وفاق کسانوں سے 18 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدے گا: وزیر اعظم

شہباز شریف نے واضح کیا کہ کسانوں کی معاشی بہبود پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سال گندم کی وافر فصل ہوئی ہے۔

پاکستانی کسان اسلام آباد کے مضافات میں 27 اپریل 2018 کو گندم کی کٹائی کے بعد بوریاں بھر رہے ہیں (اے ایف پی / عامر قریشی)

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروسز کارپوریشن (پاسکو) کے ذریعے 18 لاکھ میٹرک ٹن گندم خریدے گی تاکہ کسانوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچایا جا سکے۔

یہ فیصلہ ہفتے کو لاہور میں گندم کی خریداری اور باردانہ کے حصول میں کسانوں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے اعلیٰ سطح کے ہنگامی اجلاس میں کیا گیا ہے۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق شہباز شریف نے واضح کیا کہ کسانوں کی معاشی بہبود پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس سال گندم کی وافر فصل ہوئی ہے۔

انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ گندم کی خریداری کے مواقع کی ذاتی طور پر نگرانی کریں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت پاسکو کے تحت 18 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کرنے جارہی ہے جس کا مقصد کسانوں کو بھرپور فائدہ پہنچانا ہے۔

وزیراعظم نے گندم کی خریداری کے حوالے سے کسانوں کی سہولت کو یقینی بنانے اور ان کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے نیشنل فوڈ سکیورٹی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔

یہ کمیٹی کسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے چار دن کے اندر اقدامات کرے گی۔

وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’کسانوں کو ان کی محنت کا معاوضہ بروقت پہنچائیں گے, ان کی محنت کو کسی کی غفلت کی بھینٹ نہیں چڑھنے دوں گا۔‘

وزیراعظم شہباز شریف گندم درآمد کیے جانے سے لاعلم رکھنے پر سیکریٹری فوڈ محمد آصف کو عہدے سے ہٹا چکے ہیں جبکہ گندم سکینڈل تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ وفاقی سیکریٹری کابینہ کامران علی افضل نے محمد آصف اور سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے دور کے سیکریٹری فوڈ کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود کے بیانات قلمبند کرلیے ہیں۔

نگران حکومت کے وزیر خزانہ شمشاد اختر کو بھی اس معاملے کی تحقیق کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

گندم کی فصل

پنجاب میں اس سال گندم کی بہت اچھی فصل حاصل ہوئی ہے لیکن کاشتکاروں کو کم حکومتی نرخ کے باوجود خریداری نہ ہونے پر پریشان کا سامنا ہے۔

حکومت نے اس سال گندم کی خریداری کا حدف 3900 روپے فی من مقرر کیا ہے، جب کہ گذشتہ برس یہ نرخ 4000 روپے تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجاب میں گندم کی کٹائی شروع ہو چکی ہے لیکن فروخت حکومتی نرخ سےکم پر بھی نہیں ہو رہی۔

کسان اتحاد کے ایک دھڑے نے 29 اپریل سے مال روڑ پر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے۔

کاشتکاروں کے مطابق فلور ملز گندم 2000 سے 2200 روپے فی من کے نرخ پر خرید رہی ہیں اور حکومتی اعلان کے باوجود انہوں نے ابھی تک خریداری شروع نہیں کی۔

صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین کے مطابق: ’پنجاب میں ان دنوں  ضرورت سے زیادہ 26 ہزار میٹرک ٹن درآمدی گندم گوداموں میں موجود ہے، جو نگران حکومت نے منگوائی تھی۔

’لاکھوں درخواستیں باردانے کی موصول ہوئی ہیں ہم 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم نہیں خرید سکتے۔ اس سے تین سے چار سو ارب روپے کا نقصان ہو گا۔‘

محکمہ خوراک پنجاب کی جانب سے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ’کاشتکاروں سے باردانہ کے اجرا کے لیے پی آئی ٹی بی (پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ) کی موبائل ایپ کے ذریعے 13 اپریل سے 17 اپریل کو وصول کی گئیں۔

اعلامیہ کے مطابق پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی کی تصدیق کے بعد کسانوں کو باردانہ ایپ کے ذریعے تصدیقی پیغامات موصول ہوں گے۔

’باردانہ کا اجرا آئندہ جمعے سے شروع ہو گا، جو پہلے آئیے پہلے پائیے کی بنیاد پر ہو گا۔‘

گندم خریداری میں حکومت کو درپیش چیلنجز

صوبائی وزیر خوراک بلال یاسین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہماری حکومت ایک ماہ پہلے آئی ہے مگر اس سے پہلے سرکاری گوداموں میں 26 لاکھ میٹرک ٹن گندم کا سٹاک موجود ہے۔ جو نگران حکومت نے درآمد کر رکھی ہے ہمارے گوداموں میں گندم رکھنے کی جگہ موجود نہیں۔ حکومت جو گندم خریدے گی وہ بھی جگہ کرائے پر لے کر رکھی جائے گی۔‘

بلال یاسین کے بقول، ’خریداری ضرور ہو گی مگر پہلے سے آدھی خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تین لاکھ 60 ہزار درخواستیں موصول کی جارہی ہیں۔ جن سے درخواستیں موصول ہوئی ہیں ان سے گندم ضرور خریدیں گے۔ اگر ساری گندم خریدیں تو حکومت کو تین سے پانچ سو ارب روپے تک نقصان ہو گا۔‘

صوبائی وزیر خوراک نے کہا کہ ’کسانوں کے نمائندوں کی وزیر اعلی مریم نواز سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ ہم کسانوں کو کسان کارڈ دے رہے ہیں جس سے انہیں کھادیں، بیچ اور سپرے سستے دام میں ملیں گے۔ حکومت سبسڈی دے نہیں سکتی کیونکہ آئی ایم ایف نے سبسڈی دینے سے منع کیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے جو پالیسی بنائی ہے اس کے مطابق صرف چھ ایکڑ والے کاشتکار حکومت کو 3900 روپے فی من کے ریٹ سے گندم فروخت کر سکیں گے۔ چھ ایکڑ کے مالک کسان کو فی ایکڑ چھ بیگ کے حساب سے 36 تھیلے باردانے کے فراہم کیے جائیں گے۔‘

کسانوں کا رد عمل

چیئرمین کسان اتحاد پاکستان خالد حسین باٹھ اور مرکزی صدر میاں عمیر کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ’گذشتہ سال حکومت نے کسانوں گندم لگانے کی ترغیب دی اور انہوں نے پہلے سے زیادہ فصل لگائی۔ مگر اب گندم خریدی نہیں جا رہی۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’بجلی مہنگی، مہنگا ڈیزل اور بلیک میں کھاد لے کر کسانوں نے گندم لگائی مگر اس کو نرخ نہیں مل رہا۔ گذشتہ سال گندم کا سرکاری ریٹ 4000 روپے من تھا جب کہ اس بار صرف 3900 روپے سرکاری ریٹ مقرر کیا گیا ہے۔‘

بیان میں افسوس کا اظہار کیا گیا کہ نگران حکومت پاکستانی کسانوں کی فصلوں کا سوچے بغیر 22 لاکھ ڈالر کی گندم بیرون ملک سے منگوائی۔

’فلور ملز والے 2200 اور 2400 میں گندم خرید رہے ہیں۔ چھ ایکڑ والے کو ایک ایکڑ  کے عوض چھ بیگ دیے جا رہے ہیں۔ جو پالیسی بنائی گئی ہے اس سے کسان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ جنوبی پنجاب میں تو وٹس ایپ نہیں چلتا وہاں پر ایپ کیسے چلے گی؟‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ملتان اور بہاولپور ڈویژنوں میں 70 لاکھ میٹرک ٹن  گندم کی پیداوار ہوئی اس کا کسان کیا کریں؟‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت