کراچی کا طائرانہ جائزہ لیں تو یہاں حد نگاہ تک سبزہ ناپید ہے. مگر پھر بھی اس شہرِ بےحد کو دیکھیں تو جنگل کا منظر نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ ہرے بھرے جنگلات کے برعکس کراچی خشک، بد رنگ اور رعنائی سے کوسوں دور کنکریٹ کا جنگل بن گیا ہے۔
کراچی کے اس جنگل میں درختوں کی جگہ اونچی عمارتیں اگ گئی ہیں۔ جنگلی بوٹی کی طرح ہر جانب کچے پکے دو دو، چار چار منزلہ مکانوں کا جالہ سا بنا ہوا ہے۔ چنگچی رکشے اور بائیکیں حشرات الارض کی مانند یہاں وہاں کلبلاتے پھرتے ہیں۔ یہاں ٹھیلوں اور پتھاروں کی افزائش ایسے ہے جیسے بارش میں نکلی خود رو کھمبیاں۔ لیکن افسوس جنگل کے رہائشیوں کو تو آزاد فضا میں سانس نصیب ہے لیکن کراچی کے لوگ کنکریٹ کے اس جنگل میں کھڑی عمارتوں کے ڈربوں اور پنجروں میں قید ہیں۔ کراچی والے ان پنجروں کو فلیٹ یا اپارٹمنٹ کہتے ہیں۔
کبوتر کا ڈربہ کبوتر کے سائز کے حساب سے بنتا ہے کہ اسے اپنے پنجرے میں یہاں وہاں پھرنے کا موقع مل سکے۔ لیکن کراچی کے رہائشی جن عمارتوں میں رہنے پہ مجبور ہیں وہ انسانی بود و باش کے حساب سے بنائی ہی نہیں گئیں۔
جیسے جیسے شہر اونچائی کی جانب پھیل رہا ہے، شہری سہولیات اور معیار زندگی سمٹتا جا رہا ہے۔ سیدھی بات ہے کہ یہاں معیار زندگی پہلے بھی کوئی ہائی فائی نہ تھا۔ رات کے اندھیرے میں کراچی کی سکائی لائن پہ جگ مگاتی بلند و بالا عمارتیں نظر کا دھوکہ ثابت ہوتی ہیں, جب دن کے اجالے میں ان عمارتوں کا جائزہ لیں۔
مگر اصل مسئلہ صرف بے ہنگم، بے ڈھنگی، بد صورت تعمیرات نہیں، بلکہ وہ خطرات ہیں جو اس بدنظم شہری منصوبہ بندی کے باعث موجود ہیں۔ عمارتوں کے بنیادی ڈھانچے میں خامیاں، بغیر منصوبہ بندی کے تجارتی تبدیلیاں، اور سب سے بڑھ کر، فائر سیفٹی کا فقدان وہ مسائل ہیں جو سامنے ہیں۔ مگر درجنوں مسائل وہ ہیں جن کا سامنا روزانہ رہائشی کرتے ہیں۔
کراچی شہر کے شہریوں کی کم بختی جاننے کے لیے اربن لیونگ کا ریسرچ سروے ہی کرا لیا جائے تو جواب مل جائیں گے۔
میں آپ سے ایک صدی قدیم نیپیئر روڈ یا بولٹن مارکیٹ کی مخدوش عمارتوں کا نہیں کہتی۔ آپ رام سوامی، لیاری، گارڈن، گلشن اقبال، گلستان جوہر یا اولڈ سٹی کے علاقوں میں 80 اور 90 کی دہائی یا اس کے بعد بنی کسی بھی عمارت میں چلیں جائیں۔ ان عمارتوں کی دیواریں سیم لگنے سے جھڑ رہی ہیں، بنیادوں کا سریہ یہاں وہاں سے جھانک رہا ہے، سیڑھیاں بجلی کے تاروں کے گچھوں میں چھپی ہوئی ہیں اور سیوریج کی نالیاں گل چکی ہیں۔ یہاں پانی نہیں آتا، ٹینکر کا پانی پینے کے قابل نہیں ہوتا۔ سوئی گیس کی لائنوں میں پریشر پمپ لگے ہیں یوں گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی زندگی کا حصہ ہے۔
سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈیننس 1979 کے تعمیراتی قوانین کو 2002 میں تبدیلیوں کے بعد دوبارہ لاگو کیا گیا۔ آپ یہ آرڈیننس پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ چاہے مکان ایک منزلہ بنانا ہو یا 35 منزلہ عمارت کراچی میں تعمیرات کے لیے سخت قوانین اور کئی ماہرین کے چیک رکھے گئے ہیں۔ ان میں بلڈنگ سپروائزر، آرکیٹیکٹ، بلڈنگ ڈیزائنر، سول انجینئر، سٹرکچر انجینیئر، پروف انجینیئر اور ٹاؤن پلانر شامل ہیں۔
لیکن یہ صرف کاغذی نقشے بازی ہے۔ شہر میں جگہ جگہ غیر قانونی تعمیرات، زمین کا ناجائزاستعمال، رہائشی عمارتوں کے کمرشل استعمال، تعمیرات میں مجرمانہ غفلت عام ہیں۔ گذشتہ برس ہونے والی نیشنل فائر سیفٹی کانفرنس میں ماہرین نے اعتراف کیا تھا کہ کراچی کی 70 فیصد رہائشی، تجارتی اور صنعتی عمارتوں میں فائر سیفٹی سسٹمز اور ہنگامی راستوں کا کوئی انتظام نہیں۔ یہ اس شہر میں ہو رہا ہے جہاں حالیہ برسوں میں ہر سال اوسطاً دو سے تین ہزار بار آگ لگنے کے واقعات ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سمندر کنارے آباد کراچی شہر میں شام کے وقت سمندر کی خنک ہوا کا چلنا قدرتی ہے۔ لیکن جب ایک کے منہ پہ دوسری عمارت کھڑی ہو گی، کھڑکیوں، بالکونی اور ٹیرس کا نظارہ دوسری بلڈنگ کی دیوار ہو گی تو ہوا بیچاری کہاں سے داخل ہو سکے گی۔
صرف فیڈرل بی ایریا کی تنگ گلیوں میں چلیں جائیں، جس علاقے کو 120 گز کے ایک اور دو منزلہ مکانوں کے لیے بنایا گیا تھا اب وہاں چار اور پانچ منزلہ عمارتیں کھڑی ہیں۔ پارکنگ کا کوئی سرے سے وجود نہیں۔ پانی کی لائنیں جس ایک گھر کے لیے ڈالی گئی تھیں اب ان کی جگہ پانچ، چھ گھروں نے لے لی ہے۔ اس لیے ٹینکر ڈلوانا ناگزیر ہے۔ سیوریج سسٹم اوور لوڈڈ ہے، جس کا نتیجہ ہر دوسری تیسری گلی میں اُبلتے گٹر کی صورت میں ہے۔
اگر ہر رہائشی عمارت کے تجارتی استعمال پہ لکھوں تو یہ تحریر کافی نہیں۔
شہری تعمیرات کے ماہرین جب کہتے ہیں کہ کراچی کا خانہ خراب بلڈر مافیا اور متعلقہ سرکاری اداروں کے درمیان گٹھ جوڑ کا نتیجہ ہے تو اسے سیاسی رنگ دے کر صرف نظر کر دیا جاتا ہے۔ آئے روز عدالتوں میں کراچی کی عمارتوں کے حوالے سے کیسز چلتے ہیں۔ ججز بڑے سخت ریمارکس بھی دیتے ہیں لیکن عملی نتائج صفر ہیں۔
اب بنی ہوئی عمارتوں کو تو ڈھانے سے رہے لیکن سندھ حکومت اور کراچی کی شہری حکومت اب بھی کرنے کو بہت کچھ کرسکتی ہیں۔ کراچی میں سینکڑوں رہائشی پراجیکٹس زیر تعمیر ہیں، کئی زیر غور ہیں۔ بہتری لانا ہے توسب سے پہلے تو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو واقعی کنٹرول اور اتھارٹی ملے۔ دوسرا بلڈر مافیا اور ان کے سیاسی سرپرست ہر چیز کو سیاسی رنگ دینے کے بجائے یہ ہی سوچ لیں کہ کل کو آپ کے نہ سہی آپ کے ووٹروں کے بچوں کو اسی شہر میں رہنا ہے۔ کچھ تو خیال کریں۔