انڈیا کی سپریم کورٹ نے سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں اسلامی مدرسوں پر پابندی عائد کرنے کے زیریں عدالت کے حکم پر عملدرآمد روک دیا ہے جس سے مدارس میں زیر تعلیم ہزاروں طلبہ نے سکون کا سانس لیا ہے۔
اتر پردیش میں الہ آباد ہائی کورٹ نے گذشتہ ہفتے جاری کیے گئے حکم پر عملدرآمد روکنا اتر پردیش کے اسلامک اسکول بورڈ کی فتح ہے جس نے ہائی کورٹ کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔
نیوز پورٹل لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے جمعے کو کہا کہ ’ہمارا خیال ہے کہ درخواستوں میں اٹھائے گئے مسائل پر اچھی طرح غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘
وکلا کا کہنا ہے کہ اس کیس کا جولائی میں جائزہ لیا جائے گا اور ’اس وقت تک تمام معاملات رکے رہیں گے۔‘
مدرسہ کہلانے والے اسلامی سکولوں پر پابندی کو ملک کی سب سے بڑی اقلیت پر حملے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا اور اس کی وجہ سے دوسری ریاستوں میں بھی مدرسوں پر پابندی کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا۔
کئی دہائیوں سے مدارس انڈین ریاستوں کا حصہ ہیں جن میں مسلمان طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ ان مدارس میں اسلامی تعلیم پر توجہ دی جاتی جب کہ انڈیا کے دیگر سکولوں روایتی تعلیم دی جاتی ہے۔
اتر پردیش کی الہ آباد ہائی کورٹ نے 22 مارچ کو مدرسوں سے متعلق 2004 کے قانون کو اس بنیاد پر ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ اس سے ’سیکولرازم کے اصول‘ کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
عدالت نے یہ بھی ہدایت دی تھی کہ ان اداروں کے طلبہ کو روایتی سکولوں میں منتقل کیا جائے۔
یہ متنازع فیصلہ ملک میں قومی انتخابات میں ووٹنگ شروع ہونے سے چند دن قبل سامنے آیا ہے جن وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تیسری بار منتخب ہونے کے لیے میدان میں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈیا میں ہونے والے کثیر جہتی انتخابات دنیا کے سب سے بڑے انتخابات ہوں گے جن میں ایک اندازے کے مطابق 96 کروڑ لوگ ووٹ ڈالیں گے۔
عدالتی حکم پر عمل کے نتیجے میں انڈیا کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست کے 25 ہزار مدارس کے 27 لاکھ طالب علموں اور تقریباً 10 ہزار اساتذہ کو نکال دیا جاتا۔
جون میں انتخابی عمل مکمل ہونے کے ایک ماہ بعد عدالت جولائی میں اس معاملے کی سماعت کرے گی۔
ریاست اتر پردیش میں مدرسہ تعلیم کے بورڈ کے سربراہ افتخار احمد جاوید نے عدالت کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ’بڑی جیت‘ قرار دیا۔
انہوں نے کہا، ’ہم تقریبا 16 لاکھ (1.6 ملین) طلبہ کے مستقبل کے بارے میں واقعی فکرمند تھے اور اب اس حکم سے ہم سب کو ریلیف ملے گا۔‘
وزیر اعظم مودی اور ان کی پارٹی، بی جے پی جو 10 سال سے اقتدار میں ہے، کو اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور اسلام مخالف نفرت انگیز تقاریر کو ہوا دینے کے الزامات کا بار بار نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
تاہم مودی نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ان کی حکومت میں اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک موجود ہے۔ ان کا کہنا ہے یہ جمہوریت ہی ہے جو سب کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے۔
© The Independent