تحقیقات: راولپنڈی کو ڈبونے والا سیلاب شہری منصوبہ بندی کی ناکامی کا نتیجہ تھا؟

شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی تحقیق سے وابستہ ماہر مریم نوید کا کہنا ہے کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں ہاؤسنگ سوسائٹیز منافع کمانے کی دوڑ میں شہری منصوبہ بندی کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر رہی ہیں۔

راولپنڈی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس نے اربن فلڈنگ کے تناظر میں شہر کے مختلف علاقوں اور نالہ لئی میں ’حفاظتی اقدامات‘ کیے تھے لیکن اس دعوے کے برعکس ڈیفینس ہاوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے علاقے سیلاب کی زد میں آئے جن سے اموات بھی ہوئی تھیں۔

ملک کے دیگر حصوں کی طرح مون سون کے چوتھے اور حالیہ سپیل کے دوران اسلام آباد، راولپنڈی اور گرد و نواح میں سیلابی صورت حال کے باعث نشیبی علاقے زیر آب آئے تھے۔

اسلام آباد میں واقع دیہی علاقے سیدپور اور راولپنڈی میں ڈیفینس ہاوسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے علاقے زیادہ بظاہر متاثر ہوئے تھے۔

ڈی ایچ اے کو راولپنڈی کی بظاہر ایک پوش ہاؤسنگ سوسائٹی سمجھا جاتا ہے لیکن موسلا دھار بارشوں کے دوران یہ وہ سوسائٹی تھی جس کے مختلف علاقے زیر آب آئے، جس سے اس کے متعدد رہائشیوں کا جانی و مالی نقصان ہوا۔ ایک واقعے میں سیلاب کے باعث باپ بیٹی جان کھو بیٹھے۔

ڈی ایچ اے کے رہائشی عبیداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ حالیہ بارشوں کی وجہ سے ان کے مکانوں میں اتنا پانی آ گیا کہ وہ باہر بھی نہیں نکل سکے۔

’ہمیں خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں بارشوں میں مزید پانی آ سکتا ہے اور مجھے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ اربن پلاننگ کیسے ہوئی؟ دریا سواں کے کنارے اور بھی نجی ہاوسنگ سوسائٹیز ہیں لیکن پانی یہاں ہی آیا۔‘

عبید اللہ نے کہا کہ ’اس لیے ہمیں ڈر ہے کہ اگر دوبارہ بارش ہوئی تو دوسرے لوگوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ لیکن ہم نہ اپنے گھروں میں محفوظ ہیں اور نہ ہی ہم چوڑی سڑکوں پر محفوظ ہیں۔‘

رہائشی سوسائٹیز کو بنانے سے قبل دی جانے والی منظوری کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کن حالات میں ڈی ایچ اے یا کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کی اربن پلاننگ کی منظوری دی جاتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی ریائشی کی ان شکایات پر انڈپینڈنٹ اردو نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ندی نالوں کے اطراف میں بنائی گئی رہائشی سوسائٹیز کی اربن پلاننگ کیسے کی جاتی ہے؟ اور کیا ان کو بنانے میں تمام اصولوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے؟

اس حوالے سے شہری منصوبہ بندی اور ماحولیاتی تحقیق سے وابستہ ماہر مریم نوید کا کہنا ہے کہ اسلام آباد، راولپنڈی اور دیگر شہروں میں ہاؤسنگ سوسائٹیز منافع کمانے کی دوڑ میں منصوبہ بندی کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کر رہی ہیں۔

انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ ترقیاتی ماڈل دراصل ’پرافٹ میکسیمائزیشن‘ یعنی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے پر مبنی ہے جہاں زمین کا ہر انچ یا تو بیچا جا رہا ہے یا اس پر کوئی کمرشل ڈھانچہ کھڑا کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس ماڈل کا سب سے بڑا نقصان ’اوور کانکریٹائزیشن‘ یعنی زمین کو ضرورت سے زیادہ پکا کر دینا ہے۔

’برساتی نالے اور قدرتی آبی گزرگاہیں کنکریٹ سے گھیر دی گئی ہیں۔ ان کے اردگرد دیواریں اور پل بنائے جا رہے ہیں تاکہ زمین کو کمرشل استعمال میں لایا جا سکے۔‘

مریم نے کہا ’ان قدرتی گزرگاہوں کو سنبھالنے کے لیے گرین بفر زونز کی اشد ضرورت ہوتی ہے تاکہ زیادہ بارش کے دنوں میں پانی محفوظ طریقے سے نکل سکے۔ یہ گرین انفراسٹرکچر ان نجی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں انتہائی کم ہے۔‘

ماحولیاتی تحقیق سے وابستہ ماہر نے حالیہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ایک واقعہ سامنے آیا جہاں کچھ افراد کی موت ہوئی، کیوں کہ ڈی ایچ اے یا متعلقہ سوسائٹی نے اربن پلاننگ کے بنیادی اصولوں کو مدنظر نہیں رکھا۔‘

عوامی شکایات اور ماہرین کی رائے پر انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنرز سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

بعد ازاں اسسٹنٹ کمشنر راولپنڈی حاکم خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ’اربن فلڈنگ کے تناظر میں کیے گئے اقدامات‘ کے متعلق کہا کہ ’خاص طور پر راولپنڈی، نالہ لئی اور گردو نواح میں، ہم نے ان علاقوں کی منصوبہ بندی کی تھی جو متاثر ہو سکتے تھے۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہاں ’اپنی ٹیموں کو مناسب طریقے سے تعینات کیا گیا‘ تاکہ صورت حال کے بارے میں پہلے سے معلوم ہو۔ مثال کے طور پر نالہ لئی میں 16 کمزور پوائنٹس ہیں جہاں پانی کی بہتات ہونے پر نالہ لئی متاثر ہو سکتا ہے۔‘

حاکم خان کے مطابق: ’جہاں تک دریا سواں کا تعلق ہے، ہم نے محکمہ آبپاشی سے بات کر کے ان مقامات کی نشاندہی کی جہاں پر علاقے میں سیلاب کا خطرہ تھا۔‘

جب اسسٹنٹ کمشنر راولپنڈی سے پوچھا گیا کہ کسی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کو کن شرائط کے تحت منظوری دی جاتی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی سوسائٹی جس کا علاقہ فلڈ پلینز ایکٹ کے تحت آتا ہے اسے محکمہ آبپاشی کی طرف سے مناسب طریقے سے مطلع کیا جاتا ہے کہ سیلاب یا بہت زیادہ بارش ہونے کی صورت میں ان علاقوں کو متاثر نہیں ہونا چاہیے۔‘

اس حوالے سے ڈی ایچ اے کے عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’یہ قدرتی آفات ہیں جن سے نمٹنے کے لیے ادارے کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ انہوں نے ’اربن پلاننگ‘ سے متعلق جواب نہیں دیا۔

اسسٹنٹ کمشنر اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ کسی بھی معاشرے یا کسی بھی ترقیاتی منصوبے میں مناسب سیلاب یا بارش یا دیگر قدرتی عناصر دیکھے جاتے ہیں اور پھر ان کی منظوری دی جاتی ہے۔

اس کے برعکس ڈی ایچ اے کے رہائشی عبیداللہ نے دعوی کیا تھا کہ حالیہ بارشوں میں ان کی رہائشی سکیم میں ’لینڈ سلائیڈنگ جیسی صورت حال بھی پیدا ہوئی، اس وجہ سے سڑک بھی بند کر دی گئی۔ پھر لوگوں نے متبادل راستے اختیار کیے کیونکہ وہاں سے گاڑی لے جانا بہت مشکل تھا۔‘

شہری منصوبہ بندی کی ماہر مریم نوید کے مطابق: ’ہم ایک مغربی ماڈل کو کاپی کر رہے ہیں، جیسے مغربی ممالک میں سب اربن ہاؤسنگ بنتی ہے، لیکن ہم اپنے قدرتی راستوں اور مقامی صورت حال کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا ڈی ایچ اے سمیت دیگر بڑی ہاؤسنگ سکیمز اربن پلاننگ کی بنیادی شرائط بھی پوری نہیں کر رہے۔

’پانی کے قدرتی بہاؤ کے لیے قدرتی گزرگاہیں اور گرین بفرز رکھنا ضروری ہے لیکن یہاں زمین کو کمپیکٹ کر کے صرف پلاٹ بنانے پر زور دیا جا رہا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کمپیکٹ کی گئی زمین بارش کے دوران پانی کے ساتھ بہہ جاتی ہے اور قدرتی طور پر پست زمین میں بیٹھنے لگتی ہے، جس سے شہری سیلاب کی شدت بڑھ جاتی ہے۔

’جب ہم ایسی زمین کو پکا کر کے پلاٹ میں بدل دیتے ہیں تو وہ بیٹھنے لگتی ہے اور سیلاب کا راستہ ہموار کرتی ہے۔‘

اسسٹنٹ کمشنر راولپنڈی حاکم خان کا کہنا ہے کہ ’ہم فلڈ پلین ایکٹ کے تحت ان علاقوں کی نشاندہی کر رہے ہیں جو دریا سواں کے نیچے آتے ہیں۔ ایکٹ کے تحت ہم ان علاقوں کا اعلان کریں گے جہاں مزید تعمیر ممکن نہیں ہوگی، جس کی وجہ سے مستقبل میں ایسا کوئی اثر نہیں پڑے گا، جیسا کہ آپ نے حال ہی میں دیکھا ہے۔‘

ماہرین کا اصرار ہے کہ بدلتی موسموں کی وجہ سے مستقبل میں شہری منصوبہ بندی کے اصولوں کو زیادہ سخت اور ان پر عمل درآمد کڑا کرنے کی ضرورت ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق