حال رہا تو پاکستان میں قربانیاں بہت کم ہو جائیں گی۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔