’پرتشدد رجحانات‘: کھلونا بندوقوں پر پابندی کا مطالبہ

کیا آپ کے بچے کھلونا بندوق سے کھیلتے ہیں؟ کیا آپ اپنے بچوں کو کھلونا بندوق خریدنے اور اس سے کھیلنے کی اجازت دیتے ہیں؟

آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن ملک بھر میں ایک مہم چلا رہی ہے جس میں انہوں نے حکومتِ وقت سے مطالبہ کیا ہے کہ کھلونا بندوقوں پر فی الفور پابندی لگائی جائے۔

فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہمارے بچوں کے اندر کھلونا بندوقوں کے ذریعے نفسیاتی تشدد بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اور اگر ہم نے اس پر توجہ نہ دی، قانون سازی نہ کی اس پر مل بیٹھ کراس کو روکنے کے اقدامات نہ کیے تو آنے والے وقتوں میں نہ صرف تشدد بہت بڑھے گا بلکہ ہمارے بچوں میں پرتشدد اور مجرمانہ سرگرمیوں کے رحجان میں شدید اضافہ ہوگا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت تمام سٹیک ہولڈرز، اساتذہ، سول سوسائٹی اور حکومتی عہدہ داروں کو مل کر بیٹھنا ہو گا اور قانون سازی کرنا ہوگی۔ انہوں نے امریکہ، برطانیہ، عراق اور دیگر ممالک کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں بھی ان کھلونوں کے خلاف قانون سازی کی جارہی ہے یا ہو چکی ہے اس لیے پاکستان میں بھی اب اس حوالے سے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔ ان کے خیال میں نہ صرف کھلونا بندوقوں بلکہ ایسی پر تشدد ویڈیو گیمز کو بھی بند کرنا ہوگا تاکہ ذہنی طور پر ایک صحت مند نسل کو پروان چڑھایا جا سکے۔

انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف علاقوں میں کھلونوں کی دکانوں پر جا کر دیکھا کہ وہاں لاتعداد اقسام کی کھلونا بندوقیں اور دیگرپرتشدد آلات کے کھلونےچھوٹی بڑی سبھی کھلونوں کی دکانوں میں بچوں کے لیے موجود ہیں۔ دکانداروں کے مطابق یہ کھلونا بندوقیں زیادہ تر چین سے آتی ہیں مگر کچھ دکاندار انہیں لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ سے خرید کر اپنی دکانوں پرلاتے ہیں۔

شاہ عالم مارکیٹ میں ہر طرح کا کھلونا موجود ہے مگر وہاں کے تاجروں نے انڈپینڈنٹ اردو کو ویڈیو بنانے کی اجازت دی اور نہ اس حوالے سے بات کی۔ اس مارکیٹ سے دیگر دکاندار مال اپنی دکانوں میں ڈالنے کے لیے خرید کر لاتے ہیں۔ یہاں لایا جانے والا سامان زیادہ تر ’میڈ ان چائنہ‘ ہوتا ہے۔

شادمان میں کھلونوں کی دکان چلانے والے محمد عدنان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا بیشتر سامان شاہ عالم مارکیٹ سے آتا ہے خاص طور پر کھلونا بندوقیں۔ ان بندوقوں میں جہاں ربڑ کی گولیوں یا میوزک والی بندوقیں دستیاب ہیں، وہیں ایک ایسی قسم ہے جس کی طلب کافی زیادہ ہے۔ اس کی طلب شاہ عالم مارکیٹ میں بھی عید کے دنوں میں بی بڑھ جاتی ہے۔ یہ ہے چھروں والی بندوق۔ عدنان کا کہنا ہے: ’اس کا کام یہ ہے کہ اس کے اندر چھرے ڈلتے ہیں۔ اس کے اندر میگزین ہوتی ہے۔ زیادہ تر بچے عید وغیرہ یا تہوار پراستعمال کرتے ہیں ورنہ اس کی طلب اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔‘

عدنان نے بتایا کہ ان بندوقوں کی قیمت مختلف ہے جتنی بڑی بندوق اس کی قیمت بھی اتنی زیادہ۔ قیمت 1500 روپے سے 1000 روپے تک ہے۔ ان کا کہنا ہے ’ہماری یہ کوشش نہیں کہ ہمارے بچے بڑے ہو کرہمیں ہی آ کر گولیاں ماریں، یہ ہماری روزی روٹی ہے۔ ہم نے تو لانی ہیں چیزیں اور بیچنی ہیں اور پیسے کمانے ہیں۔ ہم وہ چیز دکان پر لاتے ہیں جس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے اور کھلونا بندوقوں کی ڈیمانڈ ہے۔ والدین بچوں کو خرید کر دیتے ہیں اور بچے ان سے کھیل کر خوش ہوتے ہیں۔‘

لیکن کچھ والدین ایسے بھی ہیں جن کے خیال میں بچوں کو بندوق جیسے کھلونے سے متعارف ہی نہیں کروانا چاہیے۔ سارہ رافع کے دو بچے ہیں اور وہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سارہ کا کہنا تھا: ’چاہے وہ ربڑ کی گولیوں والی بندوق ہو یا کوئی بھی ہو مجھے لگتا ہے کہ وہ تشدد کو ترویج دیتی ہیں۔ میں بالکل اپنے دونوں بچوں کو کھلونا بندوقوں سے کھیلنےکی اجازت نہیں دیتی ہوں نہ ہی انہیں ایسی ویڈیو گیمزکھیلنے یا ایسی ویڈیوز دیکھنے کی اجازت ہے جن میں تشدد ہو۔ وہ اس لیے کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ شروعات ہوتی ہے۔  آپ آج کھلونا بندوق کی اجازت دیں گے تو کل کو بچے اصل بندوق سے بھی کھیلنا چاہیں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا