عالمی موسمیاتی تنظیم (ڈبلیو ایم او) کی حالیہ دنوں جاری ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں شروع ہوکر عالمی درجہ حرارت کو خطرناک حد تک بڑھانے والا موسمیاتی مظہر ’ال نینیو‘ تقریباً ختم ہوگیا ہے اور اس وقت کرہ ارض نیوٹرل مرحلے سے گزر رہی ہے۔
اسی رپورٹ کے مطابق جب کہ جولائی سے ستمبر تک 60 فیصد چانسز ہیں کہ ال نینیو کے فریق موسمیاتی مظہر ’لا نینا‘ کا آغاز ہوجائے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ موسمیاتی مظاہر کیا ہیں اور ان کے موسمیاتی تبدیلی سمیت کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ انڈپینڈنٹ اردو کی اس رپورٹ میں یہ بھی جانیں گے کہ ان کے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
دنیا کا درجہ حرارت بڑھانے والے ال نینیو کی نسبت لا نینا کے باعث بحر الکاہل کے وسطی اور مشرقی استوائی حصوں میں سطح سمندر معمول سے ٹھنڈی ہوجائے گی، جس کے باعث دنیا بھر میں ٹراپیکل سائیکلون اور معمول سے زیادہ بارشوں کا امکان ہے۔
ال نینیو کے ختم ہونے اور لا نینا کے آغاز سے متعلق رپورٹ میں عالمی موسمیاتی تنظیم کے نائب سیکریٹری جنرل کو بیریٹ نے کہا: ’جون 2023 میں ال نینیو کے آغاز کے بعد سے ہر ماہ درجہ حرارت کا ایک نیا ریکارڈ ٹوٹا ہےاور 2023 اب تک کا گرم ترین سال بن گیا ہے۔
’ال نینیو کے خاتمے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ طویل مدتی ماحولیاتی تبدیلی میں کسی قسم کا کوئی فرق پڑے گا۔ کیوں کہ کرہ ارض انسانی سرگرمیوں کے باعث گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے باعث گرم ہوتا رہے گا جبکہ آنے والے مہینوں میں غیر معمولی طور پر سمندر کی سطح کا درجہ حرارت زمین پر اہم تبدیلیوں کا باعث بن سکتا ہے۔‘
موسمیاتی مظاہر ال نینیو اور لا نینا کیا ہیں؟
موسمیاتی ماہر، محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور عالمی موسمیاتی تنظیم میں پاکستان کے مستقل نمائندے ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’ال نینیو (سدرن اوسلیشن یا ال نینیو) جنوبی ارتعاش کا ایک موسمیاتی مظہر ہے جو بحر الکاہل میں واقع ہوتا ہے، جس سے دنیا بھر کے موسم پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ تین مراحل پر مشتمل ہوتا ہے، جن میں ال نینیو، لا نینا، اور نیوٹرل مرحلہ شامل ہیں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ چلی، ایکواڈور، پیرو کے ساتھ واقع مشرقی استوائی بحر الکاہل کی سطح کا پانی قدرتی طور پر اوسط سے گرم ہوجاتا ہے تو اس مرحلے کو ال نینیو کہا جاتا ہے۔ یہ موسمیاتی مظہر عام طور پر ہر دو سے سات سال کے درمیان وقوع پذیر ہوتا ہے۔
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’ال نینیو کے باعث بحرالکاہل کی سطح گرم ہونے کے باعث مچھلیاں سطح سمندر سے نیچے چلی جاتی ہیں، اس لیے اس خطے کے ممالک کے ماہی گیروں کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا۔
’ال نینیو کی نسبت لا نینا کے دوران مشرقی استوائی بحر الکاہل میں پانی کی سطح اوسط سے ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے اس پر سوال کیا کہ مشرقی استوائی بحر الکاہل میں پانی کی سطح اوسط سے گرم یا ٹھنڈی ہونے کی صورت میں دنیا بھر کے موسم پر اثرات کیوں ہوتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر غلام رسول نے اس کے جواب میں کہا کہ ’کرہ ارض کے اوپر ہواؤں کا ایک نظام ویسٹرلی ویو ہر وقت چلتا رہتا ہے۔ جو مغرب سے مشرق کی طرف چلتی رہتی ہے۔ جب یہ ہوائیں بحر الکاہل کے اوپر سے گزرتی ہیں اور وہاں سطح سمندر کا درجہ حرارت معمول سے کم یا زیادہ ہو تو اس کا اثر ہواؤں کے اس نظام پر بھی پڑتا ہے۔
’جب ہواؤں کا یہ سلسلہ اس خطے سے گرمی یا سردی لے کر سارے کرہ ارض پر گھومتا ہے تو اس کے اثرات ساری دنیا میں نظر آتے ہیں۔
’اس موسمیاتی مظاہر کے باعث ہواؤں کا نظام جب معمول سے گرم یا سرد ہوائیں ساری دنیا میں لاتا ہے تو کہیں معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں تو کہیں خشک سالی ہوجاتی ہے۔‘
عالمی موسمیاتی تنظیم کے مطابق لا نینا کے دوران جنوبی امریکہ کے مغربی ساحلوں پر بارش کم ہو جاتی ہے، جس سے خشک سالی پیدا ہو سکتی ہے۔ جب کہ آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں بارش اور سیلاب کے واقعات میں اضافہ ہوتا ہے اور شمالی امریکہ میں لا نینا کے دوران سردیاں شدید ہوجاتی ہیں اور شمالی امریکہ کے جنوبی حصوں میں بارش کم ہو جاتی ہے۔
دوسری جانب ال نینیو کے دوران جنوبی امریکہ مغربی ساحلوں پر بارش میں اضافہ ہوتا ہے، جو سیلاب کا باعث بن سکتا ہے۔ آسٹریلیا اور انڈونیشیا میں خشک سالی اور آگ لگنے کے واقعات بڑھ جاتے ہیں۔ شمالی امریکہ میں سردیاں نرم ہوتی ہیں اور شمالی امریکہ کے جنوبی حصوں میں بارش بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایٹلانٹا ، بحیرہ کریبین اور میکسیکو گلف میں سمندری طوفانوں کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔
پاکستان میں اثرات
ان موسمیاتی مظاہر کا پاکستان پر اثرات کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام رسول نے کہا کہ لا نینا کے دوران پاکستان میں مون سون کی بارشیں معمول سے زیادہ ہوتی ہیں، سردیوں کی بارشیں کم ہوجاتی ہیں اور برف باری میں تاخیر ہوجاتی ہے۔
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’پاکستان میں 2022 میں آنے والا شدید سیلاب لانینا کے زیر اثر ہوا۔ یہ موسمیات کی تاریخ کا ایک نیا ریکارڈ تھا کیوں کہ عام طور پر لانینا ایک سال کے لیے آتا ہے مگر 2020 میں شروع ہونے والا لانینا 2022 تک تین سال تک جاری رہا، جس کے باعث دنیا میں آفات آئیں۔
’پاکستان میں شدید سیلاب جبکہ یورپ شدید ہیٹ ویو کا شکار رہا ہے۔ اس کے اثر کے باعث دنیا میں کہیں سیلاب، کہیں ہیٹ ویو اور کہیں قحط سالی نظر آئی۔
’پاکستان میں لانینا کے باعث 2022 میں مون سون شدید ہونے کے ساتھ ان علاقوں میں بارش لائی جہاں عام طور پر مون سون کی بارش نہیں ہوتی۔‘
ان کے بقول: ’پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کو پاکستان میں مون سون کا گیٹ وے کہا جاتا ہے، وہاں لا نینا کے باعث معمول سے کم بارشیں ریکارڈ کی گئیں۔‘
پاکستان پر ال نینیو کے اثرات پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام رسول نے کہا پاکستان میں ال نینیو کے شدید اثرات 1997 اور 1998 میں دیکھے گئے جب پاکستان میں شدید خشک سالی دیکھی گئی۔ ال نینیو کے باعث پاکستان میں 1998 سے 2002 تک مسلسل شدید خشک حالی دیکھی گئی۔
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: ’اس خشک سالی کے باعث بلوچستان کا بڑا حصہ متاثر ہوا۔ بلوچستان کے کئی خطوں میں باغات ختم ہوگئے اور جانوروں کی بڑے پیمانے پر اموات ہوئیں۔
’اسی طرح سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع میں فصلوں، باغات کو شدید نقصان ہوا۔ ان سالوں میں مون سون کی بارشیں معمول سے انتہائی کم ہوئیں۔
’مگر ال نینیو کے باعث جہاں پورا پاکستان شدید خشک سالی سے دوچار تھا تو 21 جولائی 2001 کو اسلام آباد اور راولپنڈی میں 10 گھنٹوں کے دوران 620 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی اور جڑواں شہروں میں شدید سیلاب دیکھا گیا۔
’ال نینیو کے باعث شدید خشک سالی تو کہیں سیلابی صورت حال ہوسکتی ہے۔ اس سال ال نینیو ختم ہو رہا ہے اور جلد ہی لا نینا شروع ہوگا، جو پاکستان میں آئندہ سال کے موسم سرما میں اپنی جوانی پر ہوگا، ایسی موسم سرما میں کم بارشوں کا امکان ہے۔‘
ان موسمیاتی مظاہر کا شدید ہونا اور جلدی جلدی رونما ہونے میں ماحولیاتی تبدیل کا کتنا کردار ہوسکتا ہے؟
اس کے جواب میں ڈاکٹر غلام رسول نے کہا: ’اب تک سائنس دان اس بات کا پتہ نہیں لگا سکے ہیں کہ یہ مظاہر بحرالکاہل میں ہی کیوں رونما ہوتے ہیں تو اس لیے یہ پتہ لگانا بھی ممکن نہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کا ان کی شدید اور جلد جدلی آنے پر کوئی اثر ہے یا نہیں۔‘
محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز احمد کے مطابق ال نینیو اور لا نینا کے باعث دنیا بھر سمیت پاکستان کے موسموں میں شدت آئی ہے، جس کے باعث ایک طرف شدید گرمی کی لہر ہوتی ہے تو دوسری جانب مون سون میں شدید بارشیں ریکارڈ کی جارہی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے سردار سرفراز نے کہا: ’ان موسمیاتی مظاہر کے باعث پاکستان اور خاص طور جنوبی سندھ میں گذشتہ کچھ سالوں سے شدید بارشیں ہورہی ہیں۔
’پہلے یہ موسمیاتی مظاہر دو سے پانچ سال بعد رونما ہوتے تھے، مگر اب جلدی جلدی ہو رہے ہیں۔ ان کے زیر اثر آنے والے مون سون میں پاکستان میں شدید بارشوں کا خدشہ ہے۔‘