امریکی وزیر خارجہ سات اکتوبر سے اب تک اپنے نویں دورے پر اسرائیل اور علاقے کے دوسرے ملکوں میں پہنچے ہوئے ہیں۔ ان کی حالیہ دنوں کی بےچینی اور اضطراب سے اب صاف لگنے لگا ہے کہ اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ اور اپنے اڑوس پڑوس پر بمباری و حملہ بازی اب امریکی جو بائیڈن انتظامیہ کو براہ راست اپنے اوپر بھی حملہ محسوس ہونے لگا ہے۔
یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے
اس حملے کی اس ’انڈرسٹینڈنگ‘ سے پہلے جس قدر زیادہ جاری رکھنا ضروری تھا اب اس سے کہیں زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے روکا جائے۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن اس موقعے کو آخری موقع قرار دے رہے ہیں۔
یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ پورے امریکہ کی اس وقت یہ بے چینی نہیں ہے۔ یہ بےچینی جو بائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹس کی اس وقت زیادہ ہے۔
ڈیموکریٹس کو اس کی شدت کی ضرورت اس وقت محسوس ہوئی جب اسرائیلی جنگ میں کھلی جنگی، فوجی، اسلحے اور سفارتی و سیاسی کے ساتھ ساتھ مالی معاونت پر خود امریکہ میں ردعمل شدید ہو گیا۔
اتفاق سے یہ صورت حال رواں سال کے ان لمحوں میں زیادہ محسوس کی گئی جب صدر جو بائیڈن کو اپنی دوسری صدارتی مدت کے لیے انتخابی مہم شروع کرتے ہوئے مختلف طبقوں کی طرف سے سخت مزاحمت اور مخالفت کی صورت حال ملنے لگی۔
ان طبقات میں امریکی سیاہ فام، عرب امریکن، امریکی مسلمان، خواتین، نوجوان، طلبہ ہی شامل نہیں تھے وہ ڈیموکریٹس اور ڈیموکریٹ ووٹرز بھی شامل تھے جن کے ہراول دستے کے طور پر کئی سفارت کار تک اسرائیل کے لیے اندھی حمایت کی پالیسی پر مستعفی ہو کر گھروں کو چلے گئے تھے۔
جو بائیڈن انتظامیہ کو سفارت کاروں اور بعض دیگر حکام کے ان استعفوں کا سامنا چونکہ ایک درجن سے کم تعداد میں تھا اس لیے اس سے معاملے کی شدت کا احساس کرنے میں جو بائیڈن اور ان کی نائب کملا ہیرس کو کافی دیر لگ گئی لیکن جب شدت محسوس ہوئی تو گویا دوڑیں لگ گئیں۔
نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ جو بائیڈن کا بطور صدارتی امیدوار میدان میں رہنا ممکن نہ رہا۔ یہ بہت کم لوگ جان اور سمجھ سکے ہیں کہ جو بائیڈن کی جگہ کملا ہیرس کو آگے لانے کی حقیقی وجہ جو بائیڈن کا ’بڑھاپا‘ اور ’بھلکڑ پن‘ نہ تھا بلکہ اسرائیل نواز پالیسی اور غزہ میں انسانوں کا اندھا قتل عام ہی تھا، جس کے بعد امریکہ کے عام ووٹرز ہی نہیں ڈیموکریٹس بھی پھٹ پڑے تھے۔
مزید سمجھنے کے لیے کہ جو بائیڈن کی عمر اور ’بھلکڑ پن‘ یا صحت کے سارے ایشوز ڈیموکریٹس کے کافی عرصے سے علم میں تھے۔ یہ بات سب لوگ جانتے تھے۔ جو بائیڈن امریکہ کے دس عمر رسیدہ ترین صدور میں سے اب بھی غالباً سرفہرست ہیں۔
جبکہ دوسری بار صدر بننے کی صورت میں ان کی پیرانہ سالی اور زیادہ ہو جائے گی۔ لیکن اس کے باوجود وہ 21 جولائی سے پہلے تک باضابطہ صدارتی امیدوار تھے اور ماہ جون کے اواخر تک کوئی ایسا شور نہیں تھا۔
جب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مباحثے میں جو بائیڈن کی کارکردگی خراب رہی تو احساس ہوا کہ غزہ میں اسرائیلی جنگ کی مسلسل حمایت کے خلاف امریکہ میں پایا جانے والا ردعمل جو اب ڈیموکریٹس کے اندر تک گھس چکا ہے۔ ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کارکردگی کے ساتھ مل کر دو آتشہ ہو گیا تو ٹرمپ کو ایک بار پھر وائٹ ہاؤس پر براجمان ہونے سے روکنا غیر ممکن ہو جائے گا۔
امریکی صدر جو بائیڈن غزہ میں اسرائیلی جنگ کی اپنی صدارتی مہم اور اور صدارتی انتخاب پر حملے کی شدت کو محسوس کر چکے تھے۔
اسی وجہ سے انہوں نے ماہ جون سے بھی پہلے 31 مئی کو تین مراحل پر مشتمل اپنا مشہور زمانہ جنگ بندی فارمولا پیش کیا تھا۔ یہ ایک غیر معمولی ’یو ٹرن‘ تھا۔
اس سے قبل جو بائیڈن انتظامیہ تین بار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قراردادوں کو ویٹو کر چکی تھی، مگر اب خود صدر جو بائیڈن جنگ بندی فارمولا بنا کر پیش کر رہے تھے۔
صرف یہی نہیں 10 جون کو امریکی کوششوں سے سلامتی کونسل نے اس جنگ بندی فارمولے کی بنیاد پر جنگ بندی کی حمایت کردی۔ بلا شبہ یہ امریکی سفارتی کوشش کے بغیر ممکن نہ تھا۔
اگر آج اسے دیکھا جائے تو ایک دلچسپ حقیقت سامنے ہے کہ صدر جو بائیڈن جنہیں 2020 میں آٹھ کروڑ سے زائد امریکیوں نے 20 ووٹ دیے تھے سلامتی کونسل اور فلسطینی تحریک مزاحمت حماس کم از کم اس جنگ بندی کے حوالے سے ایک صفحے پر ہیں۔ گویا جس حماس کو ’دہشت گرد‘ کہنے کے باوجود امریکہ اور اسرائیل دونوں اس کے ساتھ مذاکرات بھی کر رہے ہیں۔
شاید اب مطالبہ کرنے والا ہو کہ جب امریکہ کے اکثریتی عوام، سلامتی کونسل، امریکی صدر اور حماس بھی ایک پیج پر آ چکے ہیں تو حماس کو ’دہشت گرد‘ قرار دینے کا معاملہ کیونکر باقی رکھا جا سکتا ہے۔
حماس بھی تو حالیہ دنوں ہونے والے مذاکرات سے پہلے، مذاکرات کے دوران اور بعد ازاں یہی کہہ رہی ہے کہ جنگ بندی ہونی چاہیے مگر تین کلیدی نکات کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔
اول یہ کہ جو بائیڈن فارمولہ آنے کے بعد دو جولائی کو حماس، اسرائیل اور امریکہ سب جنگ بندی معاہدے پر اتفاق کر چکے ہیں، اس لیے 15 اگست کے مذاکرات اسی متفق علیہ مسودے سے آگے بڑھنے چاہیں تھے۔
ثانیاً یہ کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے پیش کردہ فارمولے کو چونکہ پہلے حماس اور اسرائیل نے قبول کر لیا ہے اور اس پر اتفاق کرتے ہوئے دو جولائی کو معاملات طے ہوئے تھے تو انہیں اب راستے میں چھوڑ کر نئی تجاویز کا پنڈورا باکس نہ کھولا جائے۔
ثالثاً یہ کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 10 جون کو جو قرارداد منظور کی تھی اسے نتن یاہو اور ان کے ساتھیوں کی وجہ سے نظر انداز نہ کیا جائے۔
لیکن نتن یاہو اور ان کا بھیجا گیا وفد ماضی کی طرح ایک بار پھر نئی تجاویز کے ساتھ تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل کی حکمت عملی مذاکرات شروع ہوتے ہی زیادہ شدید بمباری اور زیادہ اموات کا اہتمام کرنا رہی ہے۔ وہیں اس کی حکمت عملی کا یہ پہلو بھی جنگ بندی مذاکرات کی ایک نشست کے لیے ایک وفد بھیجا تو اگلی نشست کے لیے نئے وفد کی تشکیل کر دی، تاکہ بات پھر سے صفر سے شروع کرنے کا موقع بنتا رہے۔
یہ سب امریکہ کو قبول اور پسند رہا ہے۔ مگر اب معاملہ یہ ہے کہ امریکہ کے صدارتی انتخاب میں جب صرف اڑھائی ماہ باقی ہیں تو جو بائیڈن انتظامیہ اور ڈیموکریٹس کے لیے مزید ’رسک‘ لینے کا کوئی موقع باقی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا اینٹنی بلنکن پوری شرح صدر اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے جنگ بندی کے اس موقعے کو آخری موقع قرار دے رہے ہیں۔
اسرائیلی صدر اضحاک ہرتصوغ کے ساتھ ان کی پیر کے روز کی ملاقات میں ان کے چہرے کے سارے تاثرات یہی چغلی کھا رہے تھے۔
ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کملا ہیرس کے پاس الیکشن میں جو چیزیں عوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے اہم ترین ہیں ان کی فہرست زیادہ طویل نہیں ہے۔ ایک کامیابی تو حاصل کرلی گئی کہ اسرائیلی جنگ میں اسرائیلی قیادت سے زیادہ اہم کردار ادا کرنے والے جو بائیڈن کو پیچھے کر دیا گیا ہے۔
لیکن اس کے باوجود ڈیمو کریٹ ووٹروں، سیاہ فام ووٹروں، عرب ووٹروں، مسلمان ووٹروں، خواتین ووٹروں اور طلبہ برادری کو الیکشن سے پہلے یہ باور کرانا ضروری ہے کہ جو بائیڈن انتظامیہ غزہ میں جنگ بندی کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔
بلاشبہ جنگ بندی کی ایسی کسی کامیابی کے بغیر 40 ہزار فلسطینیوں کی کٹی پھٹی لاشوں کے ساتھ کملا ہیرس بھی الیکشن جیتنے میں بڑی مشکلات محسوس کریں گی کہ ان 40 ہزار لاشوں میں بچوں اور عورتوں کی لاشوں کے ٹکڑے اور چھیتڑے زیادہ ہیں۔
اس لیے صرف یہ دعویٰ کہ وہ ایک عورت ہیں اور سفید فام بھی نہیں قبولیت پانے کے لیے کافی نہیں ہوگا۔ علاوہ ازیں لاکھوں ’ان کمٹڈ‘ ووٹرز بھی شکاگو میں ہزاروں مظاہرین کے ساتھ شامل تھے اور کملا ہیرس کو ’بمبالا ہیرس‘ کے نام سے یاد کر رہے تھے۔ یہ مظاہرین نسل کشی بند کرانے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے اور نسل کشی میں امریکی شراکت داری روکنے کی بات بھی کر رہے تھے۔
کملا ہیرس کی انتخابی مہم کے اس مرحلے پر ایک مشکل یہ ہے کہ اس موقع پر امریکی مظاہرین کو ’یہود مخالف‘ کا الزام لگا کر بھی اطمینان سے نہیں بٹھایا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش کی ایک خاتون وزیراعظم حسینہ واجد ایسا ہی الزام ’رضا کار‘ لگا کر اب بھارت میں چھپی بیٹھی ہیں ۔
عوامی مطالبات کو نظر انداز کرنے کے لیے الٹا ان پر الزام جڑ دینا ہر وقت کسی حکمران کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ خصوصاً جب سوشل میڈیا کا ہتھیار بھی عوام کے ہاتھ میں ہے۔ جس کے ذریعے بنگلہ دیش میں عوام بیک زباں ہو کر کہنے لگے ہاں ہم رضاکار ہیں۔
کملا ہیرس اور جو بائیڈن انتظامیہ کے لیے غزہ جنگ بندی معاہدے کی اہمیت اس تناظر میں اور بھی زیادہ ہے کہ اس میں ایک سو سے زائد اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا معاملہ بھی شامل ہے۔
ابھی ایک روز قبل ہی 79 سالہ یرغمالی غزہ میں ہلاک ہوا ہے۔ جو بائیڈن فارمولے کے تحت اگر معاہدہ نہیں ہوتا تو امریکہ میں بہت سے یہودی ووٹر ڈونلڈ ٹرمپ کی باتوں میں آ سکتے ہیں۔ یوں غزہ کے حوالے سے معاہدے کا ہونا کملا ہیرس کی انتخابی ضرورت سے زیادہ مجبوری بن چکا ہے۔
اگر بلنکن خلائی فاصلے کو کم کرنے کی مہم سے کامیاب لوٹتے ہیں تو ٹرمپ کو نیچے کی طرف جمپ کرنے پر مجبور کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔ بصورت دیگر 21 جولائی سے 21 اگست تک کملا ہیرس کی ایک ماہ کی مہم کے دوران جو بہتری کی علامات ہیں یہ اگلے اڑھائی ماہ میں تحلیل بھی ہو سکتی ہیں۔
التابعین سکول میں 100 سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت کا بھی کملا ہیرس کو امریکہ میں جواب دینا پڑا ہے کہ امریکی مظاہرین ہر جگہ پہنچ رہے ہیں جیسا کہ ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن میں بھی پہنچے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اسرائیلی فوج جو بلاشبہ سب سے زیادہ امریکی اسلحے سے ہی لیس ہے کیا غزہ کے سکولوں، ہسپتالوں اور پناہ گزین کیمپوں پر حملے کر کے بچوں اور عورتوں کی لاشوں کے چیتھڑوں کے ساتھ امریکہ کے صدارتی الیکشن اور بطور خاص ڈیموکریٹس کے صدارتی انتخاب پر حملہ آور نہیں ہو گی؟
آخر نتن یاہو اور ان کے انتہا پسند ساتھیوں ایتمار بین گویر اور بذالیل سموٹریچ کو بھی اسی غزہ کی جنگ سے اپنا اگلا الیکشن جیتنے کا سامان کرنا ہے۔ اسی مقصد کے لیے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کو انہوں نے اب تک پس پشت ڈال رکھا ہے تو وہ کیوں مغربی کنارے اور اقصیٰ پر یہودی آبادکاروں کی قیادت کرتے ہوئے غزہ کے ملبے اور بھوکے ننگے قحط زدہ فلسطینیوں کو تاراج کرنے کے سلسلے میں کمی لائیں گے۔
گویا غزہ کے فلسطینی بچوں اور عورتوں کی لاشوں پر اقتدار کے محل تعمیر کرنے میں ہر کوئی لگا ہوا ہے۔ سنا ہے کہ ابو مازن بھی غزہ جنگ کے گیارہویں مہینے میں اظہار یکجہتی کے لیے غزہ میں اپنی شاہی سواری پر آنے والے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔