ہم بھارت میں دوسرا جناح پیدا نہیں ہونے دیں گے: بی جے پی

کیا بھارتی مسلمانوں کو ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ پارٹی کی ضرورت ہے اور کانگریس اور بی جے پی اس پارٹی سے پریشان کیوں ہیں؟ جانیے انڈپینڈنٹ اردو کی اس خصوصی رپورٹ کے دوسرے حصے میں۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی ۔

’بھارتی مسلمان گھمبیر صورتحال سے دوچار اور سخت پریشان ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ کون سا راستہ اپنائیں اور کون سا ترک کریں۔ ہمارے لیے دنیا آہستہ آہستہ تنگ کی جا رہی ہے۔ معاشی طور پر کمزور کیا جا رہا ہے۔ گائے کے نام پر کاٹا جا رہا ہے۔ لو جہاد کے نام پر ستایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں مسلمان اپنا سر چھپانے کی جگہ تلاش رہے ہیں۔‘

یہ باتیں بھارت کے جنوبی شہر حیدر آباد دکن سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار میر ایوب علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے انہی کے شہر کی سیاسی جماعت ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین یا کل ہند مجلس اتحاد المسلمین‘ کے بھارت کے دوسرے حصوں میں توسیع کے بارے میں پوچھے جانے پر کہیں۔

کئی دہائیوں تک شہر حیدرآباد تک محدود رہنے والی اے آئی ایم آئی ایم نے بھارت کی اُن ریاستوں میں انتخابات لڑنے شروع کر دیے ہیں جن میں مسلمان اچھی خاصی تعداد میں رہتے ہیں۔ کرناٹک، آندھرا پردیش، مہاراشٹر، اترپردیش اور بہار کے بعد اب یہ جماعت مغربی بنگال اور تمل ناڈو میں اگلے سال ہونے والے اسمبلی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر چکی ہے۔

پارٹی نے ریاست بہار میں حال ہی میں منعقد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانچ نشستوں پر جیت درج کی۔ اس نے 24 اسمبلی حلقوں سے اپنے امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا۔ ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس یا این ڈی اے نے ان انتخابات میں 243 میں سے 125 نشستیں حاصل کر کے حکومت تشکیل دی ہے، جس کی کابینہ میں ایک بھی مسلمان کو جگہ نہیں ملی۔

این ڈی اے کا مقابلہ کانگریس، راشٹریہ جنتا دل اور بائیں بازوں کی جماعتوں (سی پی آئی ایم، سی پی آئی اور سی پی آئی ایم ایل) پر مشتمل مہا گٹھ بندھن سے تھا، جس نے 110 نشستیں جیتیں۔ مہا گٹھ بندھن نے اے آئی ایم آئی ایم پر سیکولر ووٹروں کو تقسیم کر کے بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے کی مدد کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔

تاہم ایوب علی خان کے مطابق جب انہوں نے بہار کے انتخابی نتائج کو غور سے دیکھا تو یہ بات سامنے آئی کہ اے آئی ایم آئی ایم نے کسی سیکولر امیدوار کو نہیں ہرایا، کانگریس نے 70 اسمبلی حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے جن میں اسے صرف 19 نشستوں پر ہی کامیابی حاصل ہوئی۔

ایوب علی خان کے بقول جس طرح کی سیاست بی جے پی کر رہی ہے ایسے ماحول میں بھارتی مسلمان ایک چھتری کی تلاش میں ہیں جہاں وہ خود کو محفوظ تصور کر سکیں۔’بہار میں اے آئی ایم آئی ایم کے پانچ امیدواروں کی جیت اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان کیا چاہتے ہیں۔ اس جماعت نے پانچ سال پہلے بھی بہار میں اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن ایک نشست بھی جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ آج کی جیت بی جے پی کی مسلم مخالف پالیسی کا نتیجہ ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا ’ اگر آپ اترپردیش میں بی جے پی حکومت کی پالیسیاں دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ مسلمانوں کے لیے اب کوئی جگہ نہیں رہی۔ مسلمانوں کے پاس مزاحمت کا سب سے بڑا ہتھیار انتخابی سیاست ہے جس میں وہ حصہ لینے کے لیے آزاد ہیں۔‘

کانگریس اور بی جے پی پریشان کیوں؟

بھارت کی قومی سطح کی سیاسی جماعتیں کانگریس اور بی جے پی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے پھیلاؤ سے کافی پریشان نظر آ رہی ہیں۔ کانگریس کا اے آئی ایم آئی ایم پر الزام ہے کہ یہ جماعت مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کر کے بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہی ہے جبکہ بی جے پی کا الزام ہے کہ اسد الدین اویسی کی قیادت میں یہ جماعت نفرت کی سیاست کر رہی ہے۔

حیدرآباد میں کانگریس کے سینیئر لیڈر اور سابق وزیر محمد علی شبیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’جو جماعت پچھلی چھ دہائیوں میں شہر حیدرآباد سے پڑوسی شہر سکندرآباد نہیں جا سکی وہ اب مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنے کے لیے پورے بھارت میں گھوم رہی ہے۔

’جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے اے آئی ایم آئی ایم وہاں جا کر ووٹ بانٹنے کا کام کرتی ہے۔ ووٹروں کو تقسیم کر کے بی جے پی کی مدد کر رہی ہے۔ آج حیدرآباد میں گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے انتخابات چل رہے ہیں۔ پچھلی بار اس جماعت نے یہاں 60 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑا کیے تھے لیکن اس بار صرف 51 نشستوں پر ہی امیدوار کھڑا کیے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ حیدرآبادی عوام ان سے بدظن ہو چکے ہیں۔‘

محمد علی شبیر نے اسد الدین اویسی کی جماعت پر نریندر مودی اور امت شاہ کے آلہ کار ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا: ’ان کے ذریعے بی جے پی کی بہت مدد ہو رہی ہے۔ ووٹ کاٹنے کے لیے مودی اور شاہ کو بہت ہی اچھے آلہ کار مل گئے ہیں۔ بقول منور رانا (معروف بھارتی شاعر) اسد الدین اویسی دوسرے جناح ہیں۔ اُس جناح نے ملک کو تقسیم کیا تھا یہ جناح مسلمانوں کو تقسیم کر کے ہندوتوا کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ بی جے پی اور ان کے درمیان اگریمنٹ ہے۔ اگریمنٹ یہ ہے کہ تم ہم کو گالی دو گے ہم تم کو گالی دیں گے۔‘

انہوں نے اے آئی ایم آئی ایم پر لوگوں کے ساتھ جھوٹے وعدے کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا یہ مسلم علاقوں میں جا کر جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم یہاں میڈیکل کالج قائم کریں گے، ہسپتال کھولیں گے اور تعلیمی اداروں کا جال بچھائیں گے، ابھی تک اورنگ آباد، مہاراشٹر، گلبرگہ اور بیدر میں سے کسی ایک جگہ بھی میڈیکل کالج نہیں کھولا، یہاں حیدرآباد میں جتنے بھی میڈیکل کالج ہیں وہ ہم نے یعنیٰ کانگریس نے کھولے ہیں۔

بی جے پی کے قومی ترجمان سید شاہ نواز حسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’اے آئی ایم آئی ایم والے آگے بڑھنے والے نہیں، یہ لوگ انتخابات لڑنے کے لیے آزاد ہیں۔ ہم کانگریس کو انتخابات لڑنے سے روک نہیں رہے ہیں تو ان کو کیوں روکیں گے۔

’اس جماعت کے لیڈر جہاں بھی جاتے ہیں نفرت پھیلاتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ 15 منٹ کے لیے پولیس ہٹا دو ہم فیصلہ کریں گے، یہ اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ ہیں، یہ نفرت کی سیاست کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے انتخابات لڑنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

اس سوال پر کہ کانگریس تو کہتی ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم کے انتخابات لڑنے سے بی جے پی کا فائدہ ہو رہا ہے، شاہ نواز نے جواب دیا ’ہمارا تو راہل گاندھی کی تقریروں سے فائدہ ہوتا ہے۔ راہل گاندھی جتنی سیاست اور تقریریں کریں گے اتنا ہی ہمیں فائدہ پہنچتا ہے۔ بی جے پی کی سب سے بڑی خوش قسمت یہ ہے کہ ہمارے پاس مودی ہیں۔ کانگریس کی بدقسمتی ہے کہ اس کے پاس راہل گاندھی ہے۔ اویسی لڑیں یا اویسی جیسے 36 آ جائیں آج کے بھارت میں بی جے پی کو ہرانے کی طاقت کسی میں نہیں۔ ہم اس ملک میں کوئی دوسرا جناح پیدا نہیں ہونے دیں گے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے جب تجزیہ کار میر ایوب علی خان سے پوچھا کہ بی جے پی کو بالعموم اور کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں کو بالخصوس آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے دوسری ریاستوں میں انتخابات لڑنے سے پریشانی کیوں ہے تو کا کہنا تھا: ’وہ اویسی سے اس لیے ڈرے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے پاس وہ کرشمہ اور طاقت ہے کہ وہ ایک قومی رہنما کی حیثیت سے ابھر سکتے ہیں۔ ’ان کو آسام اور کیرلہ میں انتخابات لڑنے والی مسلم جماعتوں سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ وہ اپنی ریاستوں سے باہر نہیں نکلیں گی۔‘

’راستہ پُرخطر لیکن کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں‘

سینیئر صحافی و تجزیہ کار میر ایوب علی خان کے مطابق جو راستہ اسد الدین اویسی نے چنا ہے وہ پُرخطر ضرور ہے لیکن اس سے ہٹ کر کوئی راستہ بچا نہیں۔ ’اگر پڑھے لکھے مسلمان نوجوانوں کو پیچھے دھکیلا جائے گا تو وہ کس کے پاس جائیں گے؟ اگر بھارت میں 180 ملین مسلمان ہیں تو ان کا سیاسی اور معاشی مستقبل کیا ہے؟ ان کے مستقبل کی حفاظت کون کرے گا؟ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایوب کے مطابق محمد علی جناح کے پاکستان بنانے کے بعد بھارت میں جس قسم کی سیاست ہوئی اس میں مسلمانوں کے کردار کو آہستہ آہستہ ختم کر دیا گیا ہے، سیاسی طور پر مسلمان کسی اچھے سیاسی پلیٹ فارم پر کھڑا نظر نہیں آ رہے، مسلمانوں نے کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں کا ساتھ دیا لیکن کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔

’دوسری جانب بی جے پی کا تھنک ٹینک بے خوف ہو کر کہہ چکا ہے کہ بہت وقت تک ہم نے سوچا کہ ہم کانگریس جیسا بنیں گے اور مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے چلیں گے لیکن پھر ہمیں احساس ہوا کہ اگر ہم 15 فیصد مسلمانوں کو چھوڑ کر 85 فیصد ہندوؤں پر فوکس کریں گے تو اس میں کوئی عذر نہیں، مسلمان جہاں چاہیں جا سکتے ہیں۔‘

'بی جے پی کی یہ پالیسی کھلم کھلا ہے۔ اس میں کوئی راز داری نہیں۔ بی جے پی کے تھنک ٹینک نے یہ باتیں آن ریکارڈ کہی ہیں۔ اس طرح کی پالیسی سے مسلمان سیاسی طور پر اچھوت بن رہے ہیں اور ان کی آواز کون سنے گا؟ پچھلے پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی نے 330 نشستیں حاصل کیں لیکن ان میں سے ایک بھی رکن مسلمان نہیں تھا۔ ایسی صورتحال میں مسلمان کہاں جائیں؟‘

ایوب کے مطابق: ’تلنگانہ میں بی جے پی کے صدر بنڈی سنجے کمار، جو بدقسمتی سے رکن پارلیمان بھی ہیں، آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ ہم پرانے شہر حیدرآباد پر سرجیکل سٹرائیک کریں گے۔ اس کا مطلب کیا ہے۔ کیا پرانا شہر دشمن کا علاقہ ہے؟ کیا وہ پاکستان ہے؟ کیا پرانے شہر کے شہری پاکستانی ہیں؟

’اس طرح کے بیانات سے ان کی مسلم مخالف سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس سوچ کے پیچھے خطرناک منصوبہ ہے۔ اس سوچ کے ذریعے وہ غیر فرقہ پرست ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد کو سخت گیر ہندو بنا چکے ہیں، یہ بھارت کے لیے ایک دکھ کی بات ہے، 1947 کے بعد یہ صورت حال پیدا نہیں ہوئی تھی جو آج ہوئی ہے۔

’اگر بی جے پی کی اس سوچ اور پالیسی کا مقصد بھارت کی ترقی یقینی بنانا ہوتا تو ایک سمجھ آنے والی بات تھی لیکن بھارت تو بہت پیچھے چلا جا رہا ہے۔ آپ رام رام کرتے جا رہے ہیں اور بھارت گمنام ہوتا جا رہا ہے۔ جی ڈی پی کے معاملے میں تو بھارت بنگلہ دیش سے پیچھے چلا گیا ہے۔‘


نوٹ: یہ اس خبر کا پہلا حصہ تھا، دوسرا حصہ جلد پوسٹ کیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا