ٹرمپ کا دورۂ خلیج: خطے کی تاریخ کا سنگِ میل

تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی امریکی صدر مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کرے اور اسرائیل نہ جائے۔

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے 14 مئی 2025 کو ریاض میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شام کے عبوری صدر احمد الشرع ملاقات کی (سعودی پریس ایجنسی)

دنیا کی سب سے بڑی معیشت، سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے درمیان سٹریٹجک شراکت داری۔ مختلف شعبوں میں سیکڑوں ارب ڈالر کی معاہدات، خلائی تحقیق، مصنوعی ذہانت، دفاعی صنعت، برقی گاڑیوں، تجارتی طیاروں، ایٹمی تعاون اور دیگر شعبے۔

یہ ہے سعودی امریکی سربراہی اجلاس کی سرخی، جس کے بعد خلیجی امریکی سربراہی اجلاس اور ایک چہار فریقی ملاقات ہوئی، جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، شامی صدر احمد الشرع اور ترک صدر رجب طیب اردوغان (فون کے ذریعے) شریک ہوئے۔ اس پوری سفارتی سرگرمی کی میزبانی اور انجنیئیرنگ سعودی ولی عہد اور وزیراعظم شہزادہ محمد بن سلمان نے کی۔ اس کے بعد امریکی صدر نے قطر اور متحدہ عرب امارات کا بھی دورہ کیا۔

ان معاہدات کی تفصیل اور ان کے اربوں ڈالر کے اعداد و شمار مختلف میڈیا اداروں اور ویب سائٹس پر دیکھی جا سکتی ہے، لیکن اصل اہمیت ان تاریخی اجلاسوں اور امریکی خلیجی دورے کے پس پردہ مقاصد اور اثرات کی ہے۔ ہم یہاں چند اہم نکات کا خلاصہ پیش کرتے ہیں:

اوّل: یہ اجلاس اس بات کا مظہر ہے کہ عرب محور نے ایران نواز محور کو لبنان اور شام میں شکست دینے کے بعد، اور یمن میں اس کے حلیف حوثیوں کو ضرب لگانے کے بعد ایک بڑی سفارتی کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال شامی صدر احمد الشرع کی ریاض میں امریکی صدر سے ملاقات ہے، جو ٹرمپ کی جانب سے شام پر عائد پابندیاں اٹھانے کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہوئی۔ یہ عرب محور کی ایک بڑی سٹریٹیجک جیت تھی۔

دوم: اس سربراہی اجلاس نے خلیجی ممالک اور خاص طور پر سعودی عرب کی عالمی سٹریٹیجک اہمیت کو مزید مستحکم کیا۔ اس سے نہ صرف علاقائی سطح پر بلکہ عالمی سطح پر بھی سعودی عرب ایک مرکزی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا، اور خلیجی ممالک کو دنیا کی جدید ترین معیشت اور ٹیکنالوجی کے ساتھ شراکت داری کا موقع فراہم ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوم: ہم نے پہلی بار ایک امریکی صدر کی زبان سے ایسا خطاب سنا جس میں خلیجی ممالک کی تعمیر و ترقی کو سراہا گیا، اور انہیں ایک کامیاب ماڈل قرار دیا گیا۔ اپنی طویل تقریر میں امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ ان سے پہلے کی امریکی حکومتوں کی جنگوں (چاہے وہ لبرل ہوں یا قدامت پسند) نے بغداد اور کابل جیسے شہروں کو تباہ کیا، اور اربوں ڈالر اور انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ انہوں نے تعمیر و ترقی کے خلیجی ماڈل کو سراہتے ہوئے اسے باہمی شراکت داری کا بہترین نمونہ قرار دیا۔

یہ ایک انوکھا خطاب تھا۔ ایک ایسے امریکی صدر کی سوچ کا مظہر، جو جنگوں کے بجائے تجارت کو ترجیح دیتا ہے۔ جس نے اپنی پہلی مدت صدارت میں کوئی جنگ شروع نہیں کی، اور نہ ہی دنیا کے کسی ملک کے خلاف جنگی ارادہ رکھتا ہے۔ ایسے خیالات گذشتہ تین دہائیوں سے جنگی معیشت پر پلنے والے پینٹاگون اور جنگی سوداگر حلقوں کے خلاف ایک خاموش بغاوت ہیں، جن کا بجٹ دس کھرب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے اور جو بلاوجہ تباہ کن جنگوں سے منافع کماتے ہیں۔

چہارم: اس دورے نے اسرائیل کی خطے اور عالمی سطح پر تنہائی مزید بڑھا دی۔ تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی امریکی صدر مشرقِ وسطیٰ کا دورہ کرے اور اسرائیل نہ جائے۔ 2017 میں ٹرمپ نے ریاض کے بعد براہِ راست تل ابیب کا سفر کیا تھا، مگر اس بار اسرائیل ان کے دورے کے شیڈول میں اسرائیل کا سفر شامل نہیں تھا۔

یہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کی خونریز اور نسل کش پالیسیوں کے نتیجے میں امریکہ اسرائیل تعلقات میں پڑنے والی دراڑ کا واضح اشارہ ہے۔

یہ تمام نتائج محض معاہدات تک محدود نہیں، بلکہ ان کا تعلق اس عرب اور خلیجی عزم سے ہے جس نے بھرپور منصوبہ بندی اور سیاسی بصیرت کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ اور امریکہ کو علاقے اور اس کے عوام کے حق میں استعمال کیا۔

بشکریہ انڈپینڈنٹ عربیہ۔ 

اس تحریر کے مصنف کویت کے سابق وزیرِ اطلاعات رہ چکے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر