گداگروں کے خلاف رواں سال 318 کارروائیاں کیں: اسلام آباد پولیس

اسلام آباد انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اس وقت ایسا کوئی منصوبہ موجود نہیں ہے جہاں پیشہ ور گداگروں کو رکھ کر ان کی اصلاح کی جائے اس لیے اکثر بھکاری پولیس کارروائی کے باوجود دوبارہ سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔

اسلام آباد کے ایک چوراہے پر بھیک مانگتی خاتون (اسلام آباد پولیس)

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف پولیس کا حالیہ کریک ڈاؤن تاحال جاری ہے اور صرف رواں برس 318 کارروائیاں کی گئیں جن کے دوران 11 ہزار سے زائد بھکاریوں کو  حراست میں بھی لیا گیا جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔

اسلام آباد پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک کی گئی کارروائیوں میں ’11 ہزار 6 سو 68 بھکاری پکڑے گئے جن میں 1244 مرد، 1848خواتین جب کہ بچوں کی تعداد 7586ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب تفصیلات کے مطابق پکڑے گئے بھکاریوں میں سے 432 مرد اور 420 خواتین کی خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی اور آٹھ سہولت کاروں کو بھی گرفتار کیا گیا۔

تاہم پولیس نے یہ وضاحت نہیں کہ ان میں سے کتنے گرفتار افراد خواجہ سرا تھے۔ اکثر چوراہوں پر بچوں اور عورتوں کے علاوہ اب خواجہ سرا بھی بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔

اسلام آباد پولیس اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ وہ شہر سے گداگری کا خاتمہ چاہتی ہے اور اس ضمن میں اس نے شہریوں سے بھی تعاون کی اپیل بھی کر رکھی ہے۔

ماضی میں شہر کے اہم چوراہوں پر عوام کی آگہی کے لیے بورڈز بھی لگائے گئے جن پر بھکاریوں کو بیسے دے کر ان کی حوصلہ افزائی کرنے سے منع کیا گیا تھا۔ لیکن اس بظاہر محدود کوشش کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا ہے۔

27 جولائی کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر ایک بیان میں اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ ’گداگری ایک لعنت ہے جسے کچھ عناصر نے پیشہ بنا لیا ہے، اسلام آباد سیف سٹی کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر سے انہیں مانیٹر کیا جا رہا ہے اور ان کے خلاف قانونی کارروائیاں بھی جاری ہیں۔‘

اسلام آباد پولیس نے شہریوں سے کہا کہ یہ ان کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسے پیشہ ور عناصر کی حوصلہ شکنی کریں اور ان کی اطلاع ہیلپ لائن ’پکار 15‘ پر دیں۔

لیکن بظاہر اس میں تاحال پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی اور  شہر کی تقریباً ہر بڑی مارکیٹ اور چوراہے پر اب بھی گداگر بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔

آخر ایسا کیوں ہے؟ اس بارے میں اسلام آباد پولیس کے  ڈپٹی انسپکٹر جنرل آپریشنز کے دفتر کے ترجمان جواد شہزاد کا کہنا تھا کہ ’پولیس قانونی کارروائی کرتی ہے لیکن جیل سے رہا  ہونے کے بعد وہ دوبارہ سڑکوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ گداگری کی روک تھام  کے لیے موثر قانون سازی کی ضرورت ہے۔‘

 جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پکار سینٹر میں فون کر کے لوگ گداگری سے متعلق شکایت کرتے ہیں تو ان کا کہنا تھا  کہ ’پکار سینٹر میں فون کر کے کوئی اگر گداگروں کے حوالے سے شکایات درج کرواتا ہے تو پولیس کارروائی کرتی ہے اور انہیں تھانے منتقل کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے قانونی کارروائی بھی کی جاتی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وفاقی دارالحکومت کی معروف مارکیٹ ’کراچی کمپنی‘ میں موجود بھکاری محمد رحیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ’اگرماہانہ  پیسے دیں تو پولیس تنگ نہیں کرتی لیکن اگر پیسے نہ دیں تو پکڑ لیتے ہیں۔‘

گداگر کے الزام پر ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد شہزاد ندیم بخاری  نے کہا کہ ان میں کوئی صداقت نہیں ہے اور پولیس قانون کے مطابق بھکاریوں کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمات درج کرتی ہے۔

’پولیس کی جانب سے بھکاریوں کو پکڑنے کے لیے اینٹی بیگرز سکوارڈ (دستے) بنائے گئے ہیں جو معمول کے مطابق کام کر رہے ہیں۔‘

لیکن کیا وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کے پاس ایسا کوئی منصوبہ ہے جہاں پیشہ ور گداگروں کو رکھ کر ان کی اصلاح کی جائے جب اس بارے میں ضلعی انتظامیہ سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ محدود وسائل میں فی الحال ایسا کرنا ممکن نہیں۔

ابھی تک اسلام آباد میں بھکاریوں کی اصلاح  کے لیے کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا اور روزانہ کی بنیاد پر اسلام آباد انتظامیہ کی جانب سے 50 سے 60 بھکاریوں کو پکڑا جاتا ہے اور کم عمر بچوں کو ایدھی سینٹر منتقل کر دیا جاتا ہے جب کہ پیشہ ور گداگروں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کروائی جا رہی ہیں۔

اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر عرفان میمن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ شہر میں روزانہ کی بنیاد پر بھکاریوں کو پکڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ’یہ بھکاری قریبی علاقوں سے آتے ہیں، انتظامیہ کے پاس محدود وسائل ہیں اور اسی میں کام ہو رہا ہے۔ بھکاریوں کو بھیگرز ایکٹ میں ایک سے دو ماہ کی جیل دی جاتی ہے اور بچوں کو ایدھی سینٹر بھیجا جاتا ہے۔‘

انہوں نے اعتراف کیا کہ دوسرے علاقوں سے بھکاریوں کے اسلام آباد میں داخل ہونے روکنے سے متعلق کوئی حکمت عملی موجود نہیں ہے۔

کم عمر بھکاریوں کو حراست میں لیے جانے کے بعد عارضی طور پر فلاحی تنظیم ایدھی سینٹر میں رکھا جاتا ہے۔ ایدھی سینٹر اسلام آباد کے منتظم  شکیل احمد  کہتے ہیں کہ ’ہم ان کو کھانے کا وقت ہو تو کھانا دیتے ہیں دو چار گھنٹے ایدھی سینٹر میں رکھتے ہیں تاکہ دوبارہ سڑکوں پر نہ جائیں پھر ان کے والدین آ جاتے ہیں اور ان بچوں کو ان کے حوالے کر دیتے ہیں لیکن یہاں سے جانے کے بعد یہ بچے دوبارہ چوکوں میں چلے جاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ  پولیس نے 2017 میں ایدھی سینٹر کی مدد سے اسلام آباد سے پیشہ ور بھکاریوں کے خاتمے کے لیے کوشش کی تھی اور  سٹامپ پیپر پر ان سے ضمانت لی جاتی تھی، لیکن اس بار ایسا نہیں کیا گیا۔

ماہر قانون عثمان وڑائچ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بھکاریوں کے لیے ہر صوبے میں الگ الگ قوانین موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی حدود تک آرڈیننس 1958 کے تحت پولیس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بغیر وارنٹ کے بھکاریوں کو گرفتار تو کر سکتی ہے لیکن انہیں 24 گھنٹوں میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ضروری ہوتا ہے۔

’قانون میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اس میں موجود ہے کہ بھکاریوں کو جب پکڑا جائے گا تو انہیں جیلوں یا تھانوں میں نہیں بلکہ فلاحی اداروں میں منتقل کیا جائے گا۔ اور قاتون میں جو سزا ہے اس کے مطابق ایک بھکاری کو بہتر شہری بنانے کے لیے اصلاحی نظریہ کو استعمال کریں تاکہ ایسے لوگوں کو بہتر شہری بنایا جا سکے۔‘

لیکن سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ناصرف ایسے والدین کے خلاف سخت کارروائی کی ضرورت ہے جو اپنے بچوں کو بھیک مانگنے کے لیے بھیجتے ہیں بلکہ اس جرم میں ملوث وہ عناصر جو مافیا بن چکے ہیں ان کی سرکوبی بھی ضروری ہے۔

سماجی تنظیم بازیچہ ٹرسٹ سے وابستہ ارم ممتاز کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو جیلوں میں بند کرنا اس مسئلے کا حل نہیں۔ ’دیگر ممالک میں جو  والدیں اپنے بچوں کا خیال نہیں رکھ سکتے ان سے بچے لے لیے جاتے ہیں اور فلاحی اداروں میں دے دیئے جاتے ہیں اور پھر کچھ لوگ انہیں اپنا لیتے ہیں۔‘

اس تمام تر صورت حال میں معاشی مشکلات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ماہر معشیت ڈاکٹر اشفاق حسن کہتے ہیں کہ ایک مافیا گداگروں کو پیسے بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے ’جو لوگوں کو گاڑیوں میں لاتے ہیں اور مختلف جگہوں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ ایک صنعت اور کاروبار کی شکل اختیار کر چکا ہے اور کوئی اس کی اصلاح نہیں کر رہا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین