امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 14 مئی کو خلیجی ممالک کے دورے کے دوران سعودی عرب میں شام کے عبوری صدر احمد الشرع سے ملاقات پوری دنیا کے لیے انوکھی تھی۔
اس کی وجہ تھی کہ یہی احمد الشرع اس سے پہلے امریکہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھے اور ان کے سر کی قیمت امریکہ نے ایک کروڑ ڈالر مقرر کر رکھی تھی۔
امریکہ نے 1979 سے شام پر مختلف پابندیوں عائد کر رکھی ہیں، جن میں اثاثے منجمد کرنا، شام پر اسلحے کی فروخت اور پیٹرول خریدنے جیسی پابندیاں شامل ہے۔
ملاقات کے دوران ٹرمپ نے شام کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور پابندیاں ہٹانے کا وعدہ کیا، تاہم ’الجزیرہ‘ نیوز کی رپورٹ کے مطابق شام کے صدر کو کہا گیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کریں۔
اس ملاقات کے تناظر میں مبصرین سمجھتے ہیں کہ ممکن ہے کہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل شام کے موجودہ عبوری صدر کے ساتھ اگر امریکہ تعلقات بحالی کی باتیں کر رہا ہے، تو اس سے افغان طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم کیے جانے کی راہ بھی ہموار ہو رہی ہے۔
یاد رہے کہ یہ ملاقات 25 سال بعد کسی امریکی صدر کی کسی شامی صدر سے پہلی ملاقات تھی۔
شام کے موجودہ عبوری صدر احمد الشرع کی تنظیم ہیۃ التحریر الشام نے گذشتہ برس دسمبر میں بشارالاسد کو 50 سالہ اقتدار سے بے دخل کرکے شام میں عبوری حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
مبصرین کیا کہتے ہیں؟
زردشت شمس سابق اففان سفارت کار ہیں اور 2017 سے 2019 تک پاکستان میں افغانستان کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن تھے۔
انہوں نے لندن سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دراصل افغان طالبان کو تسلیم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ خود طالبان اور ان کی پالیسیاں ہیں۔
زردشت شمس کے مطابق امریکہ یا مغربی ممالک کا شام کے ساتھ تعلق استوار کرنے کی مختلف وجوہات ہیں اور افغان طالبان سے قدرے مختلف ہے لیکن اس کے باوجود ان کو تسلیم کیا جا رہا ہے اور افغان طالبان سے شام کی تنظیم بہت بدنام تھی۔
تاہم زردشت شمس نے بتایا، ’امریکہ نے دوحہ مذاکرات میں ہی افغان طالبان کو ایک مثبت اشارہ دیا تھا اور امریکہ کی مفاد کی باتیں افغان طالبان دوحہ مذاکرات میں پہلے سے قبول کر چکے ہیں۔‘
مگر زردشت شمس کا ماننا ہے کہ افغانستان کی عوام کو انسانی حقوق نہیں مل رہے جو کہ افغان طالبان کو تسلیم کرنے میں رکاوٹ ہے۔
ڈاکٹر سید عرفان اشرف سکیورٹی امور کے ماہر اور پشاور یونیورسٹی میں شعبہ صحافت کے استاد ہیں، انہوں نے سکیورٹی معاملات پر مختلف مقالے لکھ رکھے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ڈاکٹر سید عرفان اشرف نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ سخت گیر شخصیات کو پسند کرتے ہیں اور سخت گیر کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ جمہوریت پسند لوگوں کو یا عوام کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کی پروا کرتے ہوں یا انسانی حقوق پر یقین رکھتے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا کا نیو ورلڈ آرڈر اب ٹرمپ کی طرز پر جا رہا ہے اور شام کے صدر کو تسلیم کرنا اسی کی ایک کڑی ہے لیکن یہ سب کچھ امریکہ ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی شرط پر کر رہا ہے۔
بقول عرفان اشرف: ’وہ شامی صدر سے اسرائیل سے بہتر تعلقات اور شام میں اپنا اثر و رسوخ چاہتے ہیں اور جس ملک میں امریکہ کی بیس موجود ہے، اسی ملک سے وہ کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افغان طالبان کو تسلیم کرنے کی طرف راہ ہموار ہو رہی ہے لیکن اس میں یہ دیکھا جائے گا کہ اس میں بارگیننگ کتنی ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا: ’افغان طالبان اگر خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنا چاہتے ہیں اور خاص کر قطر کے ساتھ تو امریکہ کی طرف سے انہیں تسلیم کیا جا سکتا ہے لیکن شرط یہ ہوگی کہ افغانستان میں نہ چین اور نہ روس ہو گا اور یہ اس خطے کی سکیورٹی کے لیے بالکل بھی نیک شگون نہیں ہے، جس میں انسانی حقوق کو نہیں بلکہ دیگر مفادات کو دیکھا جاتا ہے۔‘
محمود جان بابر پشاور میں مقیم صحافی اور افغان طالبان کے معاملات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ دنیا میں مختلف جنگیں جاری ہیں اور ٹرمپ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے مختلف ملکوں کا دورہ کر رہے ہیں۔ شام کے صدر سے ملنا بھی کسی مفاد کے تحت ہو سکتا ہے اور اس میں ملک نہیں پورے خطے کو دیکھا جاتا ہے۔
محمود جان نے بتایا: ’ٹرمپ چاہتے ہیں کہ شام پر روس اور ایران کا اثر و رسوخ کم کر سکے اور اسی کے تحت شام سے پابندیاں ہٹانے کی منصوبی بندی کی جا رہی ہے اور ٹرمپ اس میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ اسی دورے میں انہوں نے خلیجی فرنٹ کو محفوظ کیا ہے۔‘
انہوں نے افغان طالبان کے حوالے سے بتایا کہ ٹرمپ اب چاہتے ہیں کہ افغانستان کے حکمرانوں کے ساتھ بھی بہتر تعلقات بنا سکیں اور اس کی وجہ چین اور روس کا اثر و رسوخ اس خطے پر کم کرنا ہے۔
محمود جان نے بتایا: ’یہ تمام معاملات سفارتی تعلقات کی بہتری ہیں جبکہ وہی القاعدہ اور داعش اب بھی افغانستان میں موجود ہے لیکن امریکہ کو اپنا مفاد عزیز ہے، تو اب افغان طالبان بھی ان کو قابل قبول ہو سکتے ہیں تاکہ چین اور روس جہاں ہوں، وہاں ان کا اثر و رسوخ کم کیا جا سکے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’تاہم امریکہ کی طرف سے افغان طالبان کو تسلیم کرنا مشکل ضرور ہے کیونکہ بقول واشنگٹن وہاں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی ہے، لیکن اگر امریکہ کو اس میں مفاد نظر آرہا ہے تو بالکل افغان طالبان کو تسلیم کرنا خارج از امکان نہیں۔
’مفاد کی بات ہر ایک ملک کرتا ہے اور اس کی حالیہ مثال افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی کی انڈیا کے وزیر خارجہ جے شنکر سے ملاقات اور تعلقات بہتر بنانے پر زور دینا ہے۔‘
محمود جان نے بتایا: ’انڈیا افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ ایک ملک دوسرے سے تعلقات کسی خاص مقصد اور مفاد کے لیے بناتا ہے اور انڈیا اب پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے افغانستان سے ہاتھ ملا رہا ہے۔‘
اس سارے معاملے پر انڈپینڈنٹ اردو نے افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور افغان وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔