ماحولیاتی ماہرین ایک عرصے سے خبردار کیے چلے جا رہے تھے کہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے پوری دنیا کی تپش میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن اکثر لوگ اسے دور کی کوڑی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے تھے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ ماحولیاتی تپش ہمارے دروازوں پر دستک دینے لگی ہے۔
حال ہی میں انڈیا میں گرمی کا ریکارڈ ٹوٹ گیا جبکہ پاکستان شدید ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہے، جس کی شدت میں اضافے کا امکان ہے۔
شمالی امریکہ سے یورپ اور افریقہ سے لے کر ایشیا تک کرۂ ارض کے بڑے حصوں میں گرمی کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔
حالیہ رپورٹوں کے مطابق 2023 اب تک ریکارڈ پر تاریخ کا سب سے گرم سال تھا اور حالات یہی رہے تو 2024 بڑی آسانی سے اسے پیچھے چھوڑ سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ موسم کا پارہ اتنا کیوں چڑھتا چلا جا رہا ہے اور اس کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں:
ہیٹ ویو کیوں ہو رہی ہے؟
ویسے تو ہر چند سال بعد ہیٹ ویوز آنا دنیا کی موسمیاتی گردش کا حصہ ہے لیکن تشویش ناک بات یہ ہے کہ ان واقعات کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ تو ماحولیاتی تبدیلی ہے۔ انسان کی لگائی گئی صنعتوں، گاڑیوں اور مویشیوں کی وجہ سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین جیسی گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ گیسیں گرین ہاؤس گیسیں اس لیے کہلاتی ہیں کہ یہ حرارت کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہیں اور اسے دنیا سے باہر خلا میں خارج نہیں ہونے دیتیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن صرف ماحولیاتی تبدیلی ہی کو موردِ الزام ٹھہرانا مناسب نہیں ہے۔ جس طرح سے ہم شہر تعمیر کرتے ہیں وہ بھی گرمی کو اپنے اندر سمونے اور باہر نہ نکلنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
جب شہر بستے اور پھیلتے ہیں تو وہ سبزہ زاروں، جنگلوں اور کھیتوں کو ختم کر کے ان کی جگہ پر سیمنٹ اور تارکول کی تہیں بچھا دیتے ہیں اور یہ دونوں چیزیں حرارت کو سفنج کی طرح جذب کر لیتی ہیں۔ اس کے علاوہ شہروں کی بلند عمارتیں ہوا کے بہاؤ میں بھی رکاوٹ ڈال دیتی ہیں، جس سے دوسرے مسائل کے علاوہ بادلوں کو بننے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔
ایک اور وجہ ’ال نینیو‘ ہے۔ آپ نے ’ال نینیو‘ اور ’لا نینا‘ جیسے نام سن رکھے ہوں گے۔ یہ بحرالکاہل کے پانیوں کے گرم اور ٹھنڈا ہونے کا قدرتی دائرہ ہے، جو دو سے سات سال میں مکمل ہوتا ہے۔ گرم حصہ ال نینیو اور ٹھنڈا لا نینا کہلاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اس وقت اس سائیکل کے گرم مرحلے یعنی ال نینیو میں موجود ہیں جو مئی 2023 میں شروع ہوا تھا۔
یعنی دنیا پہلے ہی گرم ہو رہی ہے اور ال نینیو نے سونے پر سہاگے کا کام کر کے اسے مزید گرم کر دیا ہے۔
جسم پر اثرات
موجودہ ہیٹ ویو صرف ایک ناگوار یا تکلیف دہ کیفیت نہیں ہے بلکہ اس کے انسانی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
جب درجۂ حرارت 37 ڈگری سیلسیئس سے بڑھ جائے تو وہ انسانی درجۂ حرارت سے زیادہ ہو جاتا ہے اور یہ وہ مرحلہ ہے، جب جسم گرمی سے متاثر ہونے لگتا ہے۔
مزید خرابی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب فضا میں نمی کا تناسب بھی بڑھ جائے۔ اب جسم پسینہ خارج کر کے گرمی کو زائل نہیں کر سکتا اور ہیٹ سٹروک کا خطرہ درپیش ہو جاتا ہے، جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
اسی سے نمٹنے کے لیے پاکستان میں کئی ہسپتالوں میں خصوصی ہیٹ ویو وارڈ قائم کر دیے گئے ہیں۔
ہیٹ ویو کا ایک اور تباہ کن اثر جنگل کی آگ ہے۔ اونچا درجہ حرارت اور خشک موسم آگ کے لیے سازگار ثابت ہوتے ہیں اور پاکستان جیسے ملک میں، جہاں جنگل کی آگ بجھانے کا کوئی تسلی بخش نظام موجود نہیں، آگ کو قابو کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی سے نمٹا کیسے جائے؟
ہیٹ ویوز کو کم کرنے کے لیے فوری اور طویل مدتی اقدامات ضروری ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع جیسے ہوا اور شمسی توانائی کی طرف منتقل ہونا اہم ہے۔ شجرکاری اور شہری سبزہ کاری بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں کیوں کہ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اور شہروں کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔
یہ تو حکومتوں کے کام ہیں، لیکن سب کچھ حکومتوں پر چھوڑنا بھی ٹھیک نہیں۔ انفرادی سطح پر بھی ہم کئی کام کر سکتے ہیں، جیسے کہ باخبر رہیں، اپنے گھر میں بجلی اور پانی بچائیں اور ماحول دوست طریقۂ زندگی اپنائیں۔
یہ ایسا مسئلہ ہے جو پورے سیارے کو متاثر کر رہا ہے، اس لیے تمام انسانوں کو مل کر اس کا مقابلہ کرنا ہو گا۔