برطانوی شہزادے کا سفرِ ہندوستان، شاہی خاندان کا ناکام ترین دورہ

آج سے سو سال پہلے پرنس آف ویلز نے ہندوستان کا ایک دورہ کیا جس کا مقصد اختلافات مٹانا تھا مگر وہ بری طرح ناکام ہوا۔ اس بدقسمت دورے کی روداد۔

پرنس آف ویلز 1915 میں ہندوستان کے دورے سے چھ سال قبل (پبلک ڈومین)

’انہیں دیکھنا، ان سے ملنا، ان کی جادوئی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہونا ہے۔ وہ محض ایک شہزادے نہیں۔ وہ امن کے خدمت گزار ہیں۔ وہ بدامنی اور انتشار کے خلاف دنیا کا سب سے بڑا تریاق ہیں۔‘

 ڈیوک آف ونزر مختصراً کنگ ایڈورڈ ہشتم کو ایسے خطابات سے نوازا جانا اور انتہائی دائیں بازو کے لوگوں میں ان کی پسندیدگی کو یوں بیان کرنا ان لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہے جو انہیں برسوں سے خود غرض، تلخ اور حسد کرنے والے شخص کے طور پر مانتے آئے ہیں۔

لیکن یہ اقتدار سے ان کی دست برداری سے 15 برس قبل فروری 1922 کی بات ہے اور اس وقت کے پرنس آف ویلز ایک مشہور شخصیت تھے، ممکنہ طور پر برطانیہ کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے پہلے فرد جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے۔ وہ جوان، دبلے پتلے، سنہرے بالوں اور نیلی آنکھوں والے، بظاہر مختلف اور شرمیلے انسان تھے جنہیں ہمیشہ ’دلکش‘ اور ’بے لوث‘ کہا جاتا تھا۔ کوئی انہیں کم و بیش بیسویں صدی کے اوائل کی شہزادی ڈیانا کہہ کر بیان کر سکتا ہے۔

جب برطانیہ کی بھری ہوئی پارلیمنٹ میں ایڈورڈ کو درج بالا قیمتی الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جا رہا تھا تب وہ لندن سے کئی ہزار میل دور ہندوستان کے آدھے راستے پر تھے جہاں انہیں چار ماہ کا انتہائی پُرتھکن دورہ کرنا تھا۔ وہ وہاں نہیں جانا چاہتے تھے لیکن ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی نہ تھا۔ برطانوی حکومت نے بلاشبہ محل کی رضامندی سے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ایک فوری اور مشکل نوعیت کے کام کو کرنے کے لیے وہ مناسب ترین فرد تھے۔ مختصر ترین الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کام برطانوی سلطنت کو بچانا تھا۔

برطانوی سلطنت ممکنہ طور پر پہلی جنگ عظیم میں ’فاتح‘ رہی لیکن اس کے لیے اپنی مستقبل کی شناخت کے حوالے سے فوری نوعیت کے چند سوالات کے جوابات دینا ناگریز تھا۔ نہ تو کینیڈا کی فرانسیسی آبادی اور نہ ہی آسٹریلیا میں آئرش برطانیہ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار تھے اور انڈیا میں قوم پرستی کی تحریک نے واضح کر دیا تھا کہ جنگی کوششوں میں ان کے تعاون کا بدلہ راج کو بھاری سیاسی قیمت کی صورت میں چکانا پڑے گا۔

1914 سے پہلے والے شاہی نظام میں واپس جانا ممکن ہی نہ تھا اس لیے سلطنت کو اپنی بقا اور خوشحالی کے لیے خود کو دوبارہ تازہ دم کرنا اور نئے نعرے کے ساتھ پیش کرنا ضروری تھا اور اس شاہی پروپیگنڈا مہم کے لیے بطور علامتی کردار پرنس ایڈورڈ سے بہتر بھلا کون ہو سکتا تھا۔ وزیر اعظم لائیڈ جارج نے کہا تھا ’شاید نصف درجن پرتکلف شاہی کانفرنسوں کے مقابلے میں ہردلعزیز پرنس ایڈورڈ کی موجودگی اختلاف کو مٹانے کے لیے زیادہ بہتر کردار ادا کر سکے۔‘

 1919 میں ایڈورڈ کینیڈا گئے، 1920 میں انہیں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھیجا گیا تھا، 1921-22 میں انڈیا، 1923 اور 1924 دونوں سالوں میں امریکہ اور آخر میں 1925 میں وہ جنوبی افریقہ اور ارجنٹائن گئے۔

اس سے پہلے بھی کبھی کبھار شاہی دورے ہوتے آئے تھے خاص طور پر ایڈورڈ کے اپنے دادا کا 1875 میں ہندوستان کا دورہ قابلِ ذکر ہے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے بعد ان دوروں میں نیا اضافہ تشہیر کا عنصر تھا۔ ہر جگہ ایک مامور شدہ پریس ٹیم تھی اور تقریباً ہر سٹاپ تصویر سازی کا موقع تھا۔ تخت کے وارث کو دیکھنے کے لیے امنڈنے والا ہجوم وفادار رعایا تھی لیکن وہ تخت شاہی کے جدید صارفین بھی بنتے جا رہے تھے۔

اپنے سب ’پروپیگنڈا‘ دوروں میں سے ایڈورڈ کے لیے بلاشبہ مشکل ترین دورہ ہندوستان کا ہی تھا۔ 1921 کے موسم خزاں کے اواخر میں جب انہوں نے دورہ کیا تب سیاسی درجہ حرارت غیر معمولی طور پر چڑھا ہوا تھا۔ تقریباً تین برس سے پنجاب پرتشدد ہنگاموں کی زد میں تھا اور امرتسر میں دو سال قبل قتل عام کے نتیجے میں ابھرنے والی غم و غصے کی لہر ملک کے شمال مغربی حصے میں ابھی تک چھائی ہوئی تھی۔ سینسر شپ اور سمری جسٹس کے نئے سخت ظالمانہ قوانین متعارف کروائے جا چکے تھے اور 1919 کی مونٹیگو چیلمزفورڈ اصلاحات متعارف کروانے پر عوام میں بڑے پیمانے پر سخت مایوسی پھیلی ہوئی تھی۔

برطانوی حکومت کے نقطۂ نظر سے سب سے زیادہ خطرناک چیز گاندھی کا 1921 میں تحریکِ عدم تعاون کا آغاز تھا جس کے بعد کانگریس نے ایڈورڈ کے دورے کا بائیکاٹ کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کیا تھا۔ اس وجہ سے برطانیہ میں شدید بحث چھڑ گئی کہ کیا شاہی دورہ منسوخ کر دینا چاہیے۔ کچھ دائیں بازو کے لوگ پریشان تھے کہ کیا یہ قوم پرستوں کی رائے کو مزید بھڑکانے کا کام کرے گا؟ کیا ایڈورڈ محفوظ رہیں گے؟ جبکہ بائیں بازو کی طرف موجود بھاری اکثریت کے لیے اس طرح کے دورے کا خیال ہی مضحکہ خیز تھا۔

مشہور ناول نگار ایچ جی ویلز کے لیے یہ ’دنیا کے تاریخ کا بے مثل بے وقوفانہ پروپیگنڈا‘ تھا اور ہندوستان کو پہلے سے اچھی طرح جاننے والے اور اہل برطانیہ کے برتاؤ کو ناپسند کرنے والے نوبیل انعام یافتہ ادیب ای ایم فوسٹر نے ایڈورڈ کے مجوزہ دورے کو ’بے تکا‘ قرار دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ناول نگار نے 1921 کا زیادہ تر وقت انڈیا کی چھوٹی سی وسطی ریاست دیواس میں گزارا جہاں وہ مہاراجہ کے سیکرٹری کے طور پر ملازم تھے۔ انہوں نے نومبر کے ابتدائی دنوں میں لکھا کہ ’پرنس آف ویلز کے دورے کے بارے میں: تقریباً ہر شخص اسے ناپسند کر رہا ہے اور خوف میں مبتلا ہے کہ نجانے کیا ہو گا، ان کا دورہ ناکامی سے بھی زیادہ بدتر ہو گا۔‘

ایڈورڈ کو ذاتی طور پر ہندوستان سے ایسے خطوط موصول ہو رہے تھے جس میں نہ آنے کی تاکید کی گئی تھی۔ یہ بہار کے کانگریسی رہنما کی تحریر کا ایک ٹکڑا ہے ’معزز شہزادے، اگر آپ کی شاہی عظمت ہندوستان کو واقعی کوئی فائدہ پہنچانا چاہتی ہے تو وہ یوں پہنچایا جا سکتا ہے کہ آپ یہ دورہ منسوخ کر کے یہاں کے حکام کو ہدایت جاری کریں کہ وہ اس کے لیے جمع کی گئی رقم وقف کر دیں، بھوکوں کو کھانا کھلائیں اور جن کے تن پر کپڑے نہیں ان کے لباس پر خرچ کریں۔‘

اگر یہ کرم نوازی ہو جاتی تو پرنس آف ویلز بہت زیادہ خوش ہوتے۔ وہ سفر سے تھک چکے تھے، وہ انڈیا میں انگریز مخالف جذبات کا نشانہ بننے کے بارے میں فکرمند تھے اور وہ اپنی محبوبہ مسز فریڈا ڈڈلی وارڈ سے ایک بار پھر علیحدہ کیے جانے پر ناخوش تھے۔ لیکن یہ فیصلہ انہیں نہیں کرنا تھا۔ اس سفر کے دوران ان کی دلداری کے لیے ان کے دوست، بااعتماد ساتھی اور بحریہ سے وابستہ کزن لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو ان کے ساتھ بھیجا گیا تھا، جن کی کھلم کھلا ڈائری ہی وہ بنیادی ذریعہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دورہ کس قدر خوفناک اور تکلیف دہ ثابت ہوا۔

 بمبئی کے عدم تعاون تحریک والے تیار ہو کر ایڈورڈ کے 21 نومبر کو پہنچنے کا انتظار کر رہے تھے جہاں شہر میں مہاتما گاندھی کی موجودگی بھی احتجاج کو پرتشدد ہونے سے نہیں روک سکی۔ تین دن تک ہنگامی آرائی جاری رہی جس میں دونوں طرف سے جانی نقصان ہوا۔

 برٹش انڈیا کے بہت سے مقامات میں سے بمبئی وہ پہلا مقام ثابت ہوا جہاں موسم سرما کے دوران ہونے والا باوقار شاہی دورہ تشدد اور موت کے ناگزیر نتائج کے تجربات سے گزرنے لگا۔ لیکن گیٹ آف انڈیا پر ایڈورڈ کی رسمی استقبالیہ تقریب میں وائسرائے لارڈ ریڈنگ اور زیورات سے لدی دس ہندوستانی شہزادیوں کا گروہ موجود تھا، یہ اس غیر محتاط انداز میں مرتب کیے گئے دورے کی بنیادی ستم ظریفی تھی کہ شاہی وارث کا زیادہ تر وقت ’برٹش‘ انڈیا میں سرے سے گزرا ہی نہیں۔

یہ زیادہ تر ’دوسرے‘ انڈیا میں گزرا تھا جو درجنوں چھوٹی چھوٹی آزاد ریاستوں پر مشتمل تھا، جو رقبے کے لحاظ سے برصغیر کا 40 فیصد اور آبادی کے اعتبار سے ایک تہائی بنتا ہے۔ جنگ کے دوران بھرپور تعاون پر ان کے حکمرانوں کا شکریہ ادا کرنا تھا اور انہیں برطانوی تاج کے حق میں فوری اور مکمل آزادی کے مطالبات کے سامنے فصیل بننے کے لیے تھپکی دینا تھی۔

برطانوی ہندوستان کے ایک حصے سے دوسرے میں قدم رکھنے کے لیے ریاستوں کے جھرمٹ کو ایک مخصوص ڈگر پر مرتب کیا گیا۔ وقت اور رقم بچانے کے لیے شاہی گروہ نے مستقلاً اسی مقصد کے لیے تیار کی گئی انتہائی عیش و آرام سے آراستہ ٹرین میں رات کو سفر کیا۔ ریاستیں جو کچھ فراہم کر رہی تھیں اس کی بھی ایک مخصوص ڈگر تھی، اسراف، ضیافت اور شکار۔ وہ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر یہ خدمات سر انجام دینے کی کوشش کرتی تھیں۔

بڑودہ میں چاندی کی سرکاری گاڑی اور چیتے کے شکار کا اہتمام کیا گیا تھا۔ جودھ پور میں ایڈورڈ نے سور کا سامنا کرتے ہوئے اپنا پہلا شکار مار گرایا۔ بیکانیر میں گزارے پانچ میں سے تین دن بطخ اور مرغابی کے شکار کے لیے وقف تھے۔ بھرت پور میں پرنس چاندی کی ایسی گاڑی میں سوار ہوئے جس میں آٹھ ہاتھی استعمال کیے گئے تھے جبکہ لوئس ماؤنٹ بیٹن کو مہاراجہ کی درجن بھر رولز رائس گاڑیوں میں سے ایک پر بیٹھا کر شکار کے لیے لے جایا گیا۔ نیپال میں محفوظ کیے گئے جنگلی جانوروں والے علاقے تک نجی رسائی دینے کے لیے ایک خصوصی سڑک نکالی گئی، پرنس کے ایک ہفتے کا قیام چودہ چیتوں، سات گینڈوں، دو تیندوں اور دو ریچھوں کی جانیں لے گیا۔

 واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایڈورڈ نے شاہی ہندوستان کے دورے پر تقریباً ہر روز ہونے والی اتنی زیادہ تقاریب کو ناپسند کیا۔ ان کی تشہیر میں ان کی دو خصوصیات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا، وہ کھیل کود کے شہزادے تھے اور وہ فوجی شہزادے تھے۔ پہلی خوبی کا مطلب ہے کہ جنگلی جانوروں کو مارنے سے بڑھ کر انہیں کچھ اور پسند نہیں، دوسری کا مطلب ہے پہلی جنگ عظیم کے دوران انہوں نے فعال کردار ادا کیا تھا۔ یہ دونوں سچ نہیں تھیں۔

کھیل کود کا سوال غیر اہم تھا اگرچہ جانوروں کو مارنے میں ان کی ہچکچاہٹ بعض مواقع پر سماجی طور پہ شرمندگی کا باعث بن سکتی تھی۔ (واحد جسمانی سرگرمی جو انہیں واقعی پسند تھی وہ پولو تھی جس میں وہ فی الحقیقت ماہر تھے)۔ لیکن انہیں بہادر سپاہی کہہ کر پیش کرنا ایڈورڈ کے لیے فراڈ کے مترادف تھا۔

جنگ کا دورانیہ انہوں نے اپنے والد جارج پنجم کی منتیں کرتے ہوئے گزارا تھا کہ انہیں جنگ لڑنے کی اجازت دی جائے اور وہ اس حقیقت سے نفرت کرتے تھے کہ تخت کا وارث ہونے کا مطلب یہ تھا کہ انہیں ہر طرح کے خطرے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی جائے۔ انہیں گرینڈیئر گارڈز میں کمیشن ہوئے تھے اور یہاں تک کہ فوجی تجربہ حاصل کرنے کے لیے انہیں فرانس بھیجا گیا تھا۔ لیکن انہیں کبھی بھی محاذ جنگ کے قریب تک نہیں جانے دیا گیا تھا۔

برصغیر میں ان کا زیادہ تر وقت فلینڈرز اور میسوپوٹیمیا میں نہایت بہادری سے جنگ لڑنے والے ہندوستانیوں سے ملاقاتوں، شکریہ ادا کرنے، اعزازات سے نوازنے اور مرنے والوں کے سوگوار لواحقین سے تعزیت کرنے میں گزرا جو پرنس کو ملنے والی غیر معمولی اور اکثر و بیشتر بلا ضرورت رعایت کی مسلسل یاددہانی تھی۔

وہ محض پانچ فٹ سات انچ قد کے ایک ہلکے پھلکے، دبلے سے آدمی تھے اور ہندوستان کے دورے کی بے شمار تصاویر ہیں جن میں ایڈورڈ کو انتہائی غیر معمولی طور پر آرائشی ملٹری یونیفارم میں ملبوس، تمغوں سے مزین اور سر پہ بھاری ٹوپیاں یا ہیلمٹ پہنے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ ایسے لڑکے کی مانند لگتے ہیں جو اپنے گھر کے لباس کے لیے مخصوص کمرے میں محض یہ جاننے کے لیے گیا ہو کہ وہاں پر موجود ہر چیز اس کے لیے بہت بڑی ہے۔

وہ اپنی حیثیت کے جتنا مرضی خلاف ہوں لیکن ایڈورڈ کے نقطہ نظر کو ترقی پسند یا جمہوری کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اپنے ملک میں وہ لیبر پارٹی کے سیاست دانوں اور خواتین کے حقِ رائے دہی کے خلاف تھے جبکہ ہندوستان میں انہوں نے سلطنت کے ساتھ اپنی پرجوش وابستگی اور برطانوی راج کو ہمیشہ کے لیے برقرار رکھنے کی اپنی خواہش کو نہیں چھپایا۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ برطانوی ہندوستان میں ان کا قیام غیر آرام دہ تھا۔ 13 دسمبر کے دی ٹائمز آف انڈیا نے لکھا، ’یہ بات جاننا افسوس ناک ہے کہ الٰہ آباد شہزادے کے استقبال میں ناکام رہا۔ اس حقیقت سے آنکھ چرانے کا کوئی فائدہ نہیں کہ عدم تعاون والوں نے اپنی پہلی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ شہر کی آبادی ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے لیکن محض چند ہزار افراد ہی اکٹھے ہوئے اور ان میں سے بھی بیشتر انگریز اور اینگلو انڈین تھے۔ یونیورسٹی میں جہاں شہزادے کے لیے خطبہ استقبالیہ پیش کیا گیا وہاں بھی چند سو طالب علم موجود تھے۔

ایسے عشائیے کے بعد جو ان کے خیال میں مطلوبہ معیار کا نہیں تھا ماؤنٹ بیٹن نے گھٹیا تبصرہ کرتے ہوئے کہا ’میں معذرت خواہ ہوں کہ میں مقامی ریاستوں کو برٹش انڈیا پر ترجیح دیتا ہوں۔‘

مدراس میں شہزادے کے گروہ کا حزب اختلاف سے انتہائی قریب سے سامنا ہوا۔ ایڈورڈ کے آتے ہی فسادی مغربی باشندوں کے رہائشی مقام میں گھسنے اور گورنمنٹ ہاؤس کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ راج کے حامی اخبار پائنیئر کے ایک نامہ نگار موقعے پر موجود تھے جنہوں نے بتایا کہ کیسے آرائشی سامان ہتھیاروں میں تبدیل ہو گیا: ’ہجوم نے کجھور کے درخت اکھاڑ دیے، پھولوں کے گملے توڑ ڈالے اور ملبے کو پاس سے گزرنے والی ہر اس گاڑی پر پھینکنے لگے جس میں یورپی باشندہ سوار تھا۔ اب دوپہر کا وقت ہے اور لیسٹر رجمنٹ کے سپاہی بندوقوں سے لوگوں کو سڑکوں سے ہٹا رہے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے بکتر بند گاڑیاں سہمی ہوئی کھڑی ہیں۔‘

گورنمنٹ ہاؤس میں اپنے بیڈ روم کی کھڑی سے ماؤنٹ بیٹن ایک سینیما کو آگ لگنے کا منظر دیکھ رہے تھے کیونکہ اس کے مالک نے کسی یونین کے جھنڈے اتارنے کا خطرہ مول لیا تھا۔ ہنگامہ کرنے والوں کے ایک اور جھرمٹ نے ایک ٹرام کو الٹ دیا۔ وہ لکھتے ہیں: ’اسلحے سے لیس تین گاڑیاں تیزی سے سڑک کے کنارے آ کر رکیں جس میں کئی فسادی تھے اور اپنی مشین گنوں سے گولیاں برسانا شروع کر دیں۔‘

مقامی اخبارات نے مرنے والوں کی تعداد پانچ یا چھ بتائی جو شاید بہت زیادہ نہیں ہے لیکن دی پائنیئر کے اس نتیجے پر پہنچنے کے لیے کافی تھیں کہ ’مدراس نے ایک لحاظ سے شرمناک منظر پیش کیا۔‘

ایڈورڈ کے شہر سے جانے کے بعد حکومت مدراس کی جانب سے نئی دہلی کو ایک سرکاری رپورٹ بھیجی گئی جو اس بات سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ یہ نہایت جرات مندانہ اور حیرت انگیز طور پر سچی تھی۔ ’اگرچہ ان کی اعلیٰ شاہی مرتبت کے حضور اصل استقبال انتہائی زبردست تھا لیکن یہ حکومت اس رائے پر قائم ہے کہ یہ پورا دورہ افسوس ناک طور پر نامناسب تھا اور اس کے نتیجے میں بہت کم مستقل خیر کی توقع کی جا سکتی ہے۔‘

 تقریباً دو ماہ بعد اپنے دورے کے اختتامی مراحل میں جب ایڈورڈ اس علاقے میں پہنچے جو اب پاکستان ہے تو یہ الفاظ پورے دورے کا خلاصہ معلوم ہوئے۔ مدراس کے بعد وہ مقامی ریاستوں کی طرف واپس پلٹے جہاں برصغیر کے مرکزی علاقوں میسور، حیدرآباد، اندور، بھوپال اور گوالیار، پھر دہلی اور آخر میں پنجاب اور شمالی مغربی علاقے سرحد میں کھانا کھاتے اور شکار کرتے رہے۔

 یہ ان کے لیے کم و بیش مالیخولیائی تجربہ رہا ہو گا۔ ایک طرف وہ چاپلوسی کی حدوں کو چھوتی تعریف وصول کر رہے تھے۔ دہلی میں سرکاری ضیافت کے دوران وائسرائے ریڈنگ نے انہیں ’ایک عظیم الشان شاہی اثاثہ اور اپنے والد کی رعایا میں مقبول ترین فرد‘ قراد دیا۔

پٹیالہ کے مہاراجہ نے کہا کہ ان کی شخصیت میں ’انوکھی خصوصیات ہیں جو انہیں ایک دن مثالی بادشاہ بنائیں گی،‘ جبکہ زبردست کرکٹر اور نواں نگر کے حکمران رنجیت سنگھ نے ایڈورڈ کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں ’پیارا، سلطنت کے تمام بکھرے ہوئے ٹکڑوں کے درمیان ہمدردی اور دوستانہ جذبات استوار کرنے والا باتدبیر اور تجربہ کار سفیر‘ قرار دیا۔

 دوسری طرف برٹش انڈیا ان کے لیے تیزی سے بڑھتی ہوئی مخاصمت کی جگہ بن گیا۔ ناگپور میں ’سکول کے بچوں کا جلوس‘ سڑکوں پر مارچ کرتے ہوئے ’شاہی دورے کے بائیکاٹ کے حق میں گیت گا رہے تھے۔‘ پشاور میں پرنس کی تقریر ’گاندھی کی جے‘ کے منظم نعروں میں ڈوب گئی اور پنجاب کے شہر لاہور میں اسے سخت فوجی پہرے کی ضرورت پڑی۔ پائنیئر نے لکھا کہ سٹیشن سے گورنمنٹ ہاؤس تک کے راستے پر تین ہزار فوجی تعینات تھے جس کے ساتھ ’تین ہوائی جہاز ہجوم کی نگرانی کر رہے تھے، لیوس گنوں سے لیس مسلح فوجیوں سے بھری پانچ موٹر گاڑیاں اور تین ٹینک بھی کسی خطرناک صورت حال میں پیش قدمی کے لیے تیار کھڑے تھے۔

ان کے دورے کی ناکامی پوری طرح اس بات سے ہی واضح ہے کہ مہاتما گاندھی کو دوبارہ گرفتار کیا گیا اور ایڈورڈ کے ہندوستان چھوڑنے سے 15 روز قبل واپس جیل بھیج دیا گیا۔ انہیں فاصلے مٹانے کے لیے بھیجا گیا تھا تاکہ ہندوستان کی اشرافیہ اور عام شہریوں کو قائل کیا جا سکے کہ ہندوستان کا بہتر مستقبل صرف برطانوی سلطنت کے اندر رہتے ہوئے ہی ممکن ہے اس لیے انتہا پسندانہ مخالف یا آزادی کی بات کرنے کی ضرورت نہیں۔

درحقیقت ان کے دورے کے وہی نتائج برآمد ہوئے جو برٹش ٹوری پارٹی میں ان کے دورے کے مخالفین پہلے ہی کہہ رہے تھے، قوم پرستوں کی اپنے نظریات سے مزید پختہ وابستگی اور راج کے ساتھ عدم برداشت میں اضافہ۔ سادہ الفاظ میں انہوں نے ہندوستان میں برطانوی ہونا ایک زیادہ مشکل اور ناگوار تجربہ بنا دیا اور انہوں نے ان لوگوں کی بات میں وزن بڑھا دیا جو راج کے نرم رویوں کی مخالفت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ذاتی زندگی میں ہندوستان کے مقامی شہزادوں کی حد سے زیادہ پرتعیش زندگی کو ناپسند کرنے کے باوجود ایڈورڈ نے ان کی حیثیت کو بھی مضبوط کیا۔ انہوں نے موقع کو غنیمت جانتے ہوئے خود کو سلطنت کا بہترین ہندوستانی دوست ثابت کیا اور برصغیر میں اگلے پندرہ برسوں کے دوران سامنے آنے والے اختتامی پیچیدہ سیاسی کھیل میں اپنی جگہ محفوظ کر لی۔

ایڈورڈ بالآخر 18 مارچ کو کراچی سے روانہ ہوئے اور کچھ دنوں بعد وائسرائے ریڈنگ کو اپنے پیشرو لارڈ چیلمزفورڈ کی طرف سے ایک خط وصول ہوا۔ ’مجھے پرنس کے کامیاب دورے کے خاتمے پر آپ کو مبارکباد دینی چاہیے۔ ان کی بحفاظت روانگی نے آپ کے کندھوں سے پریشانی کا ایک بھاری بوجھ اتار دیا ہو گا۔‘

واقعی! لیکن ممکنہ طور پر یہ دورہ اس سے بہت مختلف ہو سکتا تھا۔ مارچ 1938 میں جب پٹیالہ کے بااثر مہاراجہ بھوپندر سنگھ اپنے محل میں مر رہے تھے اس وقت سیاسی طور پر ہوشیار برطانوی سفرنامہ نگار روزیٹا فوربز ایک کتاب پر تحقیق کی وجہ سے وہاں موجود تھیں، جہاں انہوں نے ہندوستانی شہزادیوں کے ایک جھرمٹ میں خود کو بھی شامل دیکھا جو بھوپندر سنگھ کی موت کے پیش نظر اکٹھا ہوا تھا۔

 طویل عشائیے کے دوران انہوں نے ہندوستان کے مستقبل پر تبادلہ خیال کیا اور جب فوربز نے ان سے گاندھی کے متعلق ان کی رائے پوچھی تو انہوں نے اسے یوں بیان کیا: ’مہاراجوں میں سے ایک نے کہا، ’آپ جانتی ہیں وہ بہت اچھے انسان ہیں۔‘ پرنس آف ویلز انہیں سمجھتے تھے۔ اپنے سرکاری دورے پر ہندوستان میں آنے سے پہلے انہوں نے وائسرائے ریڈنگ کو ایک تار بھیجا جس میں کہا گیا کہ مہاتما گاندھی کو جہاز میں ان کے ساتھ بات چیت کے لیے مدعو کیا جائے۔ وائسرائے نے ایسی غیر روایتی چیز کی مخالفت کی۔ شہزادے نے اصرار کیا کہ ان کا سرکاری طور پر ہندوستان میں قدم رکھنا سول نافرمانی کی تحریک کو بھڑکانے کا اشارہ ہو گا اس لیے اگر وہ دونوں نجی طور پر مل سکیں تو سب کچھ تسلی بخش طریقے سے ترتیب دیا جا سکتا ہے۔

’کسی نہ کسی طرح سے شہزادے کو ایسا نہ کرنے دیا گیا اور جیسا کہ آپ جانتی ہیں یہ دورہ بری طرح ناکام ہوا۔ بعد میں میری مہاتما سے اس بارے میں بات ہوئی تو میں نے پوچھا کہ اگر انہیں شہزادے کا دعوت نامہ مل جاتا تو کیا ہوتا۔

گاندھی نے کہا، ’میں نے اسے قبول کر لیتا۔‘

میں نے پوچھا، ’اور پھر؟ ’سول نافرمانی نہ کرتے؟‘

گاندھی نے جواب دیا، ’انہوں نے ہماری مہمان نوازی طلب کی ہوتی تو ہم ان کا بطور مہمان استقبال کرتے۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ