ڈبلیو ڈبلیو ای کی تاریخ کے بڑے ناموں میں سے ایک جان سینا 13 دسمبر 2025 کو واشنگٹن ڈی سی میں اپنے کیریئر کی آخری کشتی لڑنے جا رہے ہیں۔ یہ صرف ایک پہلوان کی ریٹائرمنٹ نہیں بلکہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے کروڑوں مداحوں کے لیے ایک عہد کا خاتمہ ہے۔
اگر آپ 2000 کی دہائی میں پاکستان میں پلے بڑھے ہیں، تو یہ ناممکن ہے کہ آپ ’جان سینا‘ کے نام سے واقف نہ ہوں۔ چاہے وہ سکول کے بستوں پر بنی تصاویر ہوں، عید کے موقعے پر بچوں کا ایک دوسرے کو ’ایٹیٹیوڈ ایڈجسٹمنٹ‘ (AA) لگانے کی کوشش کرنا ہو، یا پھر کرکٹ کے میدان میں وکٹ لینے کے بعد ہاتھ چہرے کے آگے لہرا کر ’یو کانٹ سی می‘ (You Can’t See Me) کا نعرہ لگانا ہو، جان سینا پاکستانی پاپ کلچر کا ایک غیر اعلانیہ حصہ رہے ہیں۔
ہفتے کو وہ اپنے کیریئر کا آخری میچ پہلوان گنتھر کے خلاف لڑیں گے، جس کے بعد ریسلنگ کی دنیا کا یہ روشن ستارہ ہمیشہ کے لیے رِنگ سے دوری اختیار کر لے گا۔
غنڈوں سے پٹنے والے بچے سے باڈی بلڈر تک
جان سینا کی کہانی صرف کامیابی کی نہیں بلکہ سخت محنت اور کبھی ہار نہ ماننے کی ایک کلاسک مثال ہے۔ 23 اپریل 1977 کو امریکی ریاست میساچوسٹس میں پیدا ہونے والے جان سینا پانچ بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ بچپن میں وہ کمزور تھے اور سکول میں اکثر انہیں دوسرے بچوں کے ہاتھوں پٹنا پڑتا تھا۔
12 سال کی عمر میں ایک بار پھر تنگ کیے جانے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مزید کمزور نہیں رہیں گے۔ کرسمس پر انہوں نے اپنے والدین سے کھلونوں کی بجائے ویٹ لفٹنگ بینچ کی فرمائش کی۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ان کی زندگی کا رخ بدل ڈالا۔ ہائی سکول ختم کرنے تک وہ ایک مضبوط باڈی بلڈر بن چکے تھے۔
بعد ازاں انہوں نے امریکی فٹ بال کھیلنا شروع کیا، جہاں ان کی شرٹ کا نمبر 54 تھا۔ یہ وہی نمبر ہے جو بعد میں ان کی ڈبلیو ڈبلیو ای کی ٹی شرٹس اور مرچنڈائز پر اکثر نظر آیا۔
ٹوائلٹ کی صفائی اور گاڑی میں نیند
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کالج کے بعد جان سینا باڈی بلڈر بننے کا خواب لے کر کیلیفورنیا کے شہر وینس بیچ منتقل ہو گئے۔ یہ ان کی زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ ان کی جیب میں صرف چند ڈالر تھے اور گزارے کے لیے انہوں نے وہاں کے ایک مشہور جِم میں ملازمت اختیار کی، جہاں ان کا کام تولیے تہہ کرنا اور ٹوائلٹ صاف کرنا تھا۔
حالات اتنے سخت تھے کہ وہ کرایہ ادا کرنے کے قابل نہیں تھے اور ایک طویل عرصے تک اپنی 1991 ماڈل کی کار کی پچھلی سیٹ پر سوتے رہے۔ لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی اور 1999 میں ریسلنگ کی تربیت شروع کی، جہاں سے ڈبلیو ڈبلیو ای نے انہیں منتخب کر لیا۔
وہ ڈیبیو جس نے تاریخ بدل دی
27 جون 2002 کو جان سینا کو سمیک ڈاؤن میں اپنا پہلا بڑا موقع ملا۔ جب اولمپک گولڈ میڈلسٹ کرٹ اینگل نے رنگ میں کھڑے ہو کر چیلنج کیا، تو ایک انجان نوجوان سٹیج پر آیا۔ جب اینگل نے پوچھا کہ ان میں ایسی کیا خاص بات ہے، تو جان سینا نے مشہور جملہ کہا: ’روتھ لیس ایگریشن‘ (بے رحمانہ جارحیت) اور اینگل کو تھپڑ رسید کر دیا۔ اگرچہ سینا وہ میچ ہار گئے، لیکن بیک سٹیج پر انڈرٹیکر جیسے لیجنڈز نے ان کی تعریف کی اور یوں ریسلنگ کی دنیا میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
اگلی دو دہائیوں میں وہ 17 بار عالمی چیمپیئن بنے، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ انہوں نے ڈبلیو ڈبلیو ای کو اس وقت سہارا دیا جب ’دی راک‘ اور ’سٹون کولڈ‘ جیسے ستارے اسے چھوڑ کر جا رہے تھے۔
پاکستان سے گہرا تعلق
اگرچہ جان سینا کبھی پاکستان نہیں آئے، لیکن یہاں ان کی فین فالونگ بےحد جذباتی رہی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ 2020 میں پشاور کے اسلامیہ کالج کی ایک میرٹ لسٹ سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تھی، جس میں ساتویں نمبر پر ’جان سینا‘ کا نام درج تھا اور ولدیت میں ’دی انڈرٹیکر‘ لکھا گیا تھا۔ یہ اگرچہ ایک شرارت تھی، لیکن اس نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی نوجوانوں کے ذہنوں پر ڈبلیو ڈبلیو ای کے کردار کس قدر سوار ہیں۔
رواں سال جنوری میں پاکستانی سپنر ساجد خان نے ویسٹ انڈیز کے خلاف میچ میں وکٹ لینے کے بعد جان سینا کے مخصوص انداز میں ’یو کانٹ سی می‘ کا اشارہ کیا، جس کی ویڈیو خود جان سینا تک پہنچی اور عالمی میڈیا کی زینت بنی۔
Sajid Khan to Warrican #PAKvWI | #RedBallRumble pic.twitter.com/r1RX5XUAxy
— Pakistan Cricket (@TheRealPCB) January 26, 2025
آخری الوداع
آج جب وہ واشنگٹن کے رنگ میں اتریں گے، تو پاکستان میں بیٹھے ہزاروں مداح اپنی سکرینوں پر نظریں جمائے ہوں گے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ صرف ایک میچ نہیں ہو گا، بلکہ ان کے بچپن کی ایک یادگار رخصت ہو رہی ہوگی۔
چاہے وہ جیتیں یا ہاریں، جان سینا کا یہ جملہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا: ’آپ مجھے دیکھ نہیں سکتے۔‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا انہیں کبھی بھلا نہیں سکے گی۔
