کراچی: بیٹے کو چولہے پر جلانے کے الزام میں والد گرفتار

لیاقت آباد تھانے کی ایس ایچ او عظمیٰ خان کے مطابق دونوں میاں بیوی بہت کم عمر ہیں جبکہ والد نے ابتدائی بیان میں بتایا کہ ’بیٹے پر جنات کا سایہ تھا‘، جنہیں ’بھگانے کے لیے بچے کو چولہے پر بٹھا دیا۔‘

کراچی میں پولیس مبینہ طور پر اپنے بچے کو چولہے پر جلانے والے شخص (درمیان) کو گرفتار کر کے لے جا رہی ہے (کراچی پولیس)

کراچی پولیس نے لیاقت آباد کے رہائشی ایک شخص کو گھریلو جھگڑے کے بعد اپنے 10 ماہ کے بچے کو چولہے پر جلانے کے الزام میں گرفتار کر لیا جبکہ بچہ ہسپتال میں زیر علاج ہے، جس کی حالت تشویش ناک بتائی گئی۔

بچے کی والدہ کی جانب سے لیاقت آباد تھانے میں 18 جون کو درج کروائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ان کے شوہر انہیں اور ان کے بیٹے کو مسلسل تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔

خاتون کے مطابق ان کی دو سال قبل شادی ہوئی تھی، جس سے ان کا بیٹا پیدا ہوا، جو اب تقریباً 10 ماہ کا ہے۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق خاتون کا کہنا تھا: ’11 جون کو دن چار بجے گھر میں ذاتی رنجش کے باعث شوہر نے بیٹے کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا اور جان سے مارنے کے لیے دونوں ٹانگوں اور ہاتھوں سے پکڑ کر چولہے پر بٹھا دیا، بیٹا بہت رویا لیکن اس نے ایک نہیں سنی اور مجھے بھی تھپڑ مارا۔‘

مدعی مقدمہ کے مطابق جب انہیں کچھ سمجھ نہ آیا تو انہوں نے شور مچایا، جس سے ان کا شوہر گھر سے بھاگ گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’اس واقعے کا اپنے ماں باپ اور ساس سسر کو بتایا اور بیٹے کو عباسی شہید ہسپتال لے کر گئی۔‘

خاتون کے مطابق ان کا بیٹا اب جناح ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ ’ذاتی رنجش کے باعث شوہر نے میرے بیٹے کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا اور جان سے مارنے کے لیے آگ میں جلایا، اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔‘

میاں بیوی خود بھی بچے ہی لگتے ہیں: ایس ایچ او

اس حوالے سے لیاقت آباد تھانے کی ایس ایچ او عظمیٰ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میاں بیوی دونوں بہت کم عمر ہیں۔ لڑکے کی عمر تقریباً 18 سے 20 سال کے درمیان ہے جبکہ لڑکی بھی کم عمر اور نابالغ معلوم ہوتی ہے۔‘ ان کے مطابق: ’دونوں میاں بیوی خود بھی بچے ہی لگتے ہیں۔‘

ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ ’بچے کے والد کا رویہ نفسیاتی مسائل کا عکاس تھا۔پولیس کو دیے گئے ابتدائی بیان میں بچے کے والد نے موقف اختیار کیا کہ ان کے بیٹے پر جنات کا سایہ تھا۔ اس وجہ سے وہ پلنگ سے گر گیا اور خوف کے باعث انہوں نے جنات کو بھگانے کے لیے بچے کو چولہے پر بٹھا دیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ بچے کے ’والد نے بیان میں مزید انکشاف کیا کہ بیوی کھانا نہیں پکاتی تھی اور وہ ذہنی دباؤ کا شکار تھے۔‘

ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے اطلاع دیے جانے پر ویمن اینڈ چائلڈ پروٹیکشن سروسز بھی اس معاملے میں سرگرم ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادارے کی سربراہ فوزیہ طارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے واقعے کی تفصیلات شیئر کرتے ہوئے بتایا: ’یہ کم عمری کی شادی کے سنگین نتائج میں سے ایک مثال ہے۔ لڑکی کی عمر 17 سال اور لڑکے کی عمر تقریباً 21 سال ہے۔ دونوں کی شادی کو دو سال ہو چکے ہیں جبکہ متاثرہ بچہ صرف 10 ماہ کا ہے۔‘

فوزیہ طارق کے مطابق لڑکی نے اپنے بیان میں بتایا کہ ’بچے کو پہلے لات مار کر پلنگ سے گرایا گیا، جس کے بعد اس کی ناک سے خون نکل آیا اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ شوہر نے چار دن تک بچے کو کمرے میں بند رکھا اور مسلسل جلتے چولہے پر بٹھاتا رہا۔ جیسے ہی شوہر کام پر گیا، بیوی بچے کو لے کر جناح ہسپتال پہنچ گئی، جہاں ہسپتال انتظامیہ نے پولیس کو اطلاع دی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’بچے کی حالت نازک ہے اور کچھ بھی کہنا ممکن نہیں کہ وہ بچ سکے گا یا نہیں۔‘

بقول فوزیہ طارق: ’والد نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ بیوی طلاق چاہتی تھی اور وہ خود بھی بچے پر تشدد کرتی تھی۔‘

انہوں نے بتایا کہ سال 2024 میں بھی بچوں پر تشدد کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں، جن میں سے اکثریت ایسے ہی گھریلو تنازعات کے باعث ہوئے۔

فوزیہ طارق کے مطابق ’ساحل‘ نامی این جی او سالانہ رپورٹ جاری کرتی ہے، جسے سندھ پولیس بھی فالو کرتی ہے۔ این جی او کے مطابق گذشتہ دو برس میں سندھ میں بچوں سے زیادتی کے 1100 سے زائد واقعات رپورٹ ہوئے، جن میں سزا کی شرح دو فیصد سے بھی کم ہے۔

ساحل کی رپورٹ کے مطابق 2023 میں مجموعی طور پر 4,213 کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سندھ سے تقریباً 547 کیسز رپورٹ کیے گئے، جو کہ مجموعی تعداد کا 13 فیصد ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 2023 میں 91 فیصد کیسز پولیس میں باقاعدہ درج کیے گئے، تاہم تشویش ناک امر یہ ہےکہ عدالتوں سے سزا دلوانے کی شرح دو فیصد سے بھی کم رہی۔

رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ زیادہ تر کیسز عدالت سے باہر ہی نمٹا دیے جاتے ہیں، جس کے باعث ملزمان کے خلاف سخت قانونی کارروائی ممکن نہیں ہو پاتی۔

سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی (ایس سی پی اے) کے سابق ڈائریکٹر جنرل عظیم الرحیم نے واقعے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’یہ ایک نہایت افسوس ناک، سفاکانہ اور بے رحمانہ واقعہ ہے، جو کسی اور نے نہیں بلکہ ایک باپ نے اپنے ہی معصوم بچے کے ساتھ کیا۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسا ظلم کبھی نہیں سنا۔ یہ واقعہ والد کے ذہنی توازن پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی کی ہیلپ لائن 1121 پورے صوبہ سندھ میں ہفتے کے سات دن 24 گھنٹے کام کر رہی ہے اور شہری کسی بھی بچے کے ساتھ پیش آنےوالے تشدد، بدسلوکی یا غفلت کے واقعے کو اس نمبر پر اعتماد اور رازداری کے ساتھ رپورٹ کر سکتے ہیں۔

کراچی کی ایک معروف غیر سرکاری تنظیم کے سربراہ سید کوثر عباس جو بچوں اور خواتین کے حقوق کے حوالے سے سرگرم ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں سندھ میں بچوں پر ہونے والے تشدد اور کم عمری کی شادیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’حالیہ افسوس ناک واقعہ، جس میں ایک نابالغ ماں کے نومولود بچے پر اس کے والد نے ظلم کیا، کم عمری کی شادی کا واضح نتیجہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’یہ ایک سنگین انسانی المیہ ہے جو نہ صرف گھریلو سطح پر تباہی کا باعث بنتا ہے بلکہ معاشرتی نظام کی ناکامی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سندھ حکومت نے اگرچہ کم عمری کی شادی کے خلاف قانون سازی کی ہے، لیکن اس پر مؤثر اور منظم انداز میں عمل درآمد نہ ہونے کے باعث ایسے افسوس ناک واقعات رونما ہو رہے ہیں۔‘

سیدکوثر عباس نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’سندھ میں کم عمری کی شادی کے خلاف موجود قانون پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے اور چائلڈ پروٹیکشن یونٹس کو پنجاب کی طرز پر فعال اور خودمختار بنایاجائے تاکہ بچوں کو بروقت تحفظ، انصاف اور بحالی کی سہولیات مہیا کی جا سکیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان