20 ماہ بعد اسرائیل کی غزہ جنگ دنیا کو دوراہے پر لے آئی!

غزہ کی جنگ دنیا میں کئی حوالوں سے اہمیت کے حامل مشرق وسطیٰ میں لڑی جانے کے باعث مزید دور رس ثابت ہونے کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔

ایک فلسطینی شخص 26 مئی 2025 کو اس سکول کی عمارت کے ملبے پر بیٹھا ہے جسے اسرائیل نے فضائی حملے میں نشانہ بنایا (اے ایف پی)

غزہ میں اسرائیل کی طویل ترین جنگ نے امریکہ و یورپ سمیت یورپی دنیا کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ جنگوں کی ماضی کی تاریخ بھی نئے امکانات، راستوں اور مختلف طور طریقوں کا مؤجب بنتی رہی ہیں۔

لیکن غزہ کی جنگ دنیا میں کئی حوالوں سے اہمیت کے حامل مشرق وسطیٰ میں لڑی جانے کے باعث مزید دور رس ثابت ہونے کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں۔ ممکن ہے یہ علامات عارضی ثابت ہوں۔ جیسا کہ بہت سے مبصرین یا دانشوروں کی رائے ہو سکتی ہے، لیکن اس امکان کو بھی مکمل نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ظاہری یا مجبوری سے سامنے آنے والی علامات ہی آنے والے دنوں کی پالیسیوں اور فیصلوں کا ہی نہیں نئے راستوں، اقدامات اور مفادات کا دیباچہ بھی بن جائیں۔

ان علامات کا مختصراً ذکر برطانیہ اور یورپی ممالک سے شروع کیا جا سکتا ہے اور صدر ٹرمپ کے حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ سے بھی اور امریکہ و یورپ میں سیاسی و سماجی سطح پر سوئے ہوئے شعور کی لی جانے والی انگڑائیوں سے بھی۔

اسی طرح مشرق وسطیٰ میں کسی قدر خاموشی اور دنیا میں نئے بنتے بگڑتے اتحادوں سے بھی، لیکن صفحات کی تنگ دامنی کے باعث یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ پہلو تشنہ رہ جائیں۔

پہلے صدر ٹرمپ کے دورہ سعودی عرب، امارات اور قطر کو لیتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت کی طرح اس بار بھی اپنے غیر ملکی دوروں کا آغاز سعودی عرب سے کیا۔

یقیناً یہ ان کے کسی مذہبی عقیدے یا عقیدت کی وجہ سے ہر گز نہیں تھا۔ اس کا تعلق بطور امریکی صدر نئے وژن اور امریکہ کے اندرونی حالات اور بیرونی چیلنجوں سے جڑا ہوا ہے۔

وہ کاروباری ہی نہیں سراپا کاروباری شخصیت ہیں، جو دولت کی اہمیت و افادیت کے سارے حوالوں سے خوب آگاہ اور شناور ہیں، اسی لیے انہوں نے امریکہ کے اندرونی اقتصادی حالات کے تناظر میں خود کو جنگیں چھیڑنے اور لڑنے والے صدر کے طور پر پیش کرنے کے بجائے جنگیں رکوانے والے صدر کی شناخت دینے کی ڈاکٹرائن پیش کی ہے اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ اس میں کامیاب ہونے کا تاثر پیدا کر سکیں۔

بلاشبہ روس اور یوکرین کی جنگ کے علاوہ غزہ میں اسرائیل کی جنگ بھی ان کے اہداف میں ہے کہ انہیں رکوانا ہے، جیسا کہ وہ قبل ازیں اعلان کر چکے ہیں۔ اپنی اس عدم حربی پالیسی کا ایک اشارہ ان کا نیٹو کے بارے میں سابق امریکی صدور سے ہٹا ہوا اندازِ فکر ہے۔

سعودی عرب آمد اور ان کا خیر مقدم یہ سب بھی ٹرمپ کے ذوق کے عین مطابق ’بزنس اوریئنٹڈ‘ تھا۔

سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے دفاعی تعلقات کے فروغ کے پہلو میں بھی واشنگٹن کے لیے تجارتی مفادات کا معاملہ اہم تر ہے۔ امارات اور قطر ہر جگہ ان کے دورے کا یہ پہلو غالب نظر آیا۔ 36 ٹریلین ڈالر کے قومی قرضوں کے بوجھ تلے دبے امریکہ کے صدر کی یہ سوچ فطری نظر آتی ہے۔

معاشی چیلنجوں میں اس قدر گھرا ہوا امریکہ کہ وہ اپنے عالمی ایجنڈے کے لیے ایک اہم تر ایجنٹ کا کام کرنے والے ادارے ’یو ایس ایڈ‘ کو بند کرنے پر مجبور ہے۔ صدر ٹرمپ نیٹو فورسز کے لیے اپنے حصے کا چندہ دینے کو اپنے عوام کے ٹیکسوں کی رقوم کے ساتھ زیادتی سمجھتے ہیں، ’امیگرینٹس‘ کے معاملے میں بدمزاجی کی حد تک چلے جانا بھی انہی معاشی وجوہات کے باعث ہے۔

صدر ٹرمپ کا دنیا بھر میں معدنیات اور زیر زمین وسائل کو سونگھتے پھرنے کی اپروچ کے ساتھ آگے بڑھنا امریکہ کی آنے والی ضرورتوں کا ہی ایک اظہار ہے۔

ایک اور پہلو جس کا صدر ٹرمپ کو امریکہ میں اور یورپی حکمرانوں کو اپنے ہاں شدت سے سامنا ہے، وہ غزہ میں اسرائیلی جنگ کے حوالے سے عوامی سطح پر جذبات و احساسات کا شدید تر ہو جانا ہے۔

ٹرمپ اور ان کے یورپی رفقاء سمجھتے ہیں کہ ان جذبات اور احساسات کو روندتے کچلتے چلے جانا اب شاید تواتر کے ساتھ ممکن نہیں رہا ہے۔ خود امریکہ اور یورپ کے اپنے ملکوں کے اندر ایسا ردعمل ابھر سکتا ہے کہ اسے سنبھالتے سنبھالتے معاشی بیڑہ غرق نہیں ہوتا تو ڈولنے کا خطرہ ضرور پیدا ہو سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح اگر اسرائیل کی اس طویل ترین جنگ کی آگ دھیرے دھیرے خطے کے دیگر حصوں میں براہ راست یا بالواسطہ اپنے اثرات دکھانے لگی تو امریکہ کے ’گیس سٹیشنوں‘ کی اس سرزمین یعنی مشرق وسطیٰ سے سرمایہ کاری کے امکانات برقرار رہ سکیں گے۔

خصوصاً ایسے وقت میں جب شام، یمن اور لبنان وغیرہ کی طویل خانہ جنگیاں ابھی زیادہ پرانی حقیقتیں نہ ہوں۔ کیا مشرق وسطیٰ کی مملکتیں غزہ میں آتش و آہن اور بارود کی شدت و حدت کے منفی اثرات کو روکنے میں ہمیشہ کامیاب رہ سکیں گی۔

اس بارے میں ٹرمپ کو حالیہ دورے میں لازماً گوش گزار کیا گیا ہو گا کہ وقت کہیں ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ وقت ہاتھ سے گیا تو پھر بہت کچھ ہاتھ سے جاتا رہے گا۔

لہذا امریکی صدر جس قدر بھی اسرائیل نواز رہنا چاہیں، اب ان کی کچھ تحدیدات آڑے آ سکتی ہیں کہ وہ سب سے پہلے امریکہ کے حامی ہیں، کسی اور ملک کے نہیں۔ آج کی دنیا کے بے رحم سفارتی اصول بھی اپنے مفادات پر ہر چیز قربان کر دینے کی تاریخ رکھتے ہیں۔

اس لیے ٹرمپ کے حالیہ دورہ مشرق وسطیٰ کے بعد غزہ میں اسرائیلی جنگ کے حوالے سے امریکہ کا دوراہے پر ہونا جلد واضح ہونا شروع ہو جائے گا۔

امریکہ کے لیے ایک بڑا چیلنج باہر کی دنیا میں ’برکس‘ کا اینٹ گارے کی سطح سے اوپر اٹھ کر ایک عمارت کی شکل اختیار کرتے چلے جانا ہے۔ چینی ٹیکنالوجی کا ’جے 10 سی‘ جنگی طیارے کے ذریعے تعارف انڈیا میں ’رافیل‘ کے مقابلے میں ایک نیا چیلنج ہے۔

ایران کے بارے میں ٹرمپ کی سوچ جنگی جنون کی طرف کم اور معاہدے کی طرف زیادہ بڑھتی نظر آنا بھی، اس سے جڑا ہوا معاملہ ہی سمجھا جانا چاہیے۔ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو کی بے چینی بھی بے وجہ نہیں۔ ایک تلخی لی ہوئی فون کال کی اطلاعات بھی اسرائیلی میڈیا نے رپورٹ کر دی ہیں کہ نیتن یاہو کی ٹرمپ کے ساتھ فون پر بات چیت خوشگوار نہیں رہی۔

برطانیہ، فرانس اور کینیڈا نے بھی اسرائیل کے ساتھ ساری جنگ میں جس قدر تعاون کیا ہے، اب ظاہر ہے انہیں اس تعاون کی ’بس‘ ہوتی نظر آ رہی ہے۔ بلاشبہ جلدی نتائج اخذ کرنا مناسب نہیں ہو سکتا، لیکن جو اشارے ہیں وہ کافی واضح اور برطانیہ و اسرائیل کے علاوہ فرانس اور اسرائیل کے حوالے سے بھی کافی تلخ اور ترش ہیں۔

’سب سے پہلے امریکہ‘ جیسی ڈاکٹرائن کے ہوتے ہوئے ان یورپی ممالک کے عوام بھی اپنی حکومتوں سے اسی طرح کے سوالات پوچھ سکتی ہیں کہ ہم کب تک اسرائیل کی دم کے ساتھ بندھے رہ کر اسی طرح بے توقیر ہونے کا عالمی سطح پر سامان کرتے رہیں گے۔

یورپی ممالک میں برطانیہ، فرانس اور کینیڈا کے علاوہ بھی شعور کی انگڑائیاں سفارتی داؤ بیچ کے موجودہ ڈھانچے کی ہڈیاں خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔ فرانس، برطانیہ سمیت دیگر کئی ملکوں میں انسانی بنیادوں پر سوچنے والے لوگوں کی بہرحال ایک معقول تعداد ہو سکتی ہے۔

اسی طرح عرب اور مسلم دنیا سے تعلق رکھنے والی آبادی بھی کافی بڑی تعداد میں ہے۔ ان پہلوؤں کو یورپ مکمل طور پر کب تک اَن دیکھا چھوڑ سکے گا۔ یہ سب لوگ فلسطینی بچوں اور عورتوں کی بہیمانہ خونریزی اور ان کو بھوک سے مارنے کی اسرائیلی حکمت عملی پر سخت غصے میں ہیں۔

برطانیہ اور اس کی کنزرویٹو پارٹی کی فلسطین و فلسطینیوں کے حوالے سے تاریخ پہلے ہی بدترین رہی ہے کہ اسی برطانیہ کے آرتھر بالفور نامی وزیر خارجہ نے 1917 میں اسرائیلی ریاست کی صورت فلسطینی سرزمین میں خںجر گھونپا تھا۔

اس لیے برطانیہ کو اس تاریخی زیادتی کا ازالہ کم از کم اس حد تک تو کرنا ہو گا کہ وہ خود کو جمہوریت کی ماں کے طور پر پیش کرنے میں شرمسار نہ ہو۔

وہ انسانی آزادیوں کی دعویداری میں بار بار جھوٹا پڑنے سے بچ جائے کہ اب بھی ایسا نہ کیا تو خود برطانیہ اور یورپی پٹی پر اندرونی کشمکش اور سماجی و سیاسی سطح کے تصادم کے ایسے مناظر نظر آنے کا احتمال ہے جو مقبوضہ مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس کے ردعمل کے نام پر ہو سکتے ہیں۔

اس لیے بڑی اور بااثر مملکتوں کو خواہ ان کا تعلق یورپ سے ہو یا یورپ سے باہر کے خطوں سے، تاریخ کے اس دوراہے پر بہتر اور درست فیصلہ کرنا ہو گا کہ اس سے ترقی و خوش حالی جڑی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی سلامتی و استحکام کے خواب دیکھے جا سکتے ہیں۔ ورنہ ہر جگہ غزہ نہیں تو غزہ کی راکھ سے بننے والا غازہ بہت سی خوبصورتیوں کو خراب کر سکتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر