لیہ میں تاریخی سرائے ’ہر جس گابہ‘ اور گابہ خاندان

لیہ کی دھرتی پر ہر دور میں ایسی شخصیات نے جنم لیا، جنہوں نے پوری دنیا میں نام کمایا۔ قیام پاکستان سے قبل دیکھیں تو یہاں کے ہندوؤں نے اس دھرتی پر ایسے ایسے شاندار سماجی کام کیے جو آج مدتوں بعد بھی نہ صرف قابل تعریف بلکہ قابل تقلید سمجھے جاتے ہیں۔

لیہ شہر میں ریلوے سٹیشن کے سامنے واقع امام بارگاہ جو کبھی سرائے ہوا کرتی تھی (انڈپینڈنٹ اردو)

ضلع لیہ کی دھرتی کو ایسی دعا ہے کہ یہاں ہر دور میں ایسی نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا، جنہوں نے پوری دنیا میں نام کمایا۔ قیام پاکستان سے قبل اگر دیکھیں تو یہاں کے ہندوؤں نے اس دھرتی پر ایسے ایسے شاندار سماجی کام کیے جو آج مدتوں بعد بھی نہ صرف قابل تعریف بلکہ قابل تقلید بھی ہیں ۔

لیہ کے ضلعی ہیڈکوارٹر نام بھی لیہ ہے اور گذشتہ 12 برس سے روزانہ کی بنیاد پر یہاں بسلسلہ روزگار (کورٹس رپورٹر) جانا ہوتا ہے۔ تحقیق اور تحریر کا طالب علم ہوں اس لیے اکثر اوقات وہاں کے تاریخی مقامات کو دیکھنے کا بھی موقع میسر آتا ہے۔

آج ہماری تحریر کا موضوع ہے ’ہر جس رائے گابہ کی سرائے‘ اور ’ہر جس رائے دھرم سالہ۔‘

آپ لیہ شہر میں ریلوے پھاٹک سے گزریں اور صدر بازار کی طرف جائیں تو ریلوے روڈ کراس کرتے ہی دائیں ہاتھ پر امام بارگاہ کی ایک بہت بڑی عمارت نظر آئے گی، جس کے مین گیٹ سے اندر داخل ہوں تو ساتھ ہی دو عمارتیں نظر آتی ہیں۔ پہلی سڑک کنارے عمارت کے دروازے اندر صحن میں شمال کی جانب کھلتے ہیں۔ دوسری عمارت امام بارگاہ کے بڑے ہال کے ساتھ متصل ہے، جس کے دروازے صحن میں مشرق کی جانب کھلتے ہیں۔

یہ دونوں قدیم عمارتیں 1904 میں تعمیر کی گئیں، جنہیں سرائے کہا جاتا ہے۔

اس سرائے کو رنجیت سنگھ اور دیوان سانول مل کے کاردار ’ہرجس رائے گابہ‘ اور ’نندن مل‘ نے تعمیر کروایا تھا۔

اس سرائے پر نصب تختی کے مطابق صرف ہرجس رائے کا نام سامنے آتا ہے۔

یہ سرائے کس مقصد کے لیے تھیں اور یہاں مسافروں کو کیا سہولیات میسر تھیں اس بارے میں لیہ کے ’سفرنامہ نگار‘ نعیم افغانی بتاتے ہیں کہ ’یہ ریلوے  سٹیشن کے بالکل سامنے تھیں اور یہاں اترنے والے مسافروں کو رات کے وقت دیہاتوں خصوصاً کچہ اور تھل جانے کے لیے دقت ہوتی تھی جس کے لیے یہ سرائے ان کو رہنے کھانے پینے کی سہولت دیتی تھی۔‘

ان کے مطابق یہاں ہندؤوں کے لیے الگ سرائے تھی جسے ’ہرجس رائے دھرم سالہ‘ کہتے تھے، جبکہ مسلمانوں کے لیے الگ۔ یہاں نہانے کے لیے حمام تھے، کھانے پینے کی سہولت کے علاوہ خواتین کے لیے الگ انتظام موجود تھا۔‘

ہرجس رائے گابہ

ہر جس رائے گابہ کا اصل تعلق لیہ شہر کے نواح میں بستی لڑھکے والہ سے تھا۔ یہ بستی اب بھی لیہ کے شمال مغرب میں دریائے سندھ کے کنارے آباد ہے، جس کا نام ہرجس رائے کے دادا ’لڑھکے‘ یا ’لڑکے رام‘ پر رکھا گیا تھا۔

نامور محقق مہر نور محمد تھند کے مطابق ’یہ بستی موضع سمرا شمالی میں موجود ہے۔ یہاں ایک کنواں ہرجس رائے گابہ کے والد ’مانک رائے‘ کے نام سے موجود تھا، جو بعد ازاں دریا برد ہو گیا۔‘

یہ خاندان اروڑہ گوردوارہ سے تعلق رکھتا تھا جو بعد میں ملتان سے لیہ منتقل ہوا۔ لڑھکا رام پہلے پہل حیات خان جسکانی کے عہد میں ملازم ہوا کرتے تھے اور ترقی کرتے کرتے دیوان کے عہدے تک پہنچے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جب حیات خان جسکانی کو سرگانیوں نے قتل کیا تو لڑھکا رام نے سرگانیوں کا پیچھا کیا اور انہیں شکست سے دو چار کیا۔

لڑھکا رام مر گیا تو محمد خان جسکانی نے لڑھکا رام کے بیٹے ’مانک رائے‘ کو دیوان مقرر کر دیا۔

جب سندھ کے حکمران عبدالنبی کلہوڑہ نے منکیرہ پر حملہ کیا تو محمد خان جسکانی قلعہ منکیرہ مانک رائے کے حوالے کر کے ٹوانوں کے پاس چلا گیا۔ کلہوڑہ نے مانک رائے کو گرفتار کر کے کابل بھجوا دیا، جہاں ایک سال قید کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔

مانک رائے قابل ترین اور دلیر انسان تھے۔ عسکری حکمت عملی پر دسترس تھی۔ رہائی کے بعد زمان شاہ نے انہیں ڈیرہ غازی خان میں دیوان مقرر کر دیا۔

جب محمد خان جسکانی دوبارہ لیہ اور بھکر کے گورنر مقرر ہوئے تو انہوں نے مانک رائے کو اپنے پاس واپس بلا لیا۔

حافظ احمد خان سدو زئی کا مانک رائے سے اختلاف پیدا ہو گیا۔ مانک رائے نے رنجیت سنگھ کا قبضہ ڈیرہ اسماعیل خان پر کرایا اور جب رنجیت سنگھ نے لیہ اور منکیرہ کو فتح کیا تو مانک رائے کو اپنے ساتھ ملتان لے گیا، جہاں اس کی وفات ہو گئی۔

بعد ازاں مانک رائے کے بیٹے نندن مل اور ہرجس رائے رنجیت سنگھ اور دیوان ساون مل کے کاردار رہے اور کچھ عرصے بعد دونوں کارداری چھوڑ کر لیہ آگئے اور ’سرائے‘ قائم کی اور زمینداری بھی کرتے رہے۔‘

مانک رائے ایک حکمت عملی والا دلیر انسان تھا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ قوم خیسور اور بلوٹ شریف کے سادات کا جب جھگڑا چل رہا تھا تو بلوٹ کے سادات نے محمد خان کی اطاعت قبول کر لی اور فی قلبہ ایک روپیہ مالیہ ادا کرکے خیسور قوم کی سرکوبی کے لیے درخواست کی۔

مانک رائے سب سے پہلے اس طرف متوجہ ہوا اور ان پر حملہ کر دیا۔ لڑائی کے بعد خیسور پٹھانوں نے اطاعت قبول کر لی۔

قوم خیسور کی اطاعت کے مانک رائے نے میاں خیل پٹھانوں کے قلعہ ’مہرو وآلہ‘ کا محاصرہ کر لیا اور ایک مختصر جنگ کے بعد اس پر قابض ہو گیا۔

میاں خیل کے سردار عمر خان نے اپنی مدد کے لیے دوسرے تمن کے سردار پٹھانوں کو بلا لیا۔ مانک رائے نے جب پٹھانوں کا اتحاد دیکھا تو پسپائی اختیار کرکے قلعہ مہرو والا کو خالی کر دیا۔

عمر خان میاں خیل کے حمایتی پٹھان واپس اپنے علاقوں کو چلے گئے۔ مانک رائے نے بھی ایک مدت تک اس طرف توجہ نہ دی تاکہ میاں خیلوں کو اطمینان ہو جائے۔

مانک رائے کا یہ حربہ کامیاب رہا۔ مانک رائے نے دولت وآلہ علاقہ گڑانگ کے کلاچیوں پر فوج کشی کی۔ غلام محمد خان کلاچی تمن دار نے مقابلہ کیا لیکن مانک رائے کا قبضہ دولت وآلہ پر ہو گیا۔ جب اس طرف پوری تسلی ہو گئی تو قوم استرانہ میاں خیلوں اور گنڈہ پوروں کے پاس مدد کے لیے چلے گئے جہاں سے کمک لے کر واپس آئے تو مانک رائے ان کا گھر بار لوٹ چکا تھا۔ اس لیے وہ واپس اپنے اپنے علاقوں میں چلے گئے۔

چونکہ میاں خیلوں، استرانوں اور گنڈہ پوروں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ مانک رائے ان کے مقابلے پر آئے گا اس لیے پھر سے تمام پٹھان تمن اکٹھے ہوئے۔

سرور خان کٹی خیل رئیس ٹانک کو بھی مدد کے لیے بلایا گیا اور ایک بڑا لشکر جمع کرکے مڈی کے مقام پر 1813 میں مانک رائے کی فوج پر حملہ کیا گیا تاکہ محمد خان سدوزئی کا قبضہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ختم کرا کے دریائے سندھ کے مشرق میں بھگا دیا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مانک رائے کے پاس فوج تھوڑی تھی لیکن اس نے اپنی حکمت عملی سے فوج کو ایسے لڑایا کہ پٹھان باوجود کثرت کے شکست کھا کر بھاگ گئے۔ مانک رائے نے پیچھا کرکے پٹھانوں کو بے دریغ قتل کیا جس کے باعث پٹھانوں میں ’مانکا ثوری‘ یا ’مانکا پیوی‘ جیسی ضرب المثل بنی۔

تاریخ ڈیرہ اسماعیل خان میں درج ہے: ’اگرچہ مانک رائے کے پاس پٹھانوں کے لشکر کے مقابلے میں تھوڑی فوج تھی لیکن اس نے بے درپے دھاوے کرکے پٹھانوں کے لشکر کا منہ پھیر لیا اور سخت جنگ کے پشتو میں گیت بنے ہوئے ہیں۔‘

دیوان مانک رائے نے فتح پائی پٹھان شکست کھا کر بھاگ نکلے اور مانک رائے نے علاقہ گنڈہ پوری کو لُوٹ کر ویران کر دیا۔ جو پٹھان ہاتھ آیا اس کو تہہ تیغ کر دیا۔ چنانچہ اس دن سے اب گنڈہ پوروں میں ’مانکا خوری‘ یا ’مانکاپیوی‘ ایک کلمہ بنا ہوا ہے۔‘

اس شکست کے بعد پٹھانوں کی ہمت ٹوٹ گئی اور ہر ایک تمن کے خان نے خراج دینا منظور کر لیا۔

اس شکست کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان کے پٹھان ہمت چھوڑ بیٹھے اور محمد خان سدوزئی کی اطاعت قبول کر لی۔ جس سے کالاباغ سے کے کر سنگھڑ تک پھیل گئی۔ محمد خان کا ڈیرہ اسماعیل کے علاقوں ہر قبضہ ہو گیا اور اس نے مانک رائے کو ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنا نائب بنا کر اس کے زیر انتظام کر دیا۔

یہ ہے داستان لیہ کے سپوت مانک رائے اور اس کے بیٹوں ہرجس رائے گابہ کی ہے، جنہوں نے اپنے کارناموں کی بدولت تاریخ کے اوراق میں اپنی جگہ بنائی۔

لیہ کی ہرجس رائے گابہ سرائے کی عمارت آج امام بار گاہ کا حصہ ہے، جس کی تعمیر کا شاندار نمونہ دیکھنے کے قابل ہے۔

امام بارگاہ انتظامیہ کا شکریہ کہ انہوں نے ایسی تاریخی عمارت کو گرانے کے بجائے اس کی دیکھ بھال کی اور اس کی آرائش و زیبائش کر رکھی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ