'کانگریس سیکیولر سے ہٹ کر سافٹ ہندوتوا ایجنڈے پر گامزن ہے'

بھارت میں کانگریس اور بی جے پی اقلیتی جماعت ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ کے مسلمانوں میں زور پکڑنے سے پریشان ہیں۔ اس پارٹی کی کیا تاریخ ہے اور یہ بھارتی سیاست میں کیا حاصل کرنا چاہتی ہے، جانیے اس خصوصی تحریر میں۔

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اور کارکنان کی گذشتہ سال بھارت میں منظور ہونے والے متازع شہریت قانون کے خلاف ایک مظاہرے میں شرکت (اے ایف پی)

بھارت میں ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ مسلمانوں میں زور پکڑ رہی ہے اور کانگریس اور بی جے پی اس پارٹی سے پریشان ہیں۔ اس پارٹی کی کیا تاریخ ہے اور یہ بھارتی سیاست میں کیا حاصل کرنا چاہتی ہے، جانیے انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی تحریر کے دوسرے حصے میں۔ پہلا حصہ آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

جہاں گانگریس کا الزام ہے کہ ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ (اے آئی ایم آئی ایم) مسلمانوں کے ووٹوں کو تقسیم کر کے بی جے پی کو فائدہ پہنچا رہی ہے وہیں بی جے پی کا الزام ہے کہ اسد الدین اویسی کی قیادت میں یہ جماعت نفرت کی سیاست کر رہی ہے۔ ایسے میں جماعت بھارت کی دوسری ریاستوں میں انتخابات لڑنے کے فیصلے کا بھرپور دفاع کرتی ہے۔

پارٹی کے سینیئر لیڈر اور سابق صحافی سید امین الحسن جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو سے تفصیلی گفتگو میں کہا: ’ملک کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ اقلیتوں کو سیاسی اور انتخابی طور پر پسماندہ کیا جا رہا ہے۔ 1998 میں جب سے بی جے پی کا ملک کی سیاست میں عروج ہوا ہے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی پارلیمان اور ریاستی اسمبلیوں میں نمائندگی کم ہوتی جا رہی ہے۔ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں تو مسلمانوں کو ٹکٹ تک نہیں دیتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’آج جہاں مسلمانوں کی پارلیمان اور اسمبلیوں میں نمائندگی کم ہو رہی ہے وہیں جو کچھ مسلم نمائندے الیکشن جیت کر سامنے آ جاتے ہیں وہ اپنی آواز بلند نہیں کر پا رہے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک ایسی جماعت کی شدت سے ضرورت محسوس ہو رہی تھی جو مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائے۔‘

سید امین الحسن جعفری کے مطابق: ’سچر کمیٹی اور رنگا ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹوں میں اقلیتوں کے تعلیمی، سماجی اور اقتصادی مسائل کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔ مختلف سٹیڈیز اور سرویز یہی بتاتے ہیں کہ بھارت میں اقلیتیں بہت پسماندہ اور کمزور ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اے آئی ایم آئی ایم بھارت کے ان علاقوں، جن میں اقلیتیں اچھی خاصی تعداد میں رہتی ہیں لیکن مختلف وجوہات کی وجہ سے یہ علاقے ترقی کی دوڑ میں کافی پیچھے رہے ہیں، کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے تصفیہ کے لیے کوشاں ہے۔

’پارلیمان میں جماعت کے اراکین اسد الدین اویسی اور امتیاز جلیل اقلیتوں کے مسائل اجاگر کرنے کے علاوہ مختلف موضوعات پر ہونے والی بحث میں سرگرمی سے حصہ لے رہے ہیں۔‘

کانگریس کے اے آئی ایم آئی ایم پر مسلمانوں کے ووٹ تقسیم کرنے کے الزام کے بارے میں پوچھے جانے پر امین الحسن جعفری نے کہا کہ کانگریس اپنا اصل ووٹ بینک یعنی اکثریتی طبقے کے ووٹ کافی حد تک گنوا چکی ہے اور اب اقلیتوں کے سہارے زندہ رہنا چاہتی ہے مگر ایسا ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا: ’بی جے پی نے اپنے آپ کو مضبوط بنانے کے لیے فرقہ وارانہ مسائل پر فوکس کیا چاہے وہ رام مندر ہے یا بڑے گوشت پر پابندی یا گائے کا ذبح۔ اس کے علاوہ وہ آج بھی کئی متنازع مسائل پر اپنی پوزیشن مضبوط کر رہے ہیں۔ وہ اپنے ہندوتوا ایجنڈے کو نافذ کرنے پر سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتیں بی جے پی کا مقابلہ نہیں کر پا رہی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کانگریس کے اکثریتی طبقے میں ووٹ کافی حد تک گھٹ چکے ہیں۔ اب یہ جماعت اقلیتوں کے سہارے زندہ رہنا چاہتی ہے لیکن ملک میں اقلیتوں کی تعداد اتنی نہیں ہے کہ وہ اس کو جتا سکیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اگر ملک کی تمام اقلیتیں کانگریس کے حق میں ووٹ ڈالیں گی تو صرف کانگریس کے امیدواروں کے ڈپازٹ بچا سکتی ہیں نہ کہ انہیں جیت دلا سکتی ہیں۔ جیتنے کے لیے انہیں اکثریتی طبقے کے ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔ جب کانگریس کے لیڈران اکثریتی طبقے کے ووٹ حاصل نہیں کر پاتے ہیں تو اقلیتی طبقوں کی نمائندگی کرنے والی جماعتوں پر اپنی ہار کے الزامات ڈال دیتے ہیں۔‘

امین الحسن جعفری کے مطابق کانگریس اپنے سیکولر ایجنڈے پر قائم نہیں رہ سکی اور سافٹ ہندوتوا ایجنڈے پر گامزن ہو چکی ہے۔

’کانگریس کے ایجنڈے میں تبدیلی سے بی جے پی کو طاقت ملتی ہے۔ جب ایک جماعت ہارڈ اور دوسری سافٹ ہندوتوا ایجنڈے کو فالو کرتی ہے تو اکثریتی طبقے کے رائے دہندگان سافٹ پر ہارڈ کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملک میں سیکولرازم کی سیاست دم توڑ رہی ہے۔ اگر کانگریس اپنا ہندو ووٹ بینک ختم کرے گی تو مسلم ووٹ بینک پر زندہ نہیں رہ سکتی۔ آپ کسی جماعت کو الیکشن لڑنے سے نہیں روک سکتے ہیں۔ سیاسی جماعت الیکشن لڑنے کے لیے ہی بنتی ہے۔‘

اے آئی ایم آئی ایم رہنما نے کانگریس کی مبینہ کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا: ’کانگریس کے چالیس سال سے تنظیمی انتخابات نہیں ہوئے ہیں۔ ان کی صحیح معنوں میں ممبرشپ ڈرائیو نہیں چلی ہے۔ وہ اب کیڈر بیسڈ پارٹی نہیں رہی ہے۔ زمینی سطح پر مقامی لیڈران کو سامنے نہیں لا سکی۔ ان ہی وجوہات کی وجہ سے یہ جماعت کمزور سے کمزور تر ہوتی جا رہی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول: ’ہر پارلیمانی یا اسمبلی انتخابات کے بعد ان کی طاقت بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی ہے۔ ان کو تنظیمی، نظریاتی اور سیاسی طور پر تبدیل ہونا پڑے گا۔ اترپردیش، کرناٹک اور گجرات کے ضمنی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے تو تقریباً سبھی سیٹیں جیتیں۔ ان انتخابات میں تو ہم نے حصہ نہیں لیا تھا پھر کانگریس ہار کیوں گئی؟ کانگریس کے خاتمے کے لیے اے آئی ایم آئی ایم کو ذمہ دار ٹھہرانا سمجھ بوجھ کی بات نہیں ہے۔‘

’سقوط حیدرآباد‘ سے پہلے

سید حسین اپنی کتاب ’زوال حیدرآباد‘ میں لکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے اوائل میں حیدرآباد دکن (جو اُس وقت ایک آزاد، خود مختار اور دولت مند ریاست تھی) میں مسلمانوں کے مذہبی، تہذیبی، سماجی، معاشی اور سیاسی امور کی رہنمائی کے لیے ’مجلس اتحاد السلمین‘ کا قیام عمل میں آیا۔

تاہم ایم اے عزیز انجینیئر اپنی کتاب ’پولیس ایکشن‘ میں رقمطراز ہیں: ’یہ جماعت ابتدا میں اتحاد بین المسلمین کے نام سے شروع ہوئی جو بعد میں مجلس اتحاد المسلمین کے نام سے 1929 سے قائم ہوئی۔ ابتدا میں مجلس ایک مذہبی جماعت تھی جو بعد میں سیاسی پارٹی کے طور پر سامنے آئی۔‘

’پولیس ایکشن‘ کے مصنف نے لکھا ہے: ’اس جماعت کے پہلے صدر مولانا بادشاہ حسینی تھے اور 1938 سے 1944 تک قائد ملت بہادر یار جنگ اس کے صدر رہے۔ بہادر یار جنگ اپنے دور کی انتہائی عبقری شخصیت تھیں۔ اعلیٰ سیاسی سمجھ بوجھ رکھتے تھے۔ وسیع القلب اور اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔ دوراندیش و نبض شناس اور ملت کے دردمند تھے۔ صحیح معنوں میں قائد ملت تھے۔‘

’بہادر یار جنگ قائد اعظم محمد علی جناح اور مہاتما گاندھی سے قربت بنائے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ کے مشہور اجتماعات، خصوصاً لاہور کے اس اجتماع جس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی، میں خطابات کیے تھے۔ وہ کشمیر بھی گئے تھے لیکن ڈوگرہ حکومت نے انہیں وہاں تقاریر نہیں کرنے دیں اور حراست میں لے کر کشمیر سے واپس کر دیا۔‘

ایم اے عزیز انجینیئر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: ’جون 1944 میں بہادر یار جنگ کے انتقال کے بعد مجلس اتحاد المسلمین کے صدر ابو الحسن سید علی ہوئے۔ وہ زیادہ فعال شخصیت نہیں تھے اس لیے جلد ہی ان کے بعد مظہر علی کامل نے مجلس کا صدارتی عہدہ سنبھالا۔ تاہم جب مظہر علی نے استعفیٰ دے یا تو آخرکار 1946 میں ایڈووکیٹ سید قاسم رضوی کو مجلس کا صدر منتخب کر لیا گیا۔‘

’سید قاسم رضوی پہلے سے ہی یعنی بہادر یار جنگ کے دور سے مجلس کے عاملہ کے رکن چلے آ رہے تھے اور انہوں نے 1939 کے گلبرگہ کے سالانہ جلسے میں اپنی پوری منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد مجلس کے حوالے کر دی تھی جس پر بہادر یار جنگ نے انہیں صدیق دکن کا خطاب دیا تھا۔‘

سید قاسم رضوی جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وکالت کی تعلیم حاصل کی تھی ستمبر 1948 میں بھارت کے حیدرآباد دکن پر حملے تک مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بنے رہے۔

قاسم رضوی کی ایک اپنی عسکری تنظیم تھی جس میں شامل عسکریت پسندوں کو ’رضاکار‘ کہا جاتا تھا۔ ان رضاکاروں کے پاس دو نالی بندوقیں یا لاٹھیاں تھیں اور انہوں نے اسی ساز و سامان کی مدد سے جدید اور خودکار ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوج کو حیدرآباد دکن میں داخل ہونے سے روکنے کی ناکام کوششیں کی تھیں۔

ایم اے عزیز انجینیئر لکھتے ہیں: ’بھارتی افواج کو حیدرآبادی افواج کا سامنا کرنا نہیں پڑا لیکن رضاکاروں نے فوج کا ڈٹ کا مقابلہ جس میں نقصان رضاکاروں کا ہی ہوا۔ رضاکار ہر لحاظ سے بھارتی افواج سے کم تر تھے۔ ہزاروں رضاکار موت کے گھاٹ اترے۔ جو کچھ بچ گئے انہیں بہت کسم پرسی کی حالت سے دوچار ہونا پڑا۔ مرنے والے رضاکاروں کی تجہیز و تکفین نہ ہوسکی۔ لاشیں جنگلوں میں سڑ گل گئیں۔‘

’بھارتی حملے کے وقت سڈنی کاٹن کا طیارہ موجود تھا جس کے ذریعے سید قاسم رضوی کو کراچی فرار ہونے اور اپنی جان بچانے کا بہترین موقعہ تھا۔ ان کے ساتھیوں نے اصرار کیا تھا کہ وہ اس طیارہ کے ذریعے پاکستان چلے جائیں لیکن انہوں نے انکار کیا۔ اس کے بعد وہ گرفتار ہوئے مقدمات چلے۔ نو سال سزا ہوئی۔ قاسم رضوی نے یہ سزا پونا کے پرودہ جیل میں بھگتی اور تکمیل سزا کے بعد حیدرآباد آ کر مجلس اتحاد المسلمین کی نئی تشکیل کی اور پھر وہ پاکستان روانہ ہوئے۔ بعد ازاں ایڈووکیٹ عبدالواحد اویسی نے مجلس کی صدارت قبول کی اور آج بھی مجلس کی صدارت اویسی کے خاندان میں ہی چلی آ رہی ہے۔‘

’سقوط حیدرآباد‘ کے بعد

سید امین الحسن جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو سے طویل گفتگو میں کہا کہ ’مجلس اتحاد المسلمین‘ کو 1958 میں مولوی عبدالواحد اویسی نے پھر سے زندہ کر کے ’آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین‘ کے نام سے بھارتی آئین کے تحت بحیثیت سیاسی جماعت رجسٹر کرایا۔

’جماعت کا مقصد اقلیتوں اور دیگر دبی کچلی کمیونٹیز بشمول دلتوں، آدی واسیوں اور پسماندہ طبقوں کی خدمت کرنا ہے۔ اگرچہ یہ جماعت بظاہر مسلمانوں کی جماعت نظر آتی ہے لیکن یہ ہر ایک مذہب اور کمیونٹی کے لوگوں کے بنیادی حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔‘

جعفری نے اے آئی ایم آئی ایم کی انتخابی تاریخ پر بات کرتے ہوئے کہا: ’جماعت نے 1959 میں حیدرآباد بلدیہ کے ضمنی انتخابات میں حصہ لے کر الیکشن لڑنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد جب 1960 میں حیدرآباد بلدیہ کے انتخابات ہوئے تو یہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔‘

انہوں نے بتایا کہ  1962 میں آندھرا پردیش کی اسمبلی کے انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم کے ایک امیدوار حلقہ پتھر گھٹی جیتنے میں کامیاب ہوئے اور وہ مولوی عبدالواحد اویسی کے فرزند سلطان صلاح الدین اویسی تھے، جن کو یہاں سالار ملت کے نام سے جانا جاتا تھا۔

 1960 سے اے آئی ایم آئی ایم حیدرآباد بلدیہ کے انتخابات میں مسلسل حصہ لیتی آئی ہے۔ 1986 میں یہ جماعت کانگریس کی حمایت سے حیدرآباد بلدیہ میں اقتدار میں آئی۔ اس وقت میئر ایک سال کے لیے منتخب ہوتا تھا۔ تو ایم آئی ایم نے دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والے تین کارپوریٹرس کو حیدرآباد شہر کا میئر بنایا۔ جماعت تین سال تک بلدیہ میں اقتدار میں رہی جس دوران تین دلت میئر اور دو دلت ڈپٹی میئر بنائے گئے۔

سید امین الحسن جعفری بتاتے ہیں: ’اسی طرح اے آئی ایم آئی ایم 1962 سے مسلسل ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیتی آئی ہے۔  نیز حیدرآباد پارلیمانی نشست 1984 سے مسلسل آج تک جیتتی آئی ہے۔ جماعت کے امیدواروں نے آج تک دس پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے کر حیدرآباد کی نشست پر قبضہ برقرار رکھا ہے۔ چھ مرتبہ سلطان صلاح الدین اویسی جیتے جبکہ چار مرتبہ اسد الدین اویسی جیتے۔‘

اے آئی ایم آئی ایم کی بھارت کے دوسرے شہروں اور ریاستوں میں توسیع پر بات کرتے ہوئے سید امین الحسن جعفری نے کہا: ’ہماری جماعت پڑوسی ریاست کرناٹک میں بھی بلدیہ انتخابات لڑتی آئی ہے۔ اس بیچ مہاراشٹر میں بھی جماعت کے یونٹ بنتے رہے۔ مہاراشٹر میں 2010 کے بعد ایم آئی ایم نے بلدیہ انتخابات میں حصہ لینا شروع کیا۔ 2011 میں ناندیڑ میونسپل کارپوریشن میں ایم آئی ایم حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ابھر کر سامنے آئی۔ اس کے بعد جماعت نے مہاراشٹر کے دوسرے حصوں میں بھی بلدیہ انتخابات میں حصہ لیا جہاں اس کے امیدوار کہیں جیتے تو کہیں ہارے۔‘

جعفری کے مطابق 2015 کے بہار اسمبلی انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم کے چھ امیدواروں نے قسمت آزمائی کی تھی لیکن ان میں سے پانچ امیدوار اپنی ڈپازٹ بھی بچا نہیں پائے تھے۔ جماعت نے 2017 میں اترپردیش میں اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا لیکن وہاں بھی کسی بھی امیدوار کو کامیابی نہ مل سکی۔

’تاہم 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم نے تین پارلیمانی حلقوں حیدرآباد، اورنگ آباد (مہاراشٹر) اور کشن گنج (بہار) سے اپنے امیدوار کھڑا کیے۔ ان میں سے حیدرآباد سے اسد الدین اویسی اور اورنگ آباد سے امتیاز جلیل جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی سال جب مہاراشٹر میں اسمبلی انتخابات ہوئے تو ان میں بھی دو نشستوں پر جماعت کے امیدواروں کو کامیابی ملی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا