افغان پناہ گزینوں پر بغیر اجازت مباحثہ روکا: اسلام آباد پولیس

دی بلیک ہول کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اسلام آباد پولیس نے جی11 سیکٹر میں واقع ان کے آڈیٹوریم پر چھاپہ مارا جہاں افغان پنا ہ گزینوں کی وطن واپسی کے معاملے پر پینل ڈسکشن ہونی تھی اور اس پروگرام کو روکنے کے احکامات جاری کیے۔‘

اسلام آباد میں قائم دی بلیک ہول نامی تنظیم کے 6 جون، 2023 کو ہوئے ایک پروگرام سے لی گئی تصویر (فائل تصویر: دی بلیک ہول)

دی بلیک ہول نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ منگل کو ’افغان پنا گزینوں کی وطن واپسی‘ سے متعلق ایک مباحثے کے آغاز سے قبل ہی اسلام آباد پولیس نے ’مداخلت کرتے ہوئے اسے روک‘ دیا ہے۔ اسلام آباد پولیس نے اس کی وجہ مباحثے کے لیے ضلعی انتظامیہ سے درکار اجازت کا نہ ہونا بتائی ہے۔

یہ واقعہ اسلام آباد کے سیکٹر جی11 میں واقع دی بلیک ہول نامی غیر سرکاری تنظیم کے دفتر میں منگل کی شب پیش آیا ہے۔ پاکستانی حکومت نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے یکم نومبر کی ڈید لائن مقرر رکھی ہے۔

دی بلیک ہول سال 2022 کے اوائل سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو مختلف سماجی مسائل پر کھلے مباحثوں اور تخلیقی گفتگو کے لیے بنائی گئی ہے۔

دی بلیک ہول کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’اسلام آباد پولیس نے رمنہ تھانے کے سٹیشن ہاوس افسر (ایس ایچ او) عالمگیر کی سربراہی میں جی11 سیکٹر میں واقع ان کے آڈیٹوریم پر ’چھاپہ مارا جہاں افغان پنا ہ گزینوں کی وطن واپسی کے معاملے پر پینل ڈسکشن ہونی تھی اور اس پروگرام کو روکنے کے احکامات جاری کیے۔‘

اس پینل میں سیاست دان افراسیاب خٹک، صحافی حسن خان، افغان کمیونٹی کے نمائندہ حاجی راز محمد اور مصنف اور محقق سجاد اظہر شامل تھے۔

اعلامیہ کے مطابق: ’ایس ایچ او نے پروگرام کو منسوخ کرنے کا حکم دیا اور دعوی کیا کہ یہ ڈپٹی کمشنر کا حکم تھا تاہم اس سلسلے میں تحریری حکم دینے میں ناکام رہے۔ بلکہ پولیس نے دی بلیک ہول کے عملے سے بدتمیزی کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اس کے بعد ’جب پولیس نے کیمرے اور مائیک کے ساتھ چند نامہ نگاروں کو آتے دیکھا تو وہ پیچھے ہٹ کر چلے گئے۔ تاہم ایس ایچ او نے دی بلیک ہول کے ایک سینیئر اہلکار کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔‘

اعلامیے کے مطابق ’پولیس کی دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہوئے لیکن پروگرام کو ترک کرنا پڑا۔‘

دی بلیک ہول نامی تنظیم اپنے قیام کے بعد سے ایک سال کے دوران 450 سے زائد تقریبات کی میزبانی کر چکی ہے جس میں متعدد اہم سماجی و سیاسی مسائل پر گفتگو کی گئی۔

یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟

اس مباحثے کو ماڈیریٹ کرنے والے مصنف و محقق سجاد اظہر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جب اس بحث کا آغاز کیا جانے لگا جس کا وقت شام چھ سے ساڑھے سات بجے تھا، اس وقت دی بلیک ہول کے مینیجر آفاق ان کے پاس آئے اور انہیں بتایا کہ آڈیٹوریم کے باہر پولیس اہلکار آئے ہیں، وہ عملے سے ان کے شناختی کارڈ مانگ رہے ہیں اور انہیں پولیس وین میں بیٹھنے کا کہہ رہی ہے۔ مینیجر نے سجاد اظہر سے معاملہ دیکھنے کی گزارش کی۔‘

انہوں نے بتایا کہ باہر جا کر موقع پر موجود ایس ایچ او سے معاملے سے متعلق استفسار کیا، جس پر ایس ایچ او نے بتایا کہ ’جو یہ پروگرام ہو رہا ہے، وہ نہیں ہو سکتا۔‘

سجاد اظہر کے مطابق ان کے پوچھنے پر ایس ایچ او نے بتایا ’بس حکم آیا ہے، آرڈر ہے۔‘

ان کے سوال کہ ’کس کا آرڈر ہے؟‘ پر پولیس اہلکار نے جواب دیا کہ ’مجھے نہیں پتہ، اوپر سے آرڈر آیا ہے۔ میری نوکری کا مسئلہ ہے، مہربانی کریں۔ یہ پروگرام نہیں ہوگا۔‘

سجاد اظہر کے بقول عملے کو ہراساں کیے جانے سے متعلق سوال پر پولیس اہلکار نے انہیں بتایا کہ ’اگر یہ پروگرام ہوگا تو سب کو گرفتار کر لیا جائے گا۔‘

مباحثے کے منتظم سجاد اظہر کے مطابق اسی گفتگو کے دوران اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) آئے اور انہوں نے کہا کہ ’این او سی نہ ہونے کی وجہ سے یہ پروگرام نہیں ہو سکے گا۔‘

پولیس کا کیا کہنا ہے؟

انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد سے اس معاملے سے متعلق موقف معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ ’اسلام آباد میں کسی اجتماع اور سرگرمی کے لیے این او سی لینا ضروری ہوتا ہے، این او سی کے بغیر کسی اجتماع یا سرگرمی کی اجازت نہیں ہے۔‘

جب انڈپینڈنٹ اردو نے ایس ایچ او تھانہ رمنہ عالمگیر خان سے رابطہ کیا اور ان سے سوال کیا کہ ’تقریب کا آغاز کیوں نہیں ہونے دیا گیا؟‘ تو انہوں نے بتایا کہ ’کسی تقریب کے انعقاد کے لیے این او سی درکار ہوتا ہے۔ ہر فرد یہ نہیں کر سکتا کہ دفعہ 144 نافذ ہو اور لوگ اکٹھے ہو کر کہیں کہ ہم نے تقریب کا انعقاد کرنا ہے۔‘

ایس ایچ او نے بتایا کہ ’ہم نے انہیں کہا سامنے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے وہ این او سی لے سکتے ہیں۔‘

اس سوال پر کہ کیا ’گھر یا چار دیواری کے اندر ہونے والی تقریبات کے لیے این او سی درکار ہوتا ہے؟‘ عالمگیر نے بتایا کہ ’جہاں 10 سے 15 یا اس سے زائد افراد اکٹھے ہوں گے، اس کی منظوری لی جائے گی۔

چھاپہ مارنے کے لیے تحریری حکم نامے کی موجودگی سے متعلق سوال پر عالمگیر خان نے کہا ’جب ایس ایچ او کسی موقع پر آ جائے تو وہ ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے، تحریری آرڈر درکار نہیں ہوتا۔ یہ بعد میں دیکھا جائے گا کہ کس کا آرڈر ہے اور کس کا نہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ایس ایچ او بغیر کسی اجازت کے یہ کر سکتا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا