گھریلو ملازم بچوں پر تشدد کی تحقیقات جاری، پانچ افراد گرفتار

پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے کامران کے والدین سے رابطہ والد کا نمبر مسلسل بند ہونے کی وجہ سے نہیں ہوسکا اور پوسٹ مارٹم بھی والدین سے رابطے کے بعد کیا جائے گا۔

لاہور پولیس کے حکام کے مطابق رہائشی علاقے ڈیفنس میں 11 سالہ گھریلو ملازم کامران گھر کے مالکان کے مبینہ تشدد سے ہلاک ہوگیا ہے جبکہ اس کا چھوٹا بھائی رضوان زخمی ہے۔

لاہور پولیس کے مطابق کامران کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ہسپتال بھیج دیا گیا ہے لیکن دونوں بچوں کے والدین سے اب تک پولیس کا رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد کے مطابق زخمی ہونے والے رضوان کو بیورو نے پولیس سے اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے۔

انویسٹی گیشن ونگ لاہور کے ترجمان وقاص نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی اس کیس کے مختلف پہلوؤں سے تفتیش جاری ہے۔ اس لیے حتمی طور پر بیان دینا ممکن نہیں ہے۔ تفتیش مکمل ہونے کے بعد میڈیا کو تمام حقائق سے آگاہ کیا جائے گا۔

لاہور پولیس کے مطابق 11 سالہ کامران کو مبینہ طور پر تشدد کر کے ہلاک کرنے والے خاندان کے پانچ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اس ہلاکت کا مقدمہ لاہور پولیس نے اپنی مدعیت میں تھانہ ڈیفنس اے میں درج کر لیا ہے۔ گرفتار ہونے والے ملزمان نے ابتدائی بیان میں کہا کہ دونوں بچوں کو فریج سے کھانا چوری کرنے کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ایف آئی آر میں اے ایس آئی امان اللہ نے بیان دیا کہ پیر کو انہیں ون فائیو پر ڈیفنس کے ایک ہسپتال سے کال موصول ہوئی کہ ایک بچہ جس کی عمر 11 یا 12 سال ہے اور جس کا نام کامران ہے، اس کی لاش موصول ہوئی ہے نیز بچے کے جسم پر تشدد اور مار پیٹ کے نشانات بھی ہیں۔

’ون فائیو پر کال موصول ہوتے ہی پولیس ہسپتال پہنچی اور بچے کی لاش کا معائنہ کیا تو اس پر تشدد کے نشان موجود تھے۔ تفصیلات معلوم کرنے پر ہسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ اس بچے کو نصراللہ اور محمود الحسن نامی دو اشخاص ہسپتال لائے تھے۔‘

دونوں سے پوچھ گچھ کی گئی تو معلوم ہوا کہ کامران کا چھوٹا بھائی سات سالہ رضوان بھی ڈیفنس فیز تھری کے اس گھر میں ملازم ہے۔

’نصراللہ اور محمود الحسن مسلسل اپنے بیان بدلتے رہے اور پھر بعد میں انہوں نے بتایا کہ ایک تیسرا شخص ابوالحسن جو نصراللہ کا بیٹا اور محمود الحسن کا بھائی ہے مختلف اوقات میں دونوں بچوں کو تشدد کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ پیر کے روز بھی اس نے کامران پر انتہائی تشدد کیا جسے وہ برداشت نہ کر سکا اور ہلاک ہو گیا۔‘

دوسرے بھائی رضوان کے بازو اور ٹانگوں پر بھی زخموں کے نشانات ہیں۔ سات سالہ رضوان نے پولیس کو بتایا ہے کہ گھر کے تمام اشخاص جن میں خواتین بھی شامل ہیں ان دونوں بھائیوں کو تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔

پولیس کی جانب سے درج کیے گئے اس مقدمے میں تعزیرات پاکستان کے تحت دفعہ 302، 311، 34 کے ساتھ ساتھ بچوں کی ملازمت پر پابندی ایکٹ 2016 کا سیکشن 11 اور 12 بھی عائد کیا گیا ہے۔

لاہور پولیس کے مطابق کامران اور رضوان کا تعلق بہاولپور سے ہے جبکہ وہ دو سال سے ان لوگوں کے گھر میں ملازم تھے۔

پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اب تک ان بچوں کے والدین سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا کیوں کہ ان کے والد کا نمبر مسلسل بند ہے جبکہ کامران کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوا دیا گیا ہے جو ممکنہ طور پر اس کے والد کے ملنے کے بعد کیا جائے گا۔

دوسری جانب چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ رضوان اور کامران کے والدین کی تلاش جاری ہے۔ ’بیورو نے رضوان کو پولیس سے اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا ہے اور وہ بیورو میں آرام سے رہے گا جب تک اس کے والدین نہیں مل جاتے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سارہ نے اس واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا ہماری مدد کرے اور آگاہی پھیلائے کہ 15 سال سے کم عمر بچے کو گھر میں ملازمت پر رکھنا یا رکھوانا جرم ہے اور اس کی سزا ہے۔

’اور اگر کوئی بھی شخص ایسا کوئی بچہ دیکھے جو چھوٹی عمر میں کسی گھر کا ملازم ہے اور اس پر ظلم ہو رہاہے تو 1121 پر بیورو سے رابطہ کر کے اس کی اطلاع دے۔‘

سارہ نے بتایا کہ کامران اور رضوان کی  فیملی کو تلاش کیا جارہا ہے اور اگر انہیں اس کیس میں کسی بھی قسم کی قانونی معاونت چاہیے ہوئی تو چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو انہیں فراہم کرے گا۔

چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر بیورو نے سات سالہ رضوان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی جس میں اسے ڈرا اور سہما دیکھا جاسکتا ہے۔

گھریلو ملازمین سے متعلق قانون

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایڈووکیٹ احمر مجید نے اس حوالے سے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ’پنجاب میں پنجاب ڈومیسٹک ورکر ایکٹ 2019 موجود ہے اس کا سیکشن تین کہتا ہے کہ 15 سال سے کم عمر کوئی بھی بچہ گھریلوملازم کے طور پر کسی بھی صورت کام نہیں کر سکتا۔ 15 سے 18 سال کی عمر کے کسی بچے کو اگر رکھا جائے گا تو وہ صرف ہلکا پھلکا کام کر سکتا ہے۔‘

’ہلکے پھلکے کام کی تعریف یہ ہے کہ وہ پارٹ ٹائم ہوگا اور بچے کی صحت، حفاظت اور پڑھائی اس کام سے متاثر نہ ہو۔ اسی طرح پنجاب ڈومیسٹک ورکر ایکٹ 2019 کے سیکشن 31 میں سزائیں بیان کی گئی ہیں کہ اگر کوئی 15 سال سے 18 سال کے بچے کو بطور گھریلو ملازم رکھے گا تو اسے کیا سزا ہو گی یا اگر بچہ 12 سے 15 سال کا ہے یا 12 سال سے کم عمر کا بچہ ہے تو کیا صورتحال ہوگی۔‘

سیکشن 31 (1) کے مطابق ’ایک آجر جو دفعہ تین کے علاوہ ایکٹ کی کسی بھی شق کی تعمیل کرنے یا اس کی خلاف ورزی کرنے میں ناکام رہے گا، جرم ثابت ہونے پر، جرمانے کی سزا دی جائے گی جو پہلے جرم کے لیے پانچ ہزار روپے، اور دوسرے جرم کے لیے زیادہ ہو سکتی ہے۔‘

سیکشن 31 (2) کے مطابق: ’جو بھی جان بوجھ کر دفعہ تین کی شقوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے قید کی سزا دی جائے گی جو ایک ماہ تک بڑھ سکتی ہے اگر وہ 12 سال سے کم عمر کے بچے کو ملازمت دیتا ہے یا  15 سال سے کم عمر کے بچے کو تو اس صورت  میں جرمانہ پچاس ہزار روپے سے بڑھ سکتا ہے لیکن دس ہزار سے کم جرمانہ نہیں کیا جائے گا۔‘ 

احمر مجید کے مطابق ’اس کیس کی ایف آئی آر میں بچوں کی ملازمت پر پابندی ایکٹ 2016 کا سیکشن ہے لیکن میں نے سیکٹر کے لیے مخصوص قانون سازی کا اشتراک کیا ہے جسے پنجاب کے بچوں کی ملازمت پر پابندی ایکٹ 2016 کے بجائے استعمال کیا جانا چاہیے تھا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان