پاکستان فوج کے ترجمان نے پیر کو بتایا کہ غزہ میں پاکستانی افواج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمان نے کرنا ہے۔
امریکہ کی ثالثی میں فلسطینی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلم ممالک پر مشتمل ایک اتحاد سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ فلسطینی علاقے میں اپنی فورسز تعینات کرے گا۔
یہ بین الاقوامی استحکام فورس غزہ کی پٹی میں منتخب اور جانچ شدہ فلسطینی پولیس کو تربیت اور معاونت فراہم کرے گی۔
اس کے علاوہ یہ فورس مصر اور اردن کی حمایت سے سرحدی علاقوں کی حفاظت کرے گی۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے آج ملکی و بین الاقوامی میڈیا کے صحافیوں و اینکرز کو ملک کی سکیورٹی صورت حال پر بریفنگ دی۔
انہوں نے کہا ’غزہ میں پاکستانی افواج جائیں گی یا نہیں یہ ہمارا فیصلہ نہیں، فوج کے فلسطین بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمان نے کرنا ہے۔‘
’افغان طالبان پاکستان کے ڈارلنگ نہیں‘
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے اکتوبر میں پڑوسی ملک افغانستان کے ساتھ جان لیوا سرحدی جھڑپوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کے متعلق کہا کہ پاکستان نے پہلے بھی امن کے لیے افغانستان کو مذاکرات کا موقع دیا۔
’مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے لیکن ہم کبھی دہشت گردوں سے بات نہیں کریں گے اور نہ ہی ان سے کوئی مذاکرات ہوں گے۔‘
19 اکتوبر کو پاکستان اور افغانستان نے دوحہ میں اعلیٰ سطحی مذاکرات کے بعد فوری جنگ بندی پر اتفاق کرتے ہوئے ایک دوسرے کی خودمختاری کے احترام کا عہد کیا تھا۔
25 اکتوبر کو مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جہاں اسلام آباد نے سرحد پار عسکریت پسندوں کے حملوں کی روک تھام کے لیے افغان طالبان کے اقدامات کی نگرانی کے ایک ’ٹھوس‘ طریقہ کار کی تشکیل پر زور دیا تھا۔
اسلام آباد طویل عرصے سے افغان طالبان سے مطالبہ کرتا آ رہا ہے کہ وہ عسکریت پسند گروہوں کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکیں۔ تاہم افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ان کی سرزمین استعمال نہیں ہو رہی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق پاکستان افغانستان کے درمیان سرحدی جھڑپ میں 206 افغان طالبان جبکہ 112 درانداز عسکریت پسند مارے گئے۔
انہوں نے سوال کیا کہ ’افغانستان کے چھ ہمسایہ ممالک ہیں وہاں پر دہشت گردی کیوں نہیں ہوتی۔
’اس کا جواب یہ ہے کہ وہاں سرحدیں بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہیں۔ بغیر ویزا اور پاسپورٹ آنا جانا منع ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ’سوال تو یہ بھی ہے کہ دوحہ مذاکرات کے دوران کیے گئے معاہدے کہاں گئے؟ ابھی تک انتخابات کیوں نہیں ہوئے؟
’یہ افغان کی عبوری حکومت ہے جس نے الیکشن کرانے تھے۔ نہ خواتین کی نمائندگی ہے اور نہ ہی یہ عوام کے منتخب کردہ ہیں بلکہ یہ ایک جتھا ہے۔
’جب ایک جتھا ملک پر مسلط ہو گا تو اس کی بقا دہشت گردوں کی پشت پناہی میں ہے۔‘
انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان اور افغانستان میں جنگ افغان عوام کے خلاف نہیں تھی۔ ’وزیر دفاع اور دفتر خارجہ نے بھی افغان رجیم کی بات کی۔ پاکستان نے افغان عوام کا نام کبھی نہیں لیا۔‘
انہوں نے مزید کہا ’پاکستان نے کابل میں رجیم تبدیلی کا جشن نہیں منایا تھا۔ وہاں موجود قیادت سے ویسے ہی ملاقاتیں ہوئیں جیسے ان سے پہلی قیادت کے ساتھ ہوتی تھیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ’پاکستان کا کسی غیر ملکی فوج کے ساتھ افغانستان پر ڈرون حملوں کے حوالے سے کوئی خفیہ معاہدہ نہیں ہوا۔‘
’ٹی ٹی اے پاکستان کی ڈارلنگ نہیں بلکہ طفیلی گروہ ہے جو برسوں سے خاموشی کے ساتھ پاکستان میں پلتا رہا، لیکن پاکستان میں ایک ایسا گروہ ضرور موجود ہے جو طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے۔‘
انہوں نے کہا ’جب کوئی دہشت گردی کا واقعہ ہوا تو پاکستان کا حق ہے کہ اس کے خلاف کارروائی کرے۔ کارروائی کا حق کوئی نہیں چھین نہیں سکتا۔
’جب ہم افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی بات کرتے ہیں ہم پورے ثبوت کے ساتھ بات کرتے ہیں اور یہی ہماری حکمت عملی ہے۔
’سیز فائر کا یہ مطلب تھا کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر کسی قسم کا حملہ یا کارروائی نہیں ہو گی۔ جس دن کارروائی ہوئی سیز فائر ختم ہو جائے گا۔‘
انہوں نے کہا ’افغان طالبان، بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کو اب شہری علاقوں میں منتقل کیا جا رہا ہے تاکہ انسانی شیلڈ کا سہارا لیا جا سکے۔
’ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے سرغنہ افغانستان میں روپوش ہیں۔ افغان رجیم یا تو خود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے اور اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ پاکستانی ہیں تو پھر ان کو ہمارے حوالے کریں، ہم اپنے قانون کے مطابق ان سے نمٹ لیں گے۔‘
انڈیا کے ساتھ تعلقات پر ان کا کہنا تھا ’انڈیا پاکستان کے خلاف ایک اور فالس فلیگ آپریشن کرنا چاہتا تھا، جسے پاکستان نے بروقت بے نقاب کیا۔
’زمین اور آسمانوں پر تو انڈیا کو خفت کا سامنا کرنا پڑا، اگر وہ سمندر میں کچھ کرنا چاہتا ہے تو وہاں بھی پاکستان بھرپور جواب دینے کی طاقت رکھتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پریس بریفنگ کے دوران پاکستان کی داخلی سکیورٹی صورتحال پر گفتگو میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا ’گذشتہ 10 سالوں میں اتنے دہشت گرد نہیں مارے گئے جتنے 2025 میں مرے۔
ان کہا کہنا تھا کہ رواں برس سکیورٹی فورسز کے 62 ہزار 113 آپریشنز میں 1667 عسکریت پسند مارے گئے، جن میں سے 128 افغان تھے۔
انہوں نے دہشت گردوں کا تعلق چرس کی کاشت سے جوڑتے ہوئے انکشاف کیا کہ ضلع خیبر کی وادی تیرہ میں 12 ہزار ایکڑ رقبے پر پوست کاشت ہوتی ہے، جس کا منافع 18 سے 25 لاکھ روپے فی ایکڑ ہے۔
’دہشت گرد ہر کھیت سے بھتہ لیتے ہیں۔ افغانستان سے حشیش، اوپیم، ہیروئن اور آئس پاکستان آ رہی ہے۔
’یہاں چرس کی منڈی کا پیسہ افغانستان جاتا ہے اور کچھ سیاسی عناصر بھی مستفید ہوتے ہیں۔ یہی چرس پاکستان کی یونیورسٹی اور کالجز تک پہنچائی جاتی ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ’کچھ سیاست دان اس لیے خیبر پختونخوا میں فوجی آپریشن کے خلاف ہیں کیونکہ وہ بھی اس کاروبار سے مالی فائدے اٹھا رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ان سیاست دانوں کا عسکریت پسندوں کے ساتھ بھی تعلق ہے، جو اس سارے گٹھ جوڑ کا حصہ ہیں۔
’ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کے معاملے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ یہ مسئلہ تب حل ہو گا جب فوج، سول انتظامیہ، سیاست دان اور میڈیا ایک صفحے پر ہوں گے۔
’اگر کوئی اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے تو یہ ان کو سوچنا ہو گا کہ اپنے چھوٹے فائدے کے لیے پورے صوبے کا نقصان نہ کروا بیٹھیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہا انہوں نے کہا ’ہمارا سیاست سے تعلق نہیں اس لیے کسی سیاست دان کے خلاف فیصلہ دینے کا اختیار نہیں۔
’ ہم نے صرف حقیقت عیاں کی ہے کہ کے پی کے میں خوارج اور چرس مافیا کی سیاسی پشت پناہی ہو رہی ہے۔
’کسی کا نام اس لیے نہیں بتا سکتے کہ اسے فوج کا سیاست میں کردار سمجھا جائے گا۔ گورنر راج لگانا یا نہ لگانا فوج کا کام نہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ’ہم اپنی سیاسی وابستگیاں اور پسند ناپسند پس پشت رکھ کر کام کرتے ہیں۔ فوج کسی شخصیت کے ساتھ نہیں بلکہ ریاست کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے۔‘
انہوں نے کہا ’الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ڈرگ سمگلنگ میں فوج ملوث ہے کیونکہ سرحد پر باڑ لگی ہے اور وہاں ایف سی تعینات ہے۔
’یہ بے حسی کی بات ہے۔ یہ معلومات بھی ہونی چاہیے کہ پوری دنیا میں سرحدیں دو طرفہ نگرانی سے کام کرتی ہیں۔ پاک افغان سرحد پر پاکستانی فوج اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے لیکن دوسری جانب افغان طالبان سمگلنگ کی پشت پناہی کرتے ہیں۔
’سرحد پر ایک پوسٹ کا دوسری پوسٹ سے 20 سے 25 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ بیچ کا جو فاصلہ آتا ہے دہشت گرد اور سمگلر وہاں سے باڑ کاٹ کر راستہ بنا لیتے ہیں۔‘